عرصہ ہوا وطن عزیز قحط الرجال ایسی صورت حال سے دو چار تھا عوام کی مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی تھیں۔ کوئی ایسا مسیحا نظر نہیں آ رہا تھا جو ملک کو در پیش مسائل کی گہری دلدل سے نکال سکے۔ پیٹرول سستا ہونے کے باوجود مہنگائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا تھا۔ گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والے سخت سردی کے موسم میں بھی عوام کو بجلی دینے سے قاصر تھے اور اب تو گیس بھی کم کم ہی آتی تھی اور ان سب سے بڑھ کر دہشت گردی تھی کہ جس سے اب معصوم بچے بھی محفوظ نہیں تھے اور ہماری قیادت اس قابل بھی نہیں تھی لیکن اس میں قصور کسی اور کا نہیں خود ہمارا تھا اس لیے کہ آج میرے چمن کی جو حالت ہے اسے بگاڑنے میں دوسروں سے زیادہ اپنوں کا ہاتھ ہے اس وقت جن حالات سے ہمارا سامنا تھا اس میں ضرورت تھی کسی ایسی لیڈر شپ کی جو اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر اپنی جان کی پروا کیے بنا ملک اور قوم کے مفاد میں فیصلے کرتی اور پھر 15 سال قبل ایک شخصیت نے فیصلہ کیا تھاکہ جان جاتی ہے تو جائے لیکن وہ اپنے وطن ضرور جائیں گی ملک میں ان کی جان کو خطرہ تھا لیکن اس عظیم شخصیت نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے ہر حال میں وطن واپسی کا فیصلہ کیا کیونکہ آمریت کی سیاہ رات طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی تھی۔ آمر اپنے مکمل اختیارات کے ساتھ مسند اقتدار پر قبضہ جمائے بیٹھا تھا۔ حسب روایت اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے آئین پامال کر کے ہر قسم کی ترامیم کی اجازت بہت پہلے ہی مل چکی تھی۔ جس کا اس نے بھر پور فائدہ بھی اٹھایا تھا اور جمہوری ادوار کے برعکس آئین کا حلیہ بگاڑنے والی ان ترامیم کے خلاف نہ تو کسی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور نہ ہی جمہوری دور میں ہر روز ہر مسئلہ پر ازخود نوٹس لینے والے کسی منصف کی آنکھ خواب غفلت سے کھلی تھی۔ آمریت کے بھیانک سیاہ سائے گذشتہ آٹھ سال میں وطن عزیز کے ہر ادارے پر اپنا قبضہ مستحکم کر چکے تھے۔ قومیتوں کے مسائل پیچیدہ ہو چکے تھے پاکستان کی وحدت کی امین لسانی اکائیاں ایک دوسرے کے ساتھ خطرناک حد تک صاف الجھتی نظر آ رہی تھی۔ مسلکی اختلافات کی چنگاڑی فرقہ پرستی کے ہولناک الاؤ کی شکل میں معصوم انسانی جانوں کو نگل رہی تھی، دہشت گردی کا جن بوتل سے باہر آ کر کشت و خون کی ہولی کھیل رہا تھا، توانائی، بیروزگاری اور مہنگائی کا طوفان اپنی ابتدائی شکل میں ہی اتنا بھیانک روپ دھار چکا تھا کہ صاف محسوس ہو رہا تھا کہ مستقبل قریب میں یہ طوفان اتنا شدید ہو جائے گا کہ اس طوفان پر قابو پانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا مگر اس سب کے باوجود بھی کہیں سے کوئی صدا بلند نہیں ہو رہی تھی عوامی دور کے چار دن بھی برداشت نہ کرنے والوں کے ہونٹوں پر تالے پڑے تھے اور زبانیں خاموش تھیں جمہوریت کے غم میں مگر مچھ کے آنسو بہا کر جمہوریت ہی کے خلاف لکھنے والوں کے قلم سے روشنائی ختم ہو چکی تھی یا ان کے قلم خرید لیے گئے تھے اور عدلیہ سمیت تمام نام نہاد محب وطن حلقے بھی مکمل اطمینان کی کیفیت میں تھے ایسے میں عوام امید کی نظر سے جس شخصیت کی جانب دیکھتے تھے وہ بی بی شہید ہی تھیں۔
ان معروضی حالات کی روشنی میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی غیور اور بہادر بیٹی نے طویل جلا
