اگلے روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے، عوامی سطح پر اس فیصلے پر شدید ردعمل آیا ہے، دوسری جانب حکومتی اتحادیوں نے بھی اس فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ سابق صدر آصف زرداری نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ ہے اور ساتھ ہے۔ اس طرح کے فیصلوں پر مشاورت ضرور ہونی چاہیے، ہم سب اس حکومت میں عوام کو ریلیف دینے آئے ہیں اور عوام کو ریلیف دینا ہی ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے وزیر اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے، جب کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف لندن میں جاری پارٹی اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ ایک ایسے وقت جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک جانب ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر شدید تنقید ہو رہی ہے اور حکومتی اتحادی جماعتیں ناراضی کا اظہار کر رہی ہیں تو دوسری جانب اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ پٹرول مہنگا کرنے کا فیصلہ درست ہے، عوام اعتماد کریں، کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا اور نہ ہی آگے جا کر لگانے کا فیصلہ ہے، میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ پٹرول کی قیمت نہیں بڑھے گی بلکہ کہا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس نہیں لگا¶ں گا۔ آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کے لیے سخت فیصلے کیے جس کے نتیجے میں اب معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے۔ اس ساری صورتحال میں وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے موقف کا اظہار نہیں کیا ہے، جب کہ جشن آزادی کی رات وہ اپنی نشری تقریر میں پٹرول کی قیمت میں پندرہ روپے فی لیٹر کمی کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اس سارے پس و پیش منظر کے تناظر میں وزیراعظم صاحب کو وضاحت کرنا ہو گی، تاکہ حقیقی منظر نامہ عوام کے سامنے آ سکے۔ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بہت سے منفی اثرات سامنے آئیں گے نہ صرف ملک میں مہنگائی مزید بڑھے گی بلکہ عوامی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ آنیوالے دنوں میں قومی اسمبلی کے نو حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ جس میں حکومتی اتحادی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کا مقابلہ براہ راست تحریک انصاف سے ہو گا، ضمنی انتخابات میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح عوامی رائے پر اثر انداز ہو گی، عوامی سطح پر حکومتی حمایت متاثر ہو سکتی ہے۔ انتخابی نظام کے مطابق ووٹ لینے کے لیے ہر پارٹی کو عوام میں جانا پڑتا ہے، انہیں اپنی کارکردگی بتانا پڑتی ہے، کوئی بھی جماعت نہیں چاہتی کہ وہ عوامی حمایت سے محروم ہو۔
گزشتہ ماہ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کے بعد ہر چیز کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہوا، گھروں کے کرائے بڑھ گئے، آٹا، چاول، گھی سمیت ضروریات زندگی کی ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔ بچوں کی سکول فیس بھی بڑھا دی گئی، ادویات بھی مہنگی ہو گئیں، ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں دو سوگنا اضافہ کر دیا۔ جب ڈالر کی قیمت نیچے آنا شروع ہوئی تو عوام کے دل میں امید پیدا ہوئی کہ اب مہنگائی بھی کم ہو جائے گی، گھر کا کرایہ، بچوں کی فیس اور دوائی کی قیمت میں کمی آئے گی، لیکن ان امیدوں پر پانی پھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ڈالر کی قیمت کم ہونے کے باوجود بھی کسی چیز کی قیمت کم نہیں ہوئی۔ یہ بات درست سہی کہ حکومت ڈالر ریٹ نیچے آنے کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے لیکن عوام اس کامیابی کو اس وقت مانیں گے جب مہنگائی بھی کم ہو گی، سادہ سی بات ہے اگر حکومت مہنگائی کم نہ کرا سکی تو ڈالر ریٹ نیچے آنا صرف اعداد و شمار کا ہیر پھیر ہے اور کچھ نہیں۔ ڈالر ریٹ کم ہونے سے کسی کے بھی اخراجات میں کمی نہیں ہو رہی، نہ ہی جانوروں کے ریٹ کم ہوئے ہیں اور نہ ہی بجلی گیس کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، عجب گومگو کی صورتحال ہے۔ ڈالر ریٹ میں تیزی سے تبدیلی نے مختلف شعبوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ ہماری ملکی برآمدات کا تقریباً 70 فیصد ٹیکسٹائل سیکٹر سے وابستہ ہے۔ ڈالر کی غیر یقینی صورت حال نے ٹیکسٹائل شعبے کو متاثر کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ برآمدات میں کمی ہو رہی ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر اپنی ضرورت کی آدھی سے زیادہ کاٹن درآمد کرتا ہے۔ حالیہ ایل سیز 240 کے حساب سے بند ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے خریداری مہنگی ہوئی ہے اور دوسری طرف ڈالر ریٹ کم ہونے سے متوقع منافع میں بھی کمی آ رہی ہے، ٹیکسٹائل میں استعمال ہونے والے کیمیکلز اور دیگر 70 فیصد خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ریٹ بڑھنے سے اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے، اگر مارکیٹ مستحکم ہوتی تو برآمد کندگان زیادہ فائدہ اٹھا سکتے تھے، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈالر کا ایک ریٹ طے کر دے تاکہ ٹیکسٹائل سیکٹر اسی کے مطابق ڈیل کر سکے، اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی تو برآمدات میں مزید کمی آ سکتی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں مسلسل کمی کے اثرات تاحال براہ راست عوام کو منتقل نہیں ہو سکے۔ دوسری جانب ڈالر کا کاروبار کرنے والے افراد کا موقف ہے کہ ڈالر ریٹ میں تیزی سے کمی نے ایکسچینج کمپنیوں کو نقصان پہنچایا ہے، گو کہ اس سے ملکی معیشت میں بہتری کے اشارے دیے جا رہے ہیں لیکن جو ڈالر 245 روپے کے حساب سے خریدے گئے تھے آج وہ 220 روپے میں بھی فروخت نہیں ہو رہے، جس سے بھاری نقصان ہوا ہے۔ مارکیٹ میں ڈالر کے خریدار کم ہو گئے ہیں۔ ایکسچینج کمپنیوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ حکومت سے کئی مرتبہ گزارش کی ہے کہ ایکسچینج کمپنیوں کو ڈالر ملک میں لانے کے لیے مزید سہولتیں دی جائیں۔ بینکوں کے پاس سیکڑوں آپشنز ہیں جب کہ منی چینجر صرف تین سے چار طریقوں کے علاوہ ڈالر پاکستان نہیں لا سکتے، اگر حکومت ہمیں سہولت فراہم کرے گی تو ایک طرف ڈالر کے غیر متوقع اتار چڑھا¶ سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ ہو سکے گا اور دوسری طرف ہنڈی کے ذریعے آنے والے ڈالر میں کمی آ سکے گی جس کا فائدہ پاکستان کو ہو گا۔ اسی طرح پراپرٹی اور کنسٹرکشن کے وسیع کاروبار سے وابستہ افراد کا موقف ہے کہ ڈالر ریٹ بڑھنے سے اسٹیل، ریت، بجری، ٹائلز اور سینیٹری سمیت تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن جب سے ڈالر ریٹ کم ہونا شروع ہوا ہے، ان اشیا کی قیمتوں میں کمی نہیں ہو رہی ہے اور مستقبل میں بھی اس کے آثار دکھائی نہیں دیتے، جس کے باعث کنسٹرکشن کا کاروبار سکڑ رہا ہے۔ کھربوں روپوں کی یہ صنعت تنزلی کا شکار ہو رہی ہے، لیکن حکومت اس کے بچا¶ کے لیے اقدامات نہیں کر رہی۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر موثر ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.