وزیر اعلیٰ کی بغلیں

21

بزم اقبال وزیراعلیٰ ہاوس کی بغل میں ہے۔ ویسے تو پورا پنجاب ہی ہمیشہ کسی نہ کسی وزیراعلیٰ کی بغل میں ہی ہوتا ہے اور کم از کم میں نے تو جتنے بھی وزیراعلیٰ دیکھے ہیں بغلیں بجاتے ہی دیکھے ہیں۔ آج کل گھر سے بزم اقبال کے دفتر آتے روز ایک ہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ پنجاب کے کنٹریکٹ پر بھرتی کیے گئے ٹیچرز دھرنا دیے بیٹھے ہیں کبھی ماتم کرتے ہیں، کبھی نعرے لگاتے ہیں اور کبھی تھک کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اگرچہ شاید وزیر اعلیٰ پنجاب جناب چودھری پرویز الٰہی کے کان پر تو جوں تک نہیں رینگتی ہو گی لیکن پورے لاہور کی ٹریفک مال روڈ پر پولیس کے ناکے لگا دیئے جانے کی وجہ سے رینگ رینگ کر گزرتی ہے۔ جب بھی مال روڈ پر ٹریفک رکتی ہے یا کسی اور سمت موڑی جاتی ہے تو اس کا دباؤ پورے شہر کی سڑکوں پر پڑتا ہے اور پانچ دس منٹ کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ ایمبولینس کو راستہ نہیں ملتا، جلدی منزل پر پہنچنے کے خواہشمند پاکستانی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ سرزمین پاکستان جسے کبھی تو یہ بتایا گیا کہ تم مسلمانوں کی ایک آزاد ریاست ہو، کبھی یہ بتایا گیا کہ تم علامہ اقبال کا خواب ہو، کبھی یہ بتایا گیا کہ تم مدینے کی نظریاتی طرز پر بننے والی دنیا کی پہلی ریاست ہو، ایک سیکولر ملک ہو جہاں کسی کو مذہب،
فرقے، زبان اور علاقے کا تعصب نہیں ہو گا۔ اس بنیاد پر کسی سے نفرت نہیں کی جائے گی نہ قتل کیا جائے گا۔ پاکستان کو کسی بغلیں بجانے والے سیاسی رہنما نے تو یہ تک جھانسا دے ڈالا تھا کہ ہم تمہیں بہت جلد ایشیا کا ٹائیگر بنا دیں گے۔ اگرچہ اس وقت بھی میاں نواز شریف کا یہ دعویٰ سن کر پاکستان کی اسی فیصد بلیوں کا ہاسا نکل گیا تھا لیکن آج ایشیا کا ممکنہ ٹائیگر جس حال کو پہنچ چکا ہے اس پر آنسو بہانے والا بھی کوئی نہیں رہ گیا۔
جب انفرادی سوچ اور خواہشات معاشروں پر مسلط کر دی جائیں، افراد اجتماعیت پر غلبہ پا لیں اور یہ غلبہ تسلسل اختیار کر جائے تو نتیجتاً معاشرت، سیاست، ریاست اور قیادت کے تصورات بدلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ علامہ اقبال کے تصور پر بننے والا ملک اور قائد ِ اعظم کی فکر پر وجود میں آنے والی ریاست کے اپنے آغاز سے ہی اغیار کے ہاتھوں میں چلے جانے کا تصور ملتا ہے۔ قائد ِ اعظم کی آخری وقت میں کسمپرسی، لیاقت علی خان کا قتل، مادر ِ ملت فاطمہ جناح کی بے حرمتی، آمروں کی طالع آزمائی، ملک کا ٹوٹنا ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، جنرل ضیا الحق کی عاقبت نااندیشی، بے نظیر بھٹو کی شہادت، نوازشریف و زرداری کی حکمرانی، مشرف کی مجبوریاں، صحافیوں کا قتل، قمر جاوید باجوہ کی جمہوری آمریت یا آمرانہ جمہوریت، عمران خان پر قاتلانہ حملہ اور اداروں کے بے نقاب ہونے کا صدمہ ایک ایک حقیقت چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہے کہ دو قومی نظریے پر بننے والی ریاست دراصل ہاتھی کے دانت ثابت ہوئی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ وطن ہمارا ہے لیکن آج پتہ چلا کہ نہیں یہ کبھی ہمارا نہیں تھا، ہمیں بتایا گیا کہ ہم ہیں پاسباں اس کے آج ہم ایک ایک کو آواز دے کر اور پکار پکار کر پوچھ رہے ہیں کہ اس ملک کا اگر کوئی پاسبان ہے تو کہاں ہے۔ کیا آج پورے ملک میں کوئی ایسا دانشور ہے جو ہمیں بتا سکے کہ حب الوطنی کیا ہوتی ہے؟ ریاست کے چار ستون ہوتے ہیں لیکن ہماری پچھتر سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ حقیقت میں کوئی پانچواں اور نادیدہ ستون ہے جس پر ہماری ریاست کھڑی ہے جس کے نزدیک توازن کی کوئی الگ اور ذاتی تعریف ہے۔ یہی چودھری پرویز الٰہی پہلے وزیر اعلیٰ بنے تھے تو ایک تاریخی نیک نامی لے کر رخصت ہوئے۔ آج تحریک انصاف پر پڑنے والا ملبہ بھی اپنے سر پر اٹھا کے جائیں گے کیونکہ کوئی مانے نہ مانے لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستان ایک ایسے سیاسی اور معاشی ملبے میں بدل چکا ہے جس کے نیچے غربت، افلاس، مایوسی اور غم و غصے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا۔ اب جو بھی اس ملبے پہ بیٹھ کر بغلیں بجائے گا کچھ وقتی مفادات تو شاید حاصل کر لے لیکن نیک نامی جھوٹی بھی ملنا مشکل ہے کیونکہ عمران خان نے اشتہاروں کی طرح تقریر دہرا دہرا کر حقیقت حال لوگوں کے دلوں پر نقش کر کے رکھ دی ہے۔
پہلے یہ سوال پوچھا جاتا تھا کہ ملک میں جمہوریت کو پانچ سال پورے کیوں نہیں کرنے دیئے جاتے۔ آج اس سوال کا جواب عمران خان کے وائرل ہونے والے سوال نے ہی دے دیا ہے، ”ہم کوئی غلام ہیں“۔ اور اب ملک کا بچہ بچہ پوچھ رہا ہے کہ ہم کوئی آزاد ہیں؟
عوام کی طرف سے بھی کمال کر دیا گیا
وطن مِرا ہے یا تِرا سوال کر دیا گیا
مرا یقین کیوں ملا دیا گیا ہے خاک میں
یہ کیوں مرے عروج کو زوال کر دیا گیا
یہ پانچ پانچ سال کا فریب بھی ہے عارضی
کہ منقطع کبھی، کبھی بحال کر دیا گیا
وہ کہہ رہا ہے بار بار کچھ نہیں ہوا یہاں
ہمیں پتہ ہے جو ہمارا حال کر دیا گیا
کسی کوچھپ چھپا کے دی گئی مزے کی زندگی
کسی کو لقمہ اجل اچھال کر دیا گیا
وہ کہہ رہا تھا کچھ دنوں میں درد بانٹ لوں گا میں
اور اس کے بعد کچھ دنوں کو سال کر دیا گیا۔۔

تبصرے بند ہیں.