الیکشن کے بعد

81

اس وقت جب میں کالم لکھنے میں مصروف ہوں‘پنجاب کے بیس حلقوں میں ضمنی انتخابات کاحیران کن نتیجہ آ چکا‘غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے بیس میں سے سولہ نشستیں جیت کر پنجاب میں کلین سویپ کر لیا ہے۔میں نے حیران کن نتیجہ اس لیے کہا کہ لاہور کی نشستیں جیتنا واقعی ایک مشکل کام تھا مگر تحریک انصاف کی بہترین حکمت ِ عملی نے ثابت کر دکھایا کہ عوام آج بھی عمران خان سے محبت کرتے ہیں۔بیس منحرف اراکین کی سیاست مکمل طور پر دفن ہو چکی‘بکائو مال اپنی موت آپ مر گیا‘ جہانگیر ترین اور علیم خان کے امیدوار بھی شکست کھا گئے‘پی پی پی کی مشاورت بھی کام نہ آ سکی اور مریم نواز کا جھوٹ پر مبنی بیانیہ بھی ختم ہو چکا۔الیکشن سے قبل میرے صحافی دوستوں کا خیال تھا کہ تحریک انصاف مشکل سے دس سیٹیں جیتے گی‘لاہور کی چاروں سیٹیں نون لیگ کی ہوں گی‘ملتان والی سیٹ جہانگیر ترین کے چہیتے سلمان نعیم لے جائیں گے اور علیم خان والی سیٹ بھی تحریک انصاف کے لیے جیتنا مشکل ہوگا مگر آج جب نتیجہ دیکھ رہے ہیں تو سب دوست حیران ہیں کہ تحریک انصاف اس قدر مقبول جماعت بن جائے گی‘سوچا نہ تھا۔
عمران خان کو راستے میں چھوڑ کر جانے والے اراکین کا خیال تھا کہ حمزہ شہباز کے وزیر اعلیٰ بنتے ہی پنجاب میں دودھ کی نہریں جاری ہو جائیں گی اور معاشی بحران پلک جھپکتے ہی ختم ہو جائے گا‘مہنگائی کا نام و نشان مٹ جائے گا کیونکہ حمزہ شہباز کے پاس پنجاب میں اتنی قابل ٹیم ہے کہ اسے شکست دینا مشکل ہو جائے گا مگر معاملہ الٹ ہو گیا۔میرا خیال ہے حالیہ ضمنی انتخابات سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ مسلم لیگ نون کو اپنا غیر جمہوری رویہ تبدیل کرنا ہو گا‘ ریاستی اداروں کو عزت دینے کے ساتھ ساتھ انہیں خود مختار بھی کرنا ہوگا‘بیوروکریسی میں چہرے بدلنے کے بجائے سسٹم بدلنا ہو گا‘ نیب سے اپنے کیسز ختم کرانے کے بجائے اسے مزید طاقت ور کرنا ہوگا تاکہ بڑے ڈاکوئوں کا احتساب ہو سکے‘گیارہ کے بجائے بائیس جماعتیں بھی متحد ہو جائیں ‘جب تک ڈلیور نہیں کریں گے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ان انتخابات سے ایک بات یہ بھی واضح ہو گئی کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور عوام کو ہی رہنا چاہیے‘مینڈیٹ چوری کرنے والے اور کرانے والے ہمیشہ منہ کی کھائیں گے‘آج بکائو سیاست دانوں کو عوام نے صرف شکست نہیں دی بلکہ تمام جماعتوں کو سبق سکھایا ہے کہ ’ووٹ کو عزت ‘کیسے دی جاتی ہے۔
اتحادی جماعتوں کو میرا مشورہ ہے کہ حالیہ شکست سے سبق سیکھے اور نئے انتخابات کا اعلان کرے‘یہی بہترین وقت ہے ووٹ کو عزت دینے کا‘ عوام کو موقع دیا جائے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ تخت پر کسے بٹھانