یہ ہے ہماری ایمانداری

50

لوگوں کے جیسے اعمال ہوتے ہیں ویسے ہی ان کو پھر حکمران ملتے ہیں۔ ایک کے بعدایک ظالم ،جابر اور بے حس حکمران سے واسطہ اور ناتا پڑنے کے بعدرونا،دھونااورچیخناچلاناتوہم شروع کرتے ہیں لیکن آج تک ہم نے اپنے دامن میں ایک باربھی یہ دیکھنا اورگریبان میں جھانکناگوارا نہیں کیاکہ ظالم حکمرانوںکی شکل میں یہ عذاب آخرہماری جھولی میں ہی کیوں گرتے ہیں۔؟ نوازشریف، پرویزمشرف، آصف زرداری، عمران خان اورشہبازشریف کے بارے میں توہم نے پوراآسمان سرپراٹھایاکہ یہ ٹھیک نہیں۔ لیکن کیا کسی کو یاد ہے کہ ہم نے کبھی ایک باربھی اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے یہ کہاہوکہ ہم بھی ٹھیک نہیں۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ہرشخص سرسے پاﺅں تک گناہوں میں رنگنے کے بعد بھی کہتا پھرتا ہے کہ میرے سوا سارا زمانہ خراب ہے۔ باہرکی دنیاوالے توہمارے اس رونے دھونے اورچیخنے وچلانے کو دیکھ کریہ سمجھتے ہوں گے کہ کہیں یہاں کے حکمران ہی ظالم اور خراب ہیں لیکن ان کویہ نہیں پتہ کہ یہاں حکمرانوں سے زیادہ عوام خرابی کے اعلیٰ درجے پرفائزہیں۔توشہ خانہ سے توگھڑی،گاڑیاں،سونے اورچاندی کے زیورات و جواہرات حکمران اٹھاکرلے جاتے ہیں لیکن کیا۔؟ مساجدکے وضوخانوں سے لوٹے اور خانہ خدا سے لاﺅڈ سپیکر، بلب، جنریٹر اور بیٹریاں بھی حکمران اٹھا کر لے جاتے ہیں۔؟سچ تویہ ہے کہ یہاں کیاحکمران اورکیاعوام۔جس کاجو بس چلتاہے وہ اتنا ہی ہاتھ دکھاتاہے۔اسی وجہ سے تو یہاں توشہ خانے محفوظ ہیں اورنہ ہی مساجدکے وضوخانے۔جہاں مساجدکوتالے اور واٹر کولر کے ساتھ لگے گلاسوں کوزنجیریں لگی ہوں وہاں کے حکمران نیک ہو سکتے ہیں اورنہ ہی عوام ایمانداری ودیانتداری میں ایک۔ یہاں اگرعوام کی اکثریت چور، ڈاکو اور بے ایمان نہیں تواکثریت چوروں، ڈاکوﺅں اور بے ایمانوں کے سائے سے محفوظ بھی نہیں۔ شمار کے چندگنے چنے طبقوں یا لوگوں کے علاوہ ہماری اکثریت نے جھوٹ، فریب، دھوکہ ،بے ایمانی، خیانت اور منافقت کواس وقت اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہو اہے۔ اللہ کاکوئی خوف ہے اورنہ قبرحشرکاکوئی ڈر۔ہرشخص مال ودولت اوردنیاکے پیچھے آنکھیں بندکرکے ایسے بھاگ رہاہے کہ اس بھاگ دوڑکودیکھ کرخوف آنے لگتاہے۔ چنددن پہلے اپنی چاچی کی وفات پرگاﺅں
جاناہواجہاں پھرکئی دن گزارنا پڑے۔لوگوں کی اسی ایمانداری کے ذکرپرایک دن باتوں باتوں میں ایک رشتہ دارنے قریب کسی گاﺅں کے ایک صاحب کی ایمانداری کاایک واقعہ سنایاجسے سن کرہم تودنگ رہ گئے۔گاﺅں میں چونکہ دودھ کی دکانیں نہیں ہوتیں اس لئے جن کے پاس اپنی بھینس،گائے اوربکریوں کاانتظام نہیں ہوتاوہ لوگ پھر بھینس رکھنے والوں سے ٹھیکہ لگاکران سے دودھ لیتے ہیں۔ وہ رشتہ دارخوابوں اورکتابوں میں بھینس رکھنے والے ایک صاحب کاذکرخیرکرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اس صاحب سے درجن کے قریب لوگوں نے دودھ کے لئے ٹھیکہ لگا رکھا ہوا تھا ہرایک کووہ دواورتین کلودودھ وقت پردیتے تھے ٹھیکے سے ہٹ کربھی جولوگ اس کے درپر دودھ لینے کے لئے جاتے وہ بھی اس کے گھرسے خالی ہاتھ واپس نہ آتے ۔کہتے ہیں ایک بارمجھے دودھ کی ضرورت پڑی تومیں نے بھی اس کے گھر کی راہ لی ۔ابھی میں اس کے گھرسے دورہی تھاکہ راستے میں ہی اس صاحب کے ایک قریبی رشتہ دارجوادھرہی اس کے قریب کہیں رہائش پذیرتھے اورمیرے بہت اچھے جاننے والے بھی تھے اچانک اس سے ملاقات ہوئی۔سلام دعاکے بعداس نے آنے کی وجہ پوچھی تومیں نے بتایاکہ اس کے گھرسے دودھ لینے آیاہوں۔یہ سن کروہ چونک سے گئے کہ اس کے گھرسے دودھ۔؟میں نے کہاہاں دودھ۔وہ کہنے لگے کہ پچھلے پانچ چھ مہینوں سے تو بھینس کیاکوئی بکری بھی اس کے پاس نہیں آپ کیسے اس سے دودھ لینے آئے ہیں۔؟میں نے کہاکہ یارمذاق نہ کرہمارے گاﺅں اوراڑوس پڑوس میں توروزانہ درجن نہیں درجنوں لوگ اس سے دودھ لیکرجارہے ہیں۔یہ سن کراس نے ایک زوردارقہقہہ لگایا اور کہا وہ پھر دودھ نہیں کچھ اور لیکر جا رہے ہوں گے۔اس کی یہ بات مجھے بڑی عجیب لگی میں نے کہاکہ میں کچھ سمجھانہیں ۔وہ کہنے لگے یار کیا آپ کومیری زبان پریقین نہیں۔ میں حلفاًکہتاہوں کہ اس کے گھرمیں بھینس اورگائے کیا۔؟کوئی بکری بھی نہیں۔جب بھینس،گائے اوربکری نہیں تو پھر اس کے پاس دودھ کہاں سے آگیا۔وہ رشتہ دارکہہ رہا تھا بعدمیں جب میں نے اپنے طور پر ادھر ادھر سے تحقیق کی توپتہ چلاکہ وہ پاﺅڈرکے بنے خالص دودھ کوبھینس کادودھ کہہ کرلوگوں کوپلاتے رہے۔معلوم نہیں کہ وہ کب سے یہ دھندہ کر رہے تھے اورلوگ کب سے اس پاﺅڈر کوبھینس کادودھ سمجھ کرپیتے رہے۔یہ چونکادینے والی باتیں سن کرقریب بیٹھے ماسٹرفیصل نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔جوزوی صاحب صرف حکمران چوراوربے ایمان نہیں ۔اس واقعہ سے اندازہ لگالوہم خودکتنے ایماندارہیں اوربحیثیت قوم ہماری اخلاقی، ایمانی اور سچائی کی کیا حالت ہے۔؟ جس ملک میں پاﺅڈر گھول کر اسے خالص دودھ کی قیمت پر بیچا جا رہا ہو۔ جہاں لوگوں کے دلوں میں اللہ کاخوف اورقبرحشرکاذرہ بھی کوئی ڈرنہ ہووہاں پھرظالم حکمران ہی آتے ہیں فرشتے نہیں۔کام ہم سب چوروں، ڈاکوﺅں، لوٹوں اور لٹیروں والے کر رہے ہیں اورپھرامیدیہ لگائے بیٹھتے ہیں کہ ہم پرکوئی فرشتہ یااللہ کاکوئی ولی حکمرانی کے لئے آئے گا۔ نیک، رحم دل اوردردل رکھنے والے حکمران وہاں آتے ہیں جہاں کے لوگ بھی نیک، رحم دل اوردرد ل والے ہوں ۔چوروں پرہمیشہ چور اور ڈاکو ہی مسلط ہوتے ہیں۔حکمرانوں اور سیاستدانوں کو چور و ڈاکو کہہ کر کوسنے کے بجائے سب سے پہلے ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے۔ بندہ خود چور اور ڈاکو ہو کر جب دوسروں کو چور اور ڈاکو کہتا ہے تویہ اچھانہیں لگتا۔ہم نے ساری زندگیاں دوسروں کوچور،ڈاکواوربے ایمان کہہ کرگزاریں ہم اگرایک صرف ایک باربھی سچے دل کے ساتھ اپنے گریبان میں جھانکتے تو یقینا ًہمیں کسی اور کو چور، ڈاکو اور بے ایمان کہنے کی جرا¿ت وہمت نہ ہوتی۔ نوازشریف، آصف زرداری، مولانا اور عمران خان کو دن رات چورو ڈاکو کہنے والے ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کیا ان سے پہلے یہ خود چور، ڈاکو اور بے ایمان نہیں۔؟اس ملک میں محلے کے ایک عام دکاندار سے لیکرشاہی دربان پر مامور چپڑاسی تک ہرشخص دوسرے کو لوٹنے میں مصروف ہے۔ حکمرانوں کو چور و ڈاکو کہنے کی صدائیں بلندکرنے والے فروٹ وسبزی فروش اورتاجربھی سودابیچتے وقت بے ایمانی کی وہ وہ تاریخیں رقم کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ اپنی جگہ ہرشخص کسی لاچار،بے بس اور مجبور کو ڈسنے ولوٹنے کے لئے تاک لگائے بیٹھا رہتا ہے مگرپھربھی اس کے نزدیک چور،ڈاکواوربے ایمان وہ نہیں دوسرے ہیں۔جب تک ہم چوری اوربے ایمانی کے اس فارمولے اورتقسیم سے نہیں نکلتے تب تک ہماراکچھ بننے والا نہیں۔ اللہ کے قہرسے بچنے اوران حالات سے نکلنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں اپنے ہاتھ کی ان چار انگلیوں کی جانب دیکھنا ہو گا جن کا رخ دوسروں کی طرف اشاروں کے وقت ہمیشہ ہماری طرف ہوتا ہے۔ کوئی مانیں یانہ لیکن حق اورسچ یہ ہے کہ چور، ڈاکو اور بے ایمان اگردوسرے ہیں تو ایماندار اور فرشتے ہم بھی نہیں۔

تبصرے بند ہیں.