وطنی کے بعد وطن واپسی کا فیصلہ کیا دخترِ مشرق، پاکستان کے چاروں صوبوں کی زنجیر محترمہ شہید بینظیر بھٹو نے 18 اکتوبر کو دوپہر دو بج کر گیارہ منٹ پر طیارے سے باہر آ کر ایک طویل عرصے کے بعد وطن کی مٹی کو دیکھا تو فرطِ جذبات سے آنکھیں نم ہو گئیں۔ ربِ کریم کا شکر ادا کیا۔ داہنے بازو پر بندھے امام ضامن پر نظر پڑی تو اطمینان اور شکر کے جذبات آنسوؤں کی صورت آنکھوں سے بہہ نکلے۔ ممکن ہے یہ کیفیت زیادہ دیر قائم رہتی مگر فضا میں گونجنے والی جئے بھٹو کی صدائیں جب کانوں تک پہنچیں تو یکلخت نظروں نے ان صداؤں کا تعاقب کرتے ہوئے ماحول کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ تا حدِ نگاہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اپنی قائد کے استقبال کے لیے موجود ہے۔ محترمہ شہید بینظیر بھٹولاکھوں کارکنوں کے ہمراہ جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوئیں، جو کہ شا ہرائے قائدین پر مزارِ قائد کے ساتھ بنائی گئی تھی۔ بے پناہ ہجوم کی وجہ سے محترمہ شہید بینظیر بھٹو کا جلسہ گاہ کی طرف سفر انتہائی سست رفتاری سے جاری تھا ہر کارکن کی کوشش تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی قائد محترمہ شہید بینظیر بھٹو کی نزدیک سے ایک جھلک دیکھ لے۔ BBC کی رپورٹ کے مطابق گاڑیوں کی قطاریں دس کلو میٹر لمبی تھیں۔ ایک عام اندازے کے مطابق اس وقت محترمہ شہید بینظیر بھٹوکے استقبال کے لیے تیس لاکھ افراد موجود تھے جبکہ کروڑوں لوگ ٹیلی وژن پر بیٹھ کر اس بے مثال تاریخی استقبال کا نظارہ کر رہے تھے۔
مگر پھر وہی ہوا جس کا اظہار محترمہ شہید بینظیر بھٹو سمیت اکثر لوگ کر رہے تھے۔ محترمہ شہید بینظیر بھٹو کا استقبالی قافلہ جب شارع فیصل پر کار ساز کے قریب پہنچا تو ملک دشمن طاغوتی طاقتیں جو کسی موقع کے انتظار میں تھیں انہوں نے جب دیکھا کہ اب تو محترمہ شہید بینظیر بھٹو جلسہ گاہ سے کافی قریب آ چکی ہیں اور ہمارا بس نہیں چل رہا تو انہوں نے بوکھلا کر یکے بعد دیگرے دو خودکش حملے کر دیئے۔ اس وقت آسمان نے جو منظر دیکھا، تاریخ ِانسانی میں شائد آسمان نے ایسے مناظر کم ہی دیکھے ہوں گے کہ لوگ دھماکے کی جگہ سے جان بچانے کے لیے دور جانے کے بجائے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنی قائد کی حفاظت کے لیے محترمہ شہید بینظیر بھٹوکے استقبالی ٹرک کی طرف دیوانہ وار دوڑ رہے تھے۔ خوش کن استقبالی فضا المناک مناظر میں تبدیل ہو چکی تھی ہر طرف کارکنوں کی نعشیں بکھریں پڑی تھیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں زخمی کارکن تکلیف کی شدت سے نڈھال دہشت گردوں کی بربریت کی گواہی دے رہے تھے۔
دہشت گردوں کی اس بہیمانہ کارروائی میں 135افراد شہید ہوئے اور پانچ سو پچاس سے زائد زخمی ہوئے۔ کہاں تو چند لمحے پہلے یہ صورتِحال تھی کہ ہر طرف خوشی کے جذبات بکھرے پڑے تھے اور کہاں اب سوگوار فضا شہید اور زخموں سے چور معصوم انسانوں کو گواہ بنا کر چیخ چیخ کر اعلان کر رہی تھی کہ نہیں ابھی قائدِاعظم کے پاکستان کی تکمیل نہیں ہوئی ابھی پاکستان کو قربانیوں کی مزید ضرورت ہے۔ اس وقت تو ایک سو پینتس شہدا کی میتیں اٹھانے کے باوجود کہ دل و دماغ ان شہدا کے غم میں نڈھال تھے مگر یہ اطمینان تھا کہ محترمہ شہید بینظیر بھٹو ہمارے درمیان موجود ہیں مگر شائد تقدیر نے مزید آزمانا تھا، شائد قسمت میں کچھ اور امتحاں دینا باقی تھے اور شائد وطن کی مٹی کچھ مزید خراج کی طلب گار تھی
27 دسمبر کو راولپنڈی میں جلسہ گاہ سے واپسی پر محترمہ شہید بینظیر بھٹو جب کارکنوں کے والہانہ جذبات کو دیکھ کر ان کا جواب دینے کے لیے اپنی گاڑی کے سن روف سے باہر نکلیں تو ملک دشمن قوتوں کو موقع مل گیا اور پاکستان کے عوام پر ایک قیامتِ صغریٰ ٹوٹ پڑی۔ عوام کی محبوب رہنما اور وفاقِ پاکستان کی زنجیر کو توڑ دیا گیا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی نے شہید ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ استعماری قوتوں کے ہاتھوں سر کٹا تو سکتی ہیں مگر سر جھکا نہیں سکتیں۔
اب ڈھونڈ اس گوہرِ نایاب کو کہ جسے
اپنے ہاتھوں سے خاک کیا تو نے
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.