الیکشن 90 دن میں کرائے جائیں :سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

279

 

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 دن میں انتخابات کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ بڑھ کر سنایا۔ فیصلہ 3،2 کے تناسب سے سنایا گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔

 

کمرہ نمر ایک میں چیف جسٹس نے فیصلہ قرآنی آیات سے شروع کیا۔چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ بینچ کی اکثریت نے درخواستوں کے حق میں فیصلہ دیا ۔ 3 ججز نے درخواستوں کے حق میں جبکہ دو ججز نے اختلاف کیا ۔ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا ۔

 

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین عام انتخابات سے متعلق وقت مقرر کرتا ہے ۔ آئین ساٹھ دن اور نوے دن کی بات کرتا ہے ۔

 

چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا کہ جنرل انتخابات کا طریقہ کار ہوتا ہے ۔انتخابات دونوں صوبوں میں 90 روزمیں ہونا ہیں  اگرگورنراسمبلی تحلیل کرے توتاریخ کا اعلان بھی خود کرسکتا ہے ۔3 ججز نے درخواستوں کے حق میں جبکہ دو ججز نے اختلاف کیا ۔بینچ کی اکثریت نے درخواستوں کے حق میں فیصلہ دیا ۔

 

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیاہے کہ آئین عام انتخابات سے متعلق وقت مقرر کرتا ہے ۔آئین میں ساٹھ دن اور نوے دن کی بات کرتا ہے  ۔بینچ کے 2 ممبران نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراص کیا۔جنرل انتخابات کا طریقہ کار ہوتا ہے ۔

 

اگرگورنراسمبلی تحلیل کرے توتاریخ کا اعلان بھی خود کرسکتا ہے ۔گورنر آرٹیکل 112 کے تحت اور دوسرا وزیر اعلی کی ایڈوائس پر اسمبلیاں تحلیل کرتا ہے۔

 

 

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گورنر کے پی الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد تاریخ دے ۔ کے پی میں انتخابات کی تاریخ کا اختیار گورنر کو حاصل ہے ۔ کے پی میں انتخابات کے انعقاد کیلئے صدر مملکت کی طرف سے دی گئی تاریخ کالعدم قرار دے دی گئی ۔

 

فیصلے پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کیلئے صدر مملکت کی طرف سے دی گئی تاریخ آئینی قرار دی گئی ۔ الیکشن کمیشن فوری صدر مملکت سے مشاورت کرے ۔

 

اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ کا اعلان بھی خود کر سکتا ہے تاہم اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہ کرے تو صدر مملکت تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں۔‘ عدالت کا کہنا ہے کہ گورنر خیبر پختونخوا نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کر کے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا ہے۔

 

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن صدر اور گورنر سے مشاورت کا پابند ہے اس لیے وہ فوری طور پر صدر مملکت سے مشاورت کرے۔ عدالت کا یہ بھی کہنا ہے کہ وفاقی حکومت سمیت تمام متعلقہ ادارے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں۔

 

سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا میں صدر کی دی گئی الیکشن کی تاریخ کا حکم بھی کالعدم قرار دیا اور کہا خیبر پختونخوا میں انتخابات کے اعلان کا اختیار گورنر کا ہے جبکہ صدر مملکت کی جانب سے دی گئی تاریخ پنجاب پر لاگو ہو گی۔

 

عدالتِ عظمیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ نو اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ بدلی جا سکتی ہے۔
گزشتہ روز دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بھی آئنی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا۔ عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں، ہمیں بھی ٹھوس وجوہات دینا ہونگی، 90 روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، کسی فریق کی نہیں آئین کی حمایت کر رہے ہیں، سیاسی جماعتیں الیکشن کی تاریخ پر مشاورت کریں۔

 

چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کا فرض ہے کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان کرے، آئین نظام کو مفلوج ہونے کی اجازت نہیں دیتا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا صدر مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا الیکشن کی تاریخ دینا صدر کی صوابدید ہے۔

 

فاروق نائیک نے کہا الیکشن کی تاریخ دینا سیاسی جماعتوں کا کام نہیں، صدر عارف علوی کے وکیل نے اعتراف کیا کہ صدر نے کے پی الیکشن کی تاریخ دیکر آئینی اختیار سے تجاوز کیا، ایڈوائس واپس لے رہے ہیں،الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا پہلے دن سے ہی موقف ہے کہ تاریخ کا اعلان گورنر کو کرنا ہے، جسٹس محمد علی مظہرنے کہا صدر انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتے تو سیکشن57 ختم کیوں نہیں کردیتے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کئی قوانین گھنٹوں میں بنائے گئے، آج بھی قانون بنا کرذمہ داری دے دیتے۔

 

عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ تمام ادارے انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابندہیں ،انتخابات پر متحرک ہونا کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ منگل کو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کیلئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔

 

پانچ رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے بتایا کہ چار ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا تھا۔ سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ بارکے صدر عابد زبیری پر اعتراض اٹھادیا،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں، جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکم نامہ نہیں ہوتا، جب ججز دستخط کردیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔دوران سماعت فاضل جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے تحت صدر اور گورنر فیصلے میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنر اپنے طور پر دے سکتے ہیں؟۔چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا کہ آئین کے تحت نگران حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پرگورنرکسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔

 

 

تبصرے بند ہیں.