پنجاب پولیس کی اندرونی کہانی!

76

آفاقی سچ ہے کہ اداروں کی کامیابی کا راز ان کے ورکر زہیں۔ فیکٹریاں محنت کشوں کے بل پر چلتی ہیں۔ بڑی بڑی عمارتوں کی بنیادوں میں مزدوروں کا خون پسینہ شامل ہوتا ہے تو وہ آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔ریسٹورنٹس کی کامیابی کے پیچھے باورچی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ”ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ“۔ اس کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ مزدور ہر ادارے میں ہوتے ہیں۔ محنت کش ہر فیکٹری میں کام کرتے ہیں اور شیف ہر ریسٹورنٹ میں ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک ہی جیسے مزدوروں کے باوجود ایک فیکٹری اوج ثریا تک پہنچ جاتی ہے اور دوسری دیوالیہ ہو جاتی ہے۔ ایک ریسٹورنٹ میں جگہ ہی نہیں ملتی اور دوسرے میں چہل پہل نام کو ہی نظر آتی ہے۔ ایک ہی جیسے لوگوں کو لے کر کسی ادارے کے کامیاب یا ناکام ہونے کے پیچھے سب سے اہم کردار ٹیم لیڈر کا ہوتا ہے۔ یہ ٹیم لیڈر ہی ہوتا ہے جو ان ورکرز کو لے کر ادارے کو ترقی کی جانب لیجاتا ہے یاتنزلی کی طرف۔ دنیا کے ٹاپ اداروں کو دیکھ لیں۔ ان کی سب سے زیادہ توجہ لیڈر کے انتخاب پر ہوتی ہے۔ ایسا شخص جو اپنی ٹیم کی خوبیوں اور خامیوں سے واقف ہو، جسے علم ہو کہ اس کی ٹیم کے کون کون سے مسائل ایسے ہیں جنہیں حل کر دیا جائے تونتائج کئی گنا زیادہ ملیں گے۔جو انہی ورکرز کا مورال بلند کرتے ہوئے ان سے بہترین کام لے سکے جو اس سے پہلے اسی ادارے کی ناکامی کا باعث بن رہے ہوں۔ ایسا ٹیم لیڈر دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور کمپنیز کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان کے لیے کام کرے اسی لیے انہیں بھاری مراعات اور پیکیج دیے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اس اینٹ کی مانند ہوتے ہیں جو نکل جائے تو پوری دیوار منہدم ہو جاتی ہے۔ عمارت کی مضبوط دیوار اسی اینٹ کی وجہ سے اپنی جگہ مضبوطی سے جڑی ہوتی ہیں۔ ایسے ٹیم لیڈرز میں ایک بات مشترک ہے وہ یہ کہ انہیں ورکرز کی اہمیت کا علم ہوتاہے۔ یہ اپنے ماتحتوں کو سہولیات مہیا کرتے ہیں۔ ان کا مورال بلند کرتے ہیں۔ انسانی نفسیات بھی یہی بتاتی ہے کہ اگر کسی شخص کو بیرونی دباؤ یا پریشانیوں سے آزاد کر دیا جائے تو اس کی کارکردگی نمایاں طور پر بہتر ہو جاتی ہے۔ موجودہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے جب سے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا ہے تب سے ہی ان کی جانب سے مسلسل ایسے اقدامات سامنے آ رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہترین نتائج حاصل کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ پنجاب میں پولیس فورس کے کمانڈر کی حیثیت سے جہاں انہوں نے پولیس افسران و
اہلکاروں کی ترقیوں کے حوالے سے اقدامات کیے وہیں اچھا کام کرنے والوں کو شاباش اور کیش ریوارڈ دینے میں بھی بخل سے کام نہیں لیا۔ یہ ایسا کمانڈر ہے جو اگلے مورچوں پر جا کر اپنے جوانوں کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ چند ہفتے قبل میانوالی میں کالعدم دہشت گرد تنظیم کی جانب سے ایک پولیس چوکی پر حملہ کیا گیا تھا جسے وہاں موجود اہلکاروں نے بہادری سے ناکام بنا دیا۔ غالبا پہلی بار ایسا ہوا کہ عالمی سطح پر ڈسکس ہونیوالی اس تنظیم کے خطرناک دہشت گردوں نے پوری تیاری سے حملہ کرنے کے بعد پسپائی اختیار کی ہو اور انہیں کسی قسم کی کامیابی بھی حاصل نہیں ہو سکی۔ یہ حملہ رات میں ہوا تھا اور صبح آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اسی پولیس چوکی پر پہنچ گئے جہاں انہوں نے نہ صرف بہادر جوانوں کو شاباش اور کیش ریوارڈ دیا بلکہ ایک باپ کی طرح ان کو گلے سے لگا کر ماتھا بھی چوما۔ اسی طرح کچے کے علاقے میں پولیس فورس اور خطرناک ڈاکووں کا مقابلہ ہوا تو آئی جی پنجاب وہاں بھی جوانوں کے درمیان پہنچ گئے۔ دوسری جانب انہوں نے فورس کے لیے متعدد سہولیات مہیا کرنے میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ہے۔ یہ کبھی سنٹرل پولیس آفس کینٹین میں اچانک جا کر کسی جوان کی پلیٹ سے کھانا کھاتے اور معیار چیک کرتے ہیں تو کبھی پولیس لائنز کی کینٹین میں کسی اہلکار کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے نظر آتے ہیں۔ یہ ہر دوسرے دن پولیس شہدا کی فیملیز اور بچوں کے ساتھ بھی وقت گزارتے اور ان کے مسائل سن کر ازالہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کمانڈ میں پولیس اہلکاروں کا مورال تیزی سے بڑھا ہے۔ ڈاکٹر عثمان انور اب تک کے واحد آئی جی پنجاب ہیں جو باقاعدگی سے کمپلینٹ سنٹر 1787 میں فون کالز پر خود شہریوں کی شکایات سنتے اور موقع پر احکامات دیتے ہیں اور غفلت برتنے والے افسران و اہلکاروں کے خلاف ایکشن لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
ڈاکٹر عثمان انور ماڈل میں پولیس فورس کو تیزی سے بیرونی معاشی و معاشرتی دباؤ سے آزاد کرتے ہوئے اہلکاروں کی پریشانیوں کا ازالہ کیا جا رہا ہے۔ پولیس فورس کے مسائل حل ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہلکاروں کی مکمل توجہ اپنے فرائض کی انجام دہی پر مرکوز ہو گئی۔ اس ماڈل میں پولیس اہلکاروں کے لیے ان کی ڈیوٹی کو باعث سہولت بنایا گیا ہے یہاں تک کہ ہر اہلکار کے لیے دو سال پنجاب کانسٹیبلری میں ڈیوٹی سرانجام دینا لازمی ہے لیکن یہ ڈیوٹی ترقی دیتے وقت فیلڈ ڈیوٹی میں شمارنہیں ہوتی تھی اس بنیاد پر اہلکاروں کی ترقیاں رک جاتی تھیں جس کی وجہ سے وہ پی سی ڈیوٹی ایک مجبوری سمجھی جاتی تھی۔ موجودہ آئی جی پنجاب نے پنجاب کانسٹیبلری کو فیلڈ ڈیوٹی میں شامل کر دیا جس کی وجہ سے پولیس ملازمین کے درمیان اس حوالے سے پائی جانے والی تشویش ختم ہو گئی ہے اور وہ اس پوسٹنگ میں بھی دلجمعی سے فرائض سر انجام دینے لگے ہیں۔اسی طرح ڈاکٹر عثمان انور کی کاوشوں سے پنجاب پولیس کا بڑے تعلیمی اداروں سے معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت وہاں پنجاب پولیس کے شہدا کے بچوں کو مفت داخلہ ملے گا جبکہ حاضر سروس اہلکاروں کے بچوں کو بھی فیس اور دیگر مد میں خصوصی رعایت دی جائے گی۔ ان کا ایک بہترین کام یہ ہے کہ انہوں نے پولیس شہدا اور دوران سروس انتقال کر جانے والے پولیس ملازمین کے بچوں کو محکمہ پولیس میں ملازمتیں دینے کا سلسلہ تیز کر دیا ہے تاکہ عوام کے تحفظ کے لیے بے جگری سے لڑنے والے اہلکاروں کے اہل خانہ کو مسائل کا سامنا کم سے کم کرنا پڑے اور دیگر فورس کا حوصلہ اور مورال بھی بلند ہو کہ اگر ملک کی راہ میں یہ جان جاتی بھی ہے تو ہمارے خاندان لاوارث نہیں ہوں گے۔ ایک جانب انہوں نے پولیس فورس کے معاشی مسائل حل کیے دوسری جانب انہی اہلکاروں کے ذریعے سروسز ڈیلیوری کو مزید تیز کر دیا ہے۔ آئی جی پنجاب کے حکم پر پنجاب کے 6 بڑے شہروں میں 24/7 ڈرائیونگ ٹیسٹ کا آغاز ہو چکا ہے جبکہ باقی شہروں میں بھی ڈرائیونگ لائسنس ٹیسٹ کے لیے دو دن سے بڑھا کر 6 دن سروس کر دی گئی ہے، اسی طرح 1787 کمپلینٹ سیل کو بھی ہفتے کے ساتوں دن اوپن کیا گیا ہے۔ عوام کے لیے پنجاب پولیس کی دیگر سروسز بھی اسی طرح تیز کی جا چکی ہیں جو قابل تعریف ہیں۔
پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی آئی جی پولیس نے فورس کے مسائل کا ازالہ اور عوام کے لیے فوری سروسز کی فراہمی پر بیک وقت کام کیا ہو اور سال یا مہینے نہیں بلکہ دنوں میں نتائج حاصل کیے ہوں۔ اس وقت جہاں پولیس فورس کی پریشانیاں ختم ہو رہی ہیں اور سب سے بڑھ کر انہیں یہ سکیورٹی مل رہی ہے کہ اگر دوران ڈیوٹی وہ شہید یا زخمی ہوئے تو محکمہ ان کے بچوں کو ملازمت دینے کے ساتھ ساتھ اہل خانہ کی مکمل مالی مدد بھی کرے گا وہیں عوام کو بھی پولیس سروسز کے حوالے سے ریلیف مل رہا ہے۔ وہی سروسز جو پہلے مخصوص دنوں میں دستیاب ہوتی تھیں اب پورا ہفتہ میسر ہیں۔ پنجاب میں پولیس فورس کو علم ہے کہ اگر کسی نے غفلت، لاپروائی یا اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تو اس کے خلاف شہری کی فون کال خود آئی جی پنجاب سن رہے ہوں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر چند ماہ بھی یہ سب اسی طرح جاری رہا تو پولیس کلچر یکسر بدل جائے گا۔

تبصرے بند ہیں.