معیشت اور ٹیکس گریزی کا کلچر

35

وطنِ عزیز کا انتظام ناکام ترین نسل کے ساتھ ساتھ جن طبقات کے اختیار میں ہے اس کے سبب کئی مسائل کا شکار ہے۔ لیکن آج سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا ہے جو انتہائی درجے تک زبوں حالی کا شکار ہے۔ سیاستداں اس پریشان کن معاشی صورتحال کا ادراک رکھنے کے باوجود ثانوی مسائل اور وہ بھی ذاتیات سے متعلق مسائل پر دست و گریباں ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جو پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ان کے ثمرات بھی دولت مند طبقات تک پہنچتے ہیں جب کہ عوام کی اکثریت مہنگائی اور ٹیکسوں کے تلے دبی جاتی ہے۔
ٹیکس کی وصولی ہمیشہ سے ہر حکومت کا مسئلہ رہا ہے۔ دانشور اور انکم ٹیکس کے معروف وکیل محمود مرزا مرحوم اسے سماجی زاویے سے دیکھتے تھے۔اس ضمن میں ان کی کتاب ”ٹیکس نظام کا سماجی جائزہ“ پڑھنے کے لائق ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگرچہ ہمارے ٹیکس اور تجارت کے قوائد عالمی تقاضوں کے مطابق ہیں لیکن ہمارا معاشی عمل جدید خطوط پر استوار نہیں ہوسکا ہے۔ معاشی عمل جس کی بنیاد آج کے دور میں جدید علوم اور ٹیکنالوجی پر ہے۔ لیکن ریاستی طاقت کے علم برداروں اور ریاستی وسائل پر قابض طبقات نے جدیدیت کی راہ میں ہر طریقے سے روکاوٹ پیدا کی ہے۔ نہ صرف نئے تقاضوں سے ہم آہنگی میں رکاوٹ پیدا کی بلکہ ان بالادست طبقات نے آمدنیوں کو چھپایا، مراعات حاصل کیں اور ٹیکس کے قوانین میں اپنی آسانیوں کے لیے چور دروازے کھولے۔ جس کے نتیجے میں دولت مندوں سے ٹیکس وصولی کی گنجائش کم ہوتی چلی گئی اور ریاست کا نظم چلانے کے لیے ٹیکسوں کا بوجھ عام استعمال کی اشیاء اور خدمات پر ڈال دیا گیا۔یہاں مرزا
صاحب ایک جملے میں پاکستان کے مسائل کا بنیادی سبب بیان کرتے ہیں کہ ”ایک جانب بوسیدہ معاشرے نے ٹیکس نظام کو اور دوسری جانب ٹیکس نظام نے معاشر ے کو پس ماندہ رکھا ہوا ہے“۔
محمود مرزا صاحب تجویز دیتے ہیں کہ ٹیکس ریفارم کے لیے عوام میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بھاری ٹیکسوں کے بوجھ تلے عوام ہی دبتے ہیں جب کہ دولت مندوں کے ذرائع آمدن ایک سے زائد ہوتے ہیں اس لیے وہ ٹیکس ریفارمز میں دلچسپی نہیں لیتے ہیں۔ ہر حکومت ٹیکس وصولی کی شرح اور نیٹ ورک بڑھانے میں ناکام رہتی ہے۔ اس ضمن میں مرزا صاحب مزید بتاتے ہیں کہ ٹیکس ریفارم کی بنیاد پر سماجی اصلاح کی تحریک کو فروغ دینا چاہیے۔ جس کی یہ صورت ہو کہ اس تحریک کو غیر سیاسی طور پر منظم کیا جائے جس کا آغاز دانشور، سماجی زندگی میں عملی حصہ لینے والے افراد اور صارفین تنظیمیں مل کر کریں۔ وہ مطالبہ کریں کہ بڑے اور متوسط طبقے کے دکاندار اور صنعتکار اشیاء فروخت کرتے وقت کیش میمو جاری کیا کریں۔ اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے حکومت اس طرح مدد کرسکتی ہے کہ وہ کیش میمو کی بنیاد پر لاٹری سسٹم کا اجرا کا بندوبست کرے جس خریدار کی پیش کردہ کیش میمو کی لاٹری نکلے اسے انعام دیا جائے۔ اسی طرح تاجروں اور صنعتکاروں کو بھی ترغیب دی جائے کہ اگر وہ کیش میمو جاری کریں گے تو انھیں ری بیٹ دی جائے گی۔ اس تحریک کی کامیابی دور رس نتائج پیدا کرے گی۔ کالا دھن کنٹرول ہوجائے گا اور حکومت معاشی نظم بہتر انداز میں چلا پائے گی۔اگرچہ اس کام میں مشکلات درپیش ہونگی لیکن اگر یہ تحریک کامیاب ہوگئی تو قوم کو نئی خود اعتمادی حاصل ہوگی اور ریفارم کا دائرہ بتدریج تمام شعبوں میں پھیلتا چلا جائے گا۔ سماجی خدمت کا یہ پروگرام سماجی سیاستدان بھی پیدا کرنے کا سبب بنے گا جو پاکستان ایسے ترقی پذیر ممالک کی ضرورت ہے۔ ایسے سیاستدان جن کا مقصد اقتدار برائے اقتدار نہ ہو بلکہ اقتدار برائے سماجی خدمت ہو۔
یہ چند بنیادی تجاویز ہیں جو کئی برس پہلے محمود مرزا صاحب نے قومی معیشت کا سماجی پہلو سے بھرپور تجزیہ کرنے کے بعد پیش کی تھیں۔ ہمارے ایسے دانشور اور معیشت داں بھی ہیں جن کی معیشت کے موضوع پر درجنوں کتابیں ہیں اور و ہ مختلف ادوار میں ملک کے کلیدی معاشی عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں لیکن وہ اپنی فکر اور خیالات کو عملی طور پر نافذ نہیں کر سکے۔ محمود مرزا صاحب کی تجاویز اس حوالے سے زیادہ اہم ہیں کہ ان کا عملی نفاذ ممکن ہے۔

تبصرے بند ہیں.