اڈولف ہٹلر تاریخ اقوام عالم کا ایک بڑا لیکن بہت زیادہ پسندیدہ نام نہیں ہے اوڈلف ہٹلر کی مہم جوئی اور جنگ بازی نے پوری دنیا کو ایک مہیب مشکل میں ڈالا۔ دوسری جنگ عظیم (1939-45) کے دوران کروڑوں انسان ہلاک، مجروح ہوئے اربوں کھربوں ڈالر کی نجی و سرکاری املاک فنا کی گھاٹ اتر گئیں بستیاں، شہر، ملک صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ عالمی منظرنامہ تبدیل ہو گیا۔ برطانیہ عظمیٰ، عالمی سیاست کے منظر نامے سے گم ہو گئی اور اس کی جگہ امریکہ نے لے لی۔
ہٹلر ایک کرشماتی شخصیت تھی۔ نظریاتی شخصیت تھی۔ تنظیمی شخصیت تھی اس نے یورپ کی بہترین قوم کو ایک خواب دکھایا۔ تیسری عظیم جرمن ایمپائر کے اجرا و قیام کا خواب دکھایا۔ اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے جرمن ورکر پارٹی کو اس دور کے جدید تقاضوں کے مطابق استوار کیا اور پھر پوری قوم کو اپنے پیچھے لگایا۔ اپنے خیالات اپنی قوم تک پہنچانے کے لئے اس دور کی عظیم الشان، انتخابی مہم چلائی۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی نے انتخابی مہم میں ہوائی جہاز کا استعمال کیا۔ اڈولف ہٹلر اکثریت حاصل نہیں کر سکا لیکن تھوڑے ہی عرصے میں اس نے سیاسی حالات کو کچھ اس طرح ٹوسٹ کیا کہ وہ ایوان اقتدار میں داخل کر دیا گیا اور پھر اس نے اپنے آپ کو مطلق العنان حکمران بنا ڈالا۔
ابلاغ عام یا ماس کمیونیکیشن کے لئے اڈولف ہٹلر کے مشیر اور بعد میں وزیر گوئیبلز نے ایسی منصوبہ سازی کی، اس طرح مہم چلائی کہ ہٹلر کے نظریات جرمن قوم تو پرکشش انداز میں پہنچے۔ ہٹلر کی شخصیت کے گرد عظمت و برتری کا ایک ایسا ہالہ قائم کیا گیا کہ یورپ کی سب سے عقل مند اور اعلیٰ جرمن قوم نے اسے مسیحاتسلیم کر لیا اور اس کی قومی تعمیروترقی کی باتیں تسلیم کر لیں۔ اس کے نعروں کے آگے نہ صرف اپنا سر جھکایا بلکہ تن من دھن کے ساتھ اس کی جدوجہد میں شریک ہو گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد ہٹلر کے افکار و نظریات، اس کی نازی پارٹی اور اس سے متعلق تمام باتوں پر حکماً اور قانوناً پابندی عائد کر دی گئی۔ہٹلر کو تاریخ کا ایک ناپسندیدہ کردار قرار دے دیا گیا۔ ہٹلر نے نہ صرف اپنی قوم کو بلکہ پوری دنیا کو جہنم میں دھکیلا اور وہ خود بھی خودکشی کے ذریعے منظرعالم سے غائب ہو گیا۔
ہٹلر نے نفرت اور انکار کی آبیاری کے ذریعے نازی پارٹی کو مضبوط کیا۔ لوگوں کی تنظیم سازی کی گوئیبلز نے جھوٹ کو ایک ابلاغی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ آج ہٹلر کے افکار و نظریات پر پابندی ہے لیکن گوئیبلز کے ابلاغ عام کے لئے اختیار کردہ ہتھکنڈوں کو ابلاغ عام کی تھیوریوں کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اسے پروپیگنڈہ کہا جاتا ہے۔ 70/80 سال گزرنے کے باوجود گوئیبلز کے افکار و نظریات آج بھی تروتازہ نظر آتے ہیں۔
پی ٹی آئی ہمارے ملک کی تروتازہ اور جوان پارٹی ہے۔ افکارونظریات کے اعتبار سے جواں ہمت اور مؤثر بھی ہے۔ پی ٹی آئی نے کمیونیکیشن، سیاسی ابلاغ عام کی روایات کو انقلابی تبدیلیوں سے ہمکنار کر دیا ہے سیاسی جلسوں کو عوامی رنگ دینا، پاپولر عوامی فنکاروں کے ذریعے ہجوم کو بہلانا، موسیقی کا استعمال، جدید ابلاغی (سمعی و بصری) ٹیکنالوجی
کے استعمال کے ذریعے جلسوں اور جلوسوں کو گرمانے کی حکمت عملی اختیار کر کے پی ٹی آئی نے فی الحقیقت قومی سیاسی میدان میں اپنا سکہ جما لیا ہے۔ سوشل میڈیا کے موثر استعمال میں بھی پی ٹی آئی فی الوقت بے مثال ہے۔ نوجوان خواتین و حضرات کی فوج ظفرموج سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی پارٹی کی ابلاغی حکمت عملی کو لے کر چلتی ہے اور ایسے چلتی ہے کہ مخالفین دیکھتے ہی رہتے ہیں اس کی تازہ ترین مثال شہباز گل کا کیس ہے۔ اسے بغاوت کے ایک کیس میں گرفتار کیا گیا ہے ایک انتہائی سنجیدہ الزام کے تحت ان پر مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ تحقیقات کے نتیجے میں دیگر افراد کی گرفتاریاں بھی متوقع ہیں لیکن پی ٹی آئی نے اپنی ابلاغی حکمت عملی کے تحت اس کیس کا رخ سردست شہباز گل پر ہونے والے مبینہ تشدد کی طرف موڑ دیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عمران خان سمیت پارٹی عہدیدار شہباز گل پر شدید تشدد کی باتیں دہرا رہے ہیں جبکہ ان کا اپنا وزیر داخلہ اس بات کی تردید کر رہا ہے۔ ابھی تک کسی میڈیکل چیک اپ رپورٹ میں تشدد کی بات سامنے نہیں آئی ہے۔ ہاں ان کی موروثی بیماری کے عود کر آنے کی بات سامنے آئی ہے جس کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شہباز گل اپنی پارٹی پالیسی کے عین مطابق ’’انکار‘‘ اور ’’جھوٹ‘‘ بولنے اور بولتے ہی چلے جانے کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان پر کرپشن، فراڈ، جھوٹ اور دھوکہ دہی کے الزامات، تحریری طور پر سامنے آ چکے ہیں لیکن وہ مسلسل مخالفین پر وہی الزامات دہراتے چلے جا رہے ہیں۔ ’’جھوٹ کو اس انداز میں بولو کہ وہ سچ لگے‘‘ اور ’’جھوٹ اتنی بار بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں‘‘ یہ گوئیبلز کے اقوال زریں ہیں جو اس نے پراپیگنڈہ کے حوالے سے نہ صرف بیان کئے بلکہ ان پر عمل کر کے نازی پارٹی کو جرمن قوم میں مقبول بلایا۔ پی ٹی آئی بھی کچھ اس قسم کی ابلاغی حکمت عملی پر چلتی نظر آ رہی ہے۔ شہباز گل نے جو کچھ کہا کہ آئینی طور پر بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ عمران خان بھی کہہ چکے کہ انہیں وہ فقرہ نہیں کہنا چاہئے تھا پہلے پوری پارٹی کسی جرم کے ارتکاب کو مانتے ہی نہیں تھے انہوں نے گل کی گرفتاری کو عمران خان کے خلاف سازش قرار دینا شروع کردیا تھا۔ پھر جب عمران خان نے ایک فقرے کے بارے میں کہا کہ انہیں نہیں کہنا چاہئے تھا تو پارٹی نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی اب تشدد کی باتیںکی جا رہی ہیں انہیں الٹکا لٹکا کر ننگا کر کے تشدد کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن تمام میڈیکل رپورٹس نے ایسے کسی بھی تشدد کی نفی کر دی ہے تو پی ٹی آئی کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا کہ وہ کوئی اور جھوٹا سچا نیا بیانیہ تشکیل دیں۔ گل صاحب کا ایک بار پھر میڈیکل ہونے جا رہا ہے تاکہ ان کی شکایات اور واویلے کا حتمی فیصلہ ہو سکے پی ٹی آئی، شہباز گل کی گرفتاری کے اصل سبب یعنی بغاوت کے مقدمے سے توجہ ہٹانے میں کسی نہ کسی حد تک کامیاب نظر آ رہی ہے۔
ماضی قریب میں پی ٹی آئی اسی حکمت عملی کے تحت عمران خان کے فارن فنڈنگ کیس اور توشہ خان کیس سے بھی توجہ ہٹانے میں کامیاب رہی ہے۔ انہوں نے ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کے بیانیے کے ذریعے اپنے اوپر اوپن اینڈ شٹ کیسز سے توجہ ہٹائی۔ جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے ابلاغی حکمت عملی کے ذریعے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی کرپشن میں لتھڑی شخصیات کو عوام کے سامنے اس انداز میں بے نقاب ہونے سے بچائے رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کیسز میں عمران خان بچ نہیں پائیں گے۔ ان کی پارٹی پر پابندی بھی عائد ہو سکتی ہے کیونکہ حالات و واقعات اتنے واضح ہیں کہ عمران خان کا بچنا ممکن نہیں ہو گا۔ لیکن پی ٹی آئی ایسے کیسز کو سیاسی رنگ دینے کی کاوشیں کر رہی ہے کبھی اسے مائنس ون فارمولا کہا جاتا ہے کبھی اسے اور نام دے کر عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے، کرپشن، جھوٹ اور دھوکہ دہی کے کیسز کو سیاسی انتقام ثابت کرنے کی کاوشیں، عمران خان پارٹی کی ایسی حکمت عملی ہے جو کسی نہ کسی حد تک کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت ’’انکار‘‘ اور ’’جھوٹ‘‘ کی سیاست کے ساتھ ساتھ دھونس دھاندلی کا بھی بڑا سائنٹفک استعمال کرنا جانتی ہے۔ شہباز گل کا کیس اس سلسلے کی تازہ ترین مثال ہے۔ میڈیا میں ان کی بغاوت بارے کچھ نہیں کہا جا رہا ہے ان کے گھنائونے کردار بارے بات نہیں ہو رہی ہے بلکہ ان پر تشدد اور بیمار ہونے کے جھوٹ کا تسلسل سے بیان کیاجا رہا ہے اس طرح سردست حقیقت دھندلا رہی ہے۔ عدالتیں بھی ایک ’’باغی‘‘ کے حقوق کی باتیں کر رہی ہیں حالانکہ زور اس کی بغاوت پر ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے یہ پی ٹی آئی کی حکمت عملی کی کامیابی ہے جس کے لئے وہ مبارکباد کی مستحق ہے باقی رہا مقدمہ تو اس کا فیصلہ شاید بہت اہم نہیں ہو گا۔ لگ تو ایسے ہی رہا ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.