مقبوضہ کشمیر میں کھیلوں کے عالمی مقابلے نہیں ہونے چاہئیں

7

44واں شطرنج اولمپیاڈ 28 جولائی سے 10 اگست 2022 کے دوران بھارت کے شہر چنئی میں منعقدہورہا ہے۔ یہ مقابلے1927 سے منعقد ہو رہے ہیں مگر اس کی میزبانی ، بھارت پہلی مرتبہ اور ایشیا 30 برس بعد کر رہا ہے۔ اس مقابلے میں 189 ممالک حصہ لے رہے ہیں۔ یہ کسی بھی شطرنج اولمپیاڈ میں اب تک کی سب سے بڑی شراکت داری ہوگی۔ 
اس سال، پہلی مرتبہ، شطرنج کی بین الاقوامی انجمن ، ایف آئی ڈی ای، نے شطرنج اولمپیاڈ مشعل کا آغاز کیا ہے جو کہ اولمپک کی روایت کا حصہ ہے، لیکن اسے شطرنج اولمپیاڈ میں کبھی شامل نہیں کیا گیا۔ بھارت شطرنج اولمپیاڈ مشعل ریلے منعقد کرنے والا اولین ملک ہوگا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ شطرنج سے وابستہ بھارت کی قدیم روایات کو نئی بلندیوں تک لے جاتے ہوئے، شطرنج اولمپیاڈ کے لیے مشعل ریلے کا آغاز اب سے ہمیشہ بھارت میں ہوگا اور میزبان ملک پہنچنے سے قبل یہ مشعل ریلے تمام بر اعظموں کا سفر طے کرے گی۔ یہ مشعل چنئی کے قریب واقع مہابلی پورم میں فائنل تقریب سے قبل 40 دنوں کی مدت میں 75 شہروں میں لے جائی جائے گی۔ ہر مقام پر، مشعل کو ریاست کے شطرنج گرینڈ ماسٹرز کے حوالے کیا جائے گا۔ 
مشعل بھارت کے جن 75 شہروں میں لے جائی جائے گی ان میں مقبوضہ جموں و کشمیر بھی شامل ہے۔جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کا کہنا ہے کہ پہلی مرتبہ شطرنج اولمپیاڈ مشعل کی میزبانی کرناپورے جموں و کشمیر کیلئے بڑے فخر کا لمحہ ہے۔ کشمیر سے کنیا کماری تک اپنے سفر میں یہ مشعل راہ روشن کرے گی اور لوگوں کو اچھی ٹیم ورک ، امن ، ہم آہنگی اور بھائی چارے کی اقدار کو فروغ دینے کیلئے اکٹھا کرے گی۔ جموں و کشمیر میں کھیلوں کا بہت مضبوط کلچر ہے اور اس طرح کے مقابلوں سے نوجوان کھلاڑیوں کو 
شطرنج کا مقابلہ کرنے کی ترغیب ملے گی۔
مقبوضہ جموں وکشمیر بھارت کا حصہ نہیں بلکہ متنازع علاقہ ہے۔ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے مگر کشمیری اسے نہیں مانتے۔ بھارت کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کا ہر موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا مگر وہ یہ جان بوجھ کرتا ہے تاکہ دنیا کو باور کرایا جا سکے کہ جموں و کشمیر بھارتی علاقہ ہے ۔بہر حال جب تک کشمیر کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، بھارت کو کھیلوں  کے مقابلے یا اس سے متعلق دوسری سرگرمیاں جموں و کشمیر میں عملاً منعقد کرانے سے گریز کرنا چاہیے ۔
پاکستان کشمیر کا بھارت سے الحاق نہیں مانتا۔ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں۔مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے، پاکستان اور بھارت بیٹھ کر مسئلہ کشمیر پر بات کریں۔ بھارت کبھی کشمیریوں اور ان کے مسائل کو تسلیم نہیں کرے گا، ہماری نوجوان نسل جانتی ہے کہ بھارت کشمیر میں کیا کر رہا ہے۔بھارت کی وجہ سے نوجوان آزادی مانگنے سڑکوں پر موجود ہیں۔نریندر مودی سے ذاتی نہیں کشمیر کو بھارت کے ساتھ ملانے کے منصوبے پر اختلاف ہے۔ ہم کسی کو اپنے حقوق چھیننے نہیں دیں گے۔5 اگست2019کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے اپنے اند ر ضم کرنے کی کوشش کی۔ آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی تھی اور وہ بھارت کا حصہ بن گیا تھا۔ اس وقت سے آج تک کشمیر ی اس پر احتجاج کر رہے ہیں۔ 
قائد اعظم ؒ نے فرمایا تھا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور کشمیر کی آزادی اور اس کا الحاقِ پاکستان ہماری منزل ہے۔ پاکستان اس مقصد کیلئے کشمیریوں کی مکمل سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ کشمیری اپنے لئے آزادی حاصل کریں۔ پاکستان میں (ک)کالفظ کشمیر کیلئے ہی ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اس کی متنازع حیثیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں جن کو جھٹلایا نہیںجا سکتا۔ سلامتی کونسل نے اپنی کئی قراردادوں کے ذریعے جموں و کشمیر میں رائے شماری کرانے کا مطالبہ کر رکھا ہے جس پر آج تک عمل درآمد نہ ہوسکا۔ 
جب بھارتی لیڈر اٹوٹ انگ کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں تو پھر کشمیر سمیت تمام مسائل پر جامع مذاکرات بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم سے جب  جموں وکشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’ آپ کو یاد رکھنا ہوگا کہ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے‘‘۔ 
 بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ہی مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں پیش کیا تھا اور جب اس عالمی ادارے نے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار کشمیریوں کو دے دیا تو انہوں نے اسے تسلیم کیا لیکن کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ مستحکم کرنے کی کارروائی بھی جاری رکھی۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں نصف صدی گذر جانے کے بعد بھی برقرار ہیں۔ بھارت نے ابتدا میں تو ان قراردادوں پر عمل کرنے کا وعدہ کیا مگر بعد میں مکر گیا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے لگا۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ آج بھی پاکستان اور بھارت اپنے وسائل کا زیادہ تر حصہ دفاع پر خرچ کر رہے ہیں۔ 
پاکستان ہر مشکل وقت میں اپنے کشمیری بھائیوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کے ساتھ ساتھ مکمل مذہبی حمایت بھی کر رہا ہے اور ضرورت کے وقت اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی کیلئے ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔ کشمیری عوام کی جدوجہد حصول خودارادیت تک جاری رہے گی۔ دنیاکو کشمیری عوام پر ہونے والے فوجی مظالم کے بارے میں علم ہے اور مسئلہ کشمیر عوام کی بیش بہا قربانیوں کی وجہ سے عالمی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ شہداء کو شاندار خراج عقیدت صرف اسی صورت میں دیا جا سکتا ہے کہ ہم ان کے ادھورے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے جدوجہد جاری رکھیں۔

تبصرے بند ہیں.