ہم نے زندگی میں سنا تھا میمنہ اچھی غذا نہ بھی کھائے تو اپنی عمر کے ساتھ ساتھ وہ دوندا… چوکا… وغیرہ جیسی منازل طے کرتا ہوا بکرا بن جاتا ہے یہ ایک قدرتی process ہے مگر آپ حیرت زدہ ہوں گے کہ ہمارے سیاستدان اگر کبھی NAB یا F.I.A کے ہتھے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے چڑھ جائیں تو وہ چند ہی دنوں بلکہ کچھ Cases میں تو وہ چند گھنٹوں میں ہی بکرے سے میمنہ بن جاتے ہیں اور ہسپتال کے ICU یا پھر CCU میں پہنچ جاتے ہیں…!؟!
’’اللہ اللہ… خیر صلہ‘‘…!؟ چلیں اچھا ہے ہمارے ہاں سیاست میں ’’بڑے لوگوں‘‘ کے لیے یہ ’’سہولت‘‘ موجود ہیں۔ ورنہ وہ اداروں کے سامنے بہ امر مجبوری سچ بولنے میں کامیاب ہو جاتے اور پھر حکومتیں کیسے چلتیں … یہ تو سوچنے کی بات ہے…؟!
پاکستان کی سیاست اس وقت ساری کی ساری اسلام آباداور پنڈی میں ہو رہی ہے… پچھلے دنوں سارا زور لاہور پے تھا… ایک ’’بہادر‘‘ سیاسی ’’افسر‘‘ آج ہسپتال میں ہے۔ مجال ہے احساس ہو کہ وہ وہی ہے جو گرفتار ہونے سے پندرہ دن کے دوران پگڑیاں اچھالنے کے کاروبار میں ملوث تھا؟!ہم نے پاکستان کی سیاست میں بڑے بڑے ’’فنکار‘‘ دیکھے… اوہ سوری مجھے ’’فنکار‘‘ سے یاد آیا… پنڈی والے شیخ رشید آخری بار 14 اگست کے جلسہ میں لال حویلی کے آس پاس دیکھے گئے تھے… سین سے آف ہیں؟!بڑی ثقیل اردو بولتے ہیں… نو عمر یا یوں کہہ لیں کہ ممی ڈیڈی ٹائپ مرد تو شیخ رشید کی دھڑلے دار تقریر سن کر کانپ جاتے ہوں گے… گھبرا جاتے ہوں گے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ
ایک بار محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کے دور میں ان کو کلاشنکوف کے کیس میں تندور کے پاس والی بیرک میں بہاولپور جیل میں رکھا گیا تو یہ کئی سال تک خاموش رہے… روپوش رہے… ستارے بتاتے ہیں کہ شیخ صاحب شاید پھر سے روپوش ہونے والے ہیں… کیونکہ ایک جیسی تقریر بندہ 365 دفعہ تو کر سکتا ہے… جھوٹے وعدے اتنی دفعہ کرنے والوں کو آج کل لوگ گلی محلوں میں اس وقت گھیر لیتے ہیں جبکہ وہ نئے الیکشن کے لیے نئے جذبے کے ساتھ ووٹ لینے نکلتے ہیں… اکا دکا مار کٹائی اور جگ ہنسائی کے واقعات پچھلے دنوں دیکھنے کو ملے ہیں۔
اس طرح کے واقعات شاید بڑھ جائیں کیونکہ ہمارے سیاستدان بہت بڑے بڑے وعدے (جھوٹے) ناممکن سے کر جاتے ہیں اور پھر کچھ cases میں تو وہ سیاستدان دوبارہ کئی سال اپنے حلقے ہی میں نہیں جاتے اور پھر… عوام اب باخبر ہے ہر گھر میں Net ہے گویا تازہ ترین معلومات ہر آدمی کے پاس…! اس سیاسی وعدہ اور عوامی سوجھ بوجھ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جناب سعید جاوید نے فیس بک پر ہمیں یہ اطلاع دے کر اور ایک سات منٹ کاکلپ دکھا کر ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ بھارت نے ایک ’’مال گاڑی‘‘ goods train چلائی ہے جس کے آگے پانچ یا چھ انجن لگتے ہیں اور 395بوگیاں (ڈبے) جن کی لمبائی ساڑھے تین کلو میٹر بنتی ہے۔ یہ مال گاڑی عام ریل گاڑی کی رفتار سے چلتی ہے اور دنیا میں اس ٹرین نے ریکارڈ بنایا ہے۔ ہم پچھلے 5 مہینوں سے سیاستدانوں اور اداروں کی رفتار چیک کر رہے ہیں بریکیں لگا لگا کے دیکھ رہے ہیں۔
فیس بک پر اک ٹوٹا دیکھا… ملاحظہ کریں۔
’’آم کھاؤ تو ایسے کھاؤ کہ گٹھلی بھی شرما کر کہے‘‘؟!
’’ارے چھوڑئیے نا اب… بس بھی کیجیے سب دیکھ رہے ہیں‘‘…؟!
آم کیسے کھانا… چوسنا یا انجوائے کرنا چاہیے اس بات پر اللہ کا شکر ہے کہ مولوی ، منسٹر، سیاستدان ، سرکاری ملازم، فیصل آباد کا مل مالک ، صحافی اور حافظ مظفر محسن سب ہی متفق ہیں‘‘؟ ہے ناں مزے کی بات!
آپ کو اک بابرکت لطیفہ سناتا ہوں… جن کے بچے تین یا اس سے کم ہیں وہ نہ ہی پڑھیں تو بہترہے… چلیں سب ہی پڑھ لیں… ہمیں کیا…؟!
خان کے تین بچے ہوئے… نام رکھا
حسرت خان… حرکت خان… برکت خان
پھر تین اور بچے ہوئے نام رکھا
دریا خان… سمندر خان… سیلاب خان
پھر تین اور بچے ہوئے نام رکھا
ہمت خان… حوصلہ خان… برداشت خان
پھر تین اور ہوئے … اس بار نام خان کو نہیں رکھنے دیئے گئے … بیوی نے خود نام رکھے…!
’’بس کر خان… ہوش کر خان… رحم کر خان‘‘…!
شیخ رشید کہتا ہے میں آٹھ بار الیکشن جیت چکا ہوں نو بار وزیر رہ چکا ہوں… وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ۔
امید ہے اب عوام ایسے سیاستدانوں کو اگر انہوں نے کام نہ کیا… عوام کو حسب سابق دھوکہ دیا… قوم کا وقت ضائع کیا… جھوٹے وعدے کیے اور ٹرک کی بتی پہ لگایا اور عوام کو پارٹی پالیسی میں الجھایا تو عوام کہیں گے؟
دفعہ رہو… دفعہ دور رہو… بدوملہی رہو… چاہیے قصور رہو… دفعہ رہو… دور رہو۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.