کہانی راتوں رات تبدیل ہو گئی۔ تخت لاہور ہَوا میں معلق، سرکس لگی ہوئی ہے۔ اداکار اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ رسہ کشی جاری ہے۔ امیر الاسلام ہاشمی نے کہا تھا ”جب تک رہے گا رسہ، رسہ کشی رہے گی، ”کب تک رہے گا رسہ یہ عرض پھر کروں گا۔“ اسمبلیاں برقرار، وزرائے اعلیٰ بھی موجود، خیبر پختون خوا والوں نے چپ سادھ رکھی ہے، اپنی لگام پنجاب اسمبلی کے حوالے کر کے مطمئن ہو گئے۔ پنجاب اسمبلی ٹوٹے گی تو ہم بھی توڑ دیں گے۔ کب ٹوٹے گی بقول سپیکر سبطین خان، ”یہ عرض پھر کریں گے“ یعنی 11 جنوری کے بعد بتائیں گے۔ 23 دسمبر کی رات 12 بج کر 45منٹ پر گورنر بلیغ الرحمان نے وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی ڈی نو ٹیفائی کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ چیف سیکرٹری کے ذریعہ آئین کے آرٹیکل 130 کی ذیلی شق 7 کے تحت نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ کپتان کے سر پر دو اسمبلیاں توڑنے کا بھوت سوار، 17 دسمبر کو دائیں بائیں پنجاب اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ کو بٹھا کر اعلان کیا تھا کہ وہ 23 دسمبر کو اسمبلیاں توڑ دیں گے، ذرا سی غلطی ہو گئی کہ (More Over) ترنگ میں آ کر وہ پھر جنرل (ر) باجوہ کے خلاف بولتے چلے گئے۔ چودھری پرویز الٰہی کو تنقید ناگوار گزری وہ پہلو بدلتے رہے مگر ”اف اللہ کچھ کہہ نہ سکے۔“ کپتان کا خطاب ختم ہوتے ہی چلے آئے لیکن میڈیا سے بات چیت کے دوران جلے بھنے انداز میں کپتان کو وہ بے بھاؤ کی سنائیں جو انہوں نے اس سے پہلے کسی سے نہ سنی تھیں کپتان کو محسن کش قرار دیا بلکہ اوقات یاد دلائی دھمکی بھی دی کہ آئندہ جنرل باجوہ کا نام لیا تو پہلے میں بولوں گا پھر میری پوری پارٹی بولے گی کپتان نے سب کچھ سنا ماتھے پر سے پسینہ پونچھا لیکن چپ رہے۔ ”اے ذوق بُرا مان نہ کچھ ان کے کہے کا، محبوب کی گالی سے تو عزت نہیں جاتی“ چلی بھی جائے تو کیا ہے کچھ دیر بعد ہی آ جاتی ہے عوام کے حافظے کمزور ہیں، آڈیو ویڈیو تک تو بھول جاتے ہیں۔ اسی لیے تو جلد الیکشن چاہتے ہیں تاکہ دو تہائی اکثریت سے بلا شرکت غیرے برسر اقتدار آئیں اور چودھری پرویز الٰہی جیسے اتحادیوں کی ضرورت ہی نہ پڑے جو قدم قدم پر اوقات یاد دلاتے رہتے ہیں۔ بات سے بات نکلتی ہے چودھری صاحب کے رد عمل پر وفاقی حکومت کو تاثر ملا کہ وزیر اعلیٰ اور کپتان میں ٹھن گئی۔ چنانچہ گورنر پنجاب نے 19 دسمبر کو آرڈر جاری کر دیا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس 21 دسمبر کو شام 4 بجے بلایا جائے اور اس میں وزیر اعلیٰ اعتماد کا ووٹ لیں۔ سپیکر نے آرڈر ہَوا میں اڑا دیا۔ اجلاس ہوا نہ اعتماد کا ووٹ لینے کی نوبت آئی، گورنر کے آئینی اور قانونی آرڈر کی صریحاً خلاف ورزی کا شور مچا ادھر والوں نے تجزیے شروع کر دیے کہ وزیر اعلیٰ کی خیر نہیں، حکومت ختم یا دو ماہ کا گورنر راج بعد میں چار ماہ کی توسیع، راتیں جاگنے لگیں، نوٹیفکیشن تیار کر لیا گیا، 22 دسمبر کو ”دن بھر رہا چرچا تیرا“ کے بموجب چہ میگوئیاں ہوتی رہیں اور آدھی رات کے بعد وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کا حکم نامہ جاری ہو گیا۔ چودھری صاحب رات سوئے تو وزیر اعلیٰ تھے۔ صبح اٹھے تو نہیں تھے۔ مگر شام کا دھندلکا پھیلتے ہی پھر وزیر اعلیٰ بن گئے۔ گورنر کا حکم نامہ لاہور میں چھائی سموگ میں کہیں گم ہو گیا۔ سنسنی خیز ڈرامہ، پہلی قسط آن ایئر ہوئی 11 جنوری کو دوسری قسط آئے گی۔ چودھری صاحب کے وکیل 23 دسمبر کو آنکھ کھلتے ہی لاہور ہائیکورٹ پہنچ گئے پانچ رکنی بینچ بنا، ٹوٹا پھر بنا، وکیل صاحب نے مدعا پیش کیا دلائل دیے کہا کہ گورنر کا نوٹیفکیشن معطل کیا جائے، فاضل جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ ایسے کیسے کر دیں وزیر اعلیٰ بحال ہوتے ہی اسمبلی توڑ دیں گے۔ یقین دہانی کرائیں۔ وکیل ایک گھنٹہ بعد ہی انڈرٹیکنگ لے کر آ گئے، نوٹیفکیشن معطل، اسمبلی برقرار، سب کی جان میں جان آئی۔ نعرے بازی معمول کی نورا کشتی، سیانوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پارلیمانی مسئلہ کو جوڈیشل بنایا جا
رہا ہے۔ سب کچھ ہو گیا، کچھ بھی نہ ہوا۔ ”تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے، دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشا نہ ہوا“ رانا ثنا اللہ سے کسی نے پوچھا ”ہار کسی کی ہوئی“ بولے ”اک کہانی ختم کر کے وہ بہت ہے مطمئن، بھول بیٹھا ہے کہ باقی اک کہانی اور ہے“ 11 جنوری تک اعتماد کا ووٹ لینا ہے۔ حامی ارکان 186 سے 173 رہ گئے۔ کیا یہ جیت نہیں کہ 23 دسمبر کو اسمبلیاں نہیں ٹوٹیں، مونس الٰہی بولے ”کمال کرنے والوں نے کمال کر دیا“ شاعرانہ بات کی۔ غالب نے کہا تھا ”جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں“ آصف زرداری کا جادو چلا نہ چودھری شجاعت کی جدوجہد۔ ”بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا، جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا“ کہا تھا کہ ق لیگ کے 6 ارکان ہمارے رابطے میں ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کے دربار میں 9 کے 9 حاضر تھے۔ دسویں خود چودھری صاحب ق لیگ مکمل، پنجاب میں مذاق ہو رہا ہے۔ 6 ماہ سے اسمبلی چل رہی ہے اس عرصہ میں صرف 7 سیشن ہوئے مگر 371 ارکان کے ٹی اے ڈی اے اور دنیا جہان کی مراعات برحق، کروڑوں کے سودے، اربوں مختص، قومی خزانہ خالی، قرضوں پر گزارا۔ پنجاب جوں کا توں۔ عوام یرغمال، سیاستدان سیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔ روٹی مہنگی ہو رہی ہے۔ گرمیوں میں بجلی غائب سردیوں میں گیس ندارد، بنی اسرائیل پر خون کا عذاب نازل ہوا تھا۔ ہم پر سموگ کا قہر جینے نہیں دے رہا۔ ”کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔“ پنجاب میں سیاست کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے سیانے اسے سیاست نہیں کہتے۔ آئین قانون اور رولز آف بزنس کے منافی نفرت اور تصادم کی جو فصل بوئی گئی تھی وہ کاٹی جا رہی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے سچ کہا تھا کہ 99 فیصد لوگ چاہتے ہیں کہ اسمبلیاں نہ ٹوٹیں انہوں نے یہاں تک کپتان کو بتایا بلکہ یہ کہہ کر ڈرایا کہ اگر آپ نے اسمبلیاں توڑیں تو ن لیگ آ جائے گی۔ کپتان نہ مانے تو مشروط رضا مندی ظاہر کر دی کہ قومی اسمبلی کی 15 اور پنجاب اسمبلی کی 30 نشستیں دے دیں تو آپ کا حکم سر آنکھوں پر ”سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے“ کپتان نے شرط لگا دی کہ ق لیگ بلے کے نشان پر انتخاب لڑے۔ چودھری پرویز الٰہی اپنی شناخت کیسے کھو دیں گے۔ معاملہ لٹک گیا۔ نشستوں پر سودے بازی ہو رہی ہے کبھی غور فرمایا مقبولیت کا کیا حال ہے گزشتہ مہینوں سے ”عوام کا سمندر“ بتدریج پیچھے ہٹ رہا ہے۔ موسم تبدیل ہو رہے ہیں۔ 20 لاکھ دس پندرہ ہزار پر آ گئے ہیں 25 مئی کے بعد سے کون سا بڑا اجتماع دیکھنے میں آیا۔ پنڈی دھرنے یا جلسے میں ”کتنے آدمی تھے؟“ پرانے قصے چھوڑیے گورنر ہاو¿س پر حالیہ احتجاج کیسا رہا۔ تین کروڑ کے شہر میں صرف ڈھائی تین سو افراد آ سکے لائٹنگ کے زاویوں سے ہزاروں لاکھوں میں تبدیل نہیں ہوتے۔ دھمکیوں سے سیاست پروان نہیں چڑھتی بلکہ عوام چڑ جاتے ہیں سیاسی دنگل، انتظامی ہلچل اور معاشی دلدل نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے، پنجاب سمیت ملک بھر میں غیر یقینی صورتحال سے سیاسی بحران سنگین ہو رہا ہے۔ ہر چال الٹی پڑ رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے حالیہ بحران میں کیا ہوا۔ وفاق کے نمائندے گورنر نے جو کرنا تھا کر دیا جنہیں اعتماد کے ووٹ کے لیے کہا گیا انہوں نے جو نہیں کرنا تھا نہیں کیا۔ سپیکر نے اجلاس نہیں بلانا تھا نہیں بلایا۔ بات عدالت عالیہ تک پہنچ گئی۔ اربوں کی اسمبلیاں کس کام کی۔ آئین قانون کی بالا دستی کہاں گئی۔ ہر سیاستدان حتیٰ المقدور آئین کی توہین کا مرتکب پھر بھی لیڈر ہے بالائے ستم آڈیوز ویڈیو آنے لگی ہیں۔ مقام شکر یہ نہیں کہا گیا کہ تعلقات میری مرضی، جعلی ہیں تو فرانزک کرا کے معاملہ ختم کریں، اجتماعات میں ذکر کر کے ”کمپنی کی مشہوری“ کیوں کی جا رہی ہے۔ اصلی ہیں تو قرآنی حکم کے مطابق حد لگتی ہے اسلامی ملک میں اس سے صرف نظر کیوں؟ سورة نور میں واضح کہا گیا کہ ایسے مردوں کے لیے ایسی عورتیں اور ایسی عورتوں کے لیے ایسے مرد سزا مقرر، پرانی خاتون کی گواہی نوابی شوق پھر بھی گنگا نہائے۔ مقبولیت کا گراف نیچے آ رہا ہے۔ عوام ”سمجھنے لگے ہیں قلندر کی سازشیں“ ایسے میں الیکشن جب بھی ہوئے کتنی نشستیں ملیں گی ان میں سے چودھری پرویز الٰہی کو کتنی دیں گے۔ غور طلب معاملہ ہے اسٹیبلشمنٹ پورا زور لگانے اور منت سماجت کے باوجود ابھی تک نیوٹرل ہے کسی کونے کھدرے سے حمایت میں آواز بلند ہو سکتی ہے۔ بلاول بھٹو نے اس کی بھی نشاندہی کر دی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ آواز بھی خاموش ہو جائے گی مارچ میں ایک اور در بند ہو جائے گا۔ تب کیا کریں گے اجتماعی استعفے منظور نہیں ہو رہے، پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی خود بھی سنجیدہ نہیں کپتان فلاش کا کھیل کھیل رہے ہیں مگر وہ سیپ کے ماہرین کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔ بیانات کے باوجود ایک بھی رکن سپیکر قومی اسمبلی کے روبرو اپنے استعفے کی تصدیق کے لیے پیش نہیں ہوا۔ 97 ارکان لاجز پر ابھی تک قابض ہیں۔ سرکاری گاڑیاں استعمال ہو رہی ہیں۔ اندر کھاتے سب کچھ ہو رہا ہے لیکن تقریروں میں دھمکیاں کہ جلد انتخابات نہ ہوئے تو ملک ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اسلام آباد سے کہہ دیا گیا کہ انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے بلکہ معاشی ایمرجنسی لگا دی گئی تو 2024ءتک موخر ہو سکتے ہیں۔ اسمبلیاں توڑنے کا ڈرامہ جنوری تک موخر ایک تجزیہ کار نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پنجاب اسمبلی توڑنا نہیں چاہتے تھے صرف فیس سیونگ کے لیے 23 دسمبر کا ڈرامہ رچایا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ کپتان کو احساس ہے کہ اسمبلیاں ٹوٹنے کے 30 دن بعد ہی وہ نا اہل ہو جائیں گے۔ فیصلے، فرد جرم، سزائیں پروٹوکول ندارد، سب غائب اسمبلیاں نہیں ٹوٹیں گی۔ قصہ مختصر اس سارے معاملے میں کپتان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.