بھارتی فلم مقدر کا سکندر کا یہ گانا مجھے بہت پسند ہے ”زندگی تو بے وفا ہے ایک دن ٹھکرائے گی ، موت محبوبہ ہے اپنے ساتھ لے کر جائے گی“ ، یہ موت بڑی ظالم ہے کسی کو نہیں بخشتی ،ہم جب کسی کے جنازے پر جاتے ہیں یا کسی کی وفات پر اس کی تعزیت کے لئے جاتے ہیں اکثر عزیز و اقارب سے پوچھتے ہیں “مرحوم کی عمر کیا تھی یا ا±س کی وفات کیسے ہوئی ؟ “ ، حالانکہ موت عمر دیکھتی ہے نہ کسی کا بیمار ہونا اس کے لئے ضروری ہے ” ، جب سانسیں پوری ہو جاتی ہیں بندہ چلے جاتا ہے۔۔ میاں محمد بخش نے یہ شعر شاید موت کے بارے میں ہی لکھا تھا ۔
آگئی جان شکنجے اندر جوں ویلن وچ گنا
رو نوں کہو ہن روے محمدہن روے تاں منا
بندہ تو اس رب کے پاس چلے جاتا ہے جو کئی ماؤں سے بڑھ کر بندے سے پیار کرتا ہے ، اصل موت ان کی واقع ہوتی ہے جنہیں مرنے والا پیچھے چھوڑ جاتا ہے ، وہ بے چارے پل پل مرتے ہیں ، اس کی یاد میں مرتے ہیں جو انہیں چھوڑ کے چلے جاتا ہے۔۔ میری امی جان اکثر یہ دعا مانگتی تھیں ، بلکہ یہ ان کا ”تکیہ کلام“ بن چکا تھا ” اللہ مجھے چلتے پھرتے لے جانا“ ، میں ان سے کہتا ”امی آپ ایسے کیوں کہتی ہیں ؟ آپ کو کوئی شک ہے آپ اگر بیمار ہوئیںہم آپ کی خدمت نہیں کریں گے ؟“ ، وہ فرماتیں ”ایسی بات نہیں ، میں نے بڑی بڑی فرماں بردار اولادوں کو والدین کی طویل بیماری پر تکلیف میں مبتلا دیکھا ہے ، میں آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتی آپ پر بوجھ نہیں بننا چاہتی لہٰذا اسی لئے میری دعا ہے اللہ مجھے اچانک موت عطا فرما دے“ ، ایسے ہی ہوا ، چالیس سیکنڈز میں وہ چلی گئیں ، کئی برسوں سے وہ شوگر اور بلڈ پریشر کی مریضہ تھی ، ان کے انتقال سے ایک روز قبل میں نے ان کے تقریباًسارے ٹیسٹ کروائے ، سب نارمل تھے ، ان کے دل کے ٹیسٹوں کی رپورٹس دیکھ کر ان کے معالج نے کہا “ پچھلے پندرہ برسوں سے آپ شوگر بلڈ پریشر کی مریضہ ہیں ان امراض نے آپ کے دل کا کچھ نہیں بگاڑا ، آپ کا دل بیس پچیس سالہ نوجوان کے دل کی طرح مضبوط و توانا ہے“۔۔ بیس پچیس سالہ نوجوان جیسا مضبوط و توانا دل اگلے ہی روز بند ہوگیا ، وہ اچھی بھلی بیڈ پر لیٹی تھیں ، قریب ہی کرسی پر والد صاحب بیٹھے تھے وہ ان سے باتیں کر رہی تھیں ، اچانک انہیں گلے میں خراش ہوئی وہ کھانسنے لگیں ، مجھ سے کہنے لگیں ”مجھے پانی پلاو“ ، میں کچن سے پانی لے کر ا±ن کے کمرے میں داخل ہوا وہ صحیح سلامت اپنے قدموں سے واش روم کی طرف جا رہی تھیں ، جیسے ہی وہ واش روم میں داخل ہوئیں اچانک واش ر±وم کا دروازہ پکڑ کر چلانے لگیں ”کون ایں توں ؟ توں کون ایں ؟“ ، میں ڈر گیا میں سمجھا واش روم میں شاید کوئی چور ڈاکو گھس آیا ہے جسے دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی ہیں ، میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر دیکھا واش روم میں کوئی نہیں تھا ، والدہ کو دیکھا وہ گری ہوئی تھیں ان کا رنگ سفید پڑ چکا تھا انہوں نے بڑی بے بسی سے میری طرف دیکھا اور کہا ”پتر میریاں لتاں وچوں کوئی جان کڈ ریا ای“ میں نے اٹھانے کی کوشش کی وہ بڑبڑا رہی تھیں ، میں نے محسوس کیا وہ کلمہ پڑھ رہی ہیں انہوں نے شہادتی انگلی سے مجھے اشارہ کیا ، میں نے بھی کلمہ پڑھنا شروع کر دیا اچانک ان کا سر میری گود میں ڈھلک گیا ، وہ چلی گئیں ، ان کی دعا قبول ہوگئی وہ چلتے پھرتے چلی گئیں۔۔ ان کی زندگی سے موت تک کا یہ سارا سفر پچاس سیکنڈ میں مکمل ہوگیا ، میں اکثر لکھتا تھا ”جب کوئی انسان بطور مسلمان پیدا ہوتا ہے اس کے کان میں جو اذان دی جاتی ہے اس اذان کی نماز نہیں ہوتی پھر جب کوئی انسان بطور مسلمان مرتا ہے اس کی نماز (نماز جنازہ) پڑھائی جاتی ہے اس نماز کی اذان نہیں ہوتی گویا زندگی اذان اور نماز کے درمیانی وقفے کا نام ہے“۔۔ مگر میری ماں پچاس سیکنڈ میں چلی گئی پہلی بار مجھے احساس ہوا زندگی اور موت کے درمیان اتنا وقفہ بھی نہیں جتنا اذان اور نماز کے درمیان ہوتا ہے۔۔ ایسی اچانک اموات بڑھتی جا رہی ہیں ، ہر دوسرے چوتھے روز یہ خبریں آتی ہیں فلاں نوجوان کا اچانک ہارٹ فیل ہوگیا فلاں نوجوان اچانک بیٹھے بیٹھے فوت ہوگیا۔۔ پہلے ستر پچھتر برسوں کے بوڑھوں کے ہارٹ فیل ہوتے تھے اب چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہو رہے ہیں ، دل بند ہونے کے معاملے اللہ جانے کہاں جا کے رکیں گے ؟ دل بند ہونے کے ساتھ ہی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں جیسے آنکھیں دل پہ لگی ہوں ، پورے جسم میں آنکھوں کا الگ ہی ایک مقام ہے ، درد جسم کے کسی حصے میں ہو رونا آنکھوں کو پڑتا ہے ، مجھے اس وقت بھی درد ہو رہا ہے میری آنکھوں میں اس وقت بھی آنسو ہیں ، آج صبح اٹھتے ہی واٹس ایپ چیک کیا کسی دوست نے نامور اداکار افضال احمد کی تصویریں مجھے بھیجی تھیں ، تصویریں دیکھ کے میں تڑپ اٹھا ، وہ جنرل ہسپتال لاہور میں بے ہوش پڑے تھے انہیں آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا جس بیڈ پر وہ پڑے تھے اس پر دو مریض اور بھی تھے ، اتنے بڑے فنکار کو ایک بیڈ بھی نہیں مل سکا ، ان کے پاس دو خواتین کھڑی تھیں ، میں نے فوری طور پر درد کی یہ تصویریں اپنے فیس بک پر شیئر کرتے ہوئے لکھا
زندگی جا چھوڑ دے پیچھا میرا
آخر میں انسان ہوں پتھر تو نہیں
میں نے لکھا”بے بسی کی یہ تصویریں اپنے زمانے کے منفرد اداکار اور تماثیل تھیٹر لاہور کے مالک افضال احمد (افضال چٹے) کی ہیں یہ تصویریں ابھی مجھے کسی نے بھجوائی ہیں ، کلیجہ پھٹ گیا ہے جس کی شہرت اور دولت کے چرچے زباں زد عام تھے آج ہسپتال میں ایک بیڈ بھی ا±س کے لئے میسر نہیں ، اللہ ان کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے ، ایک شعر یاد آیا
کم سے کم موت سے ایسی امید نہیں مجھے
زندگی تو نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ
(جاری ہے)
تبصرے بند ہیں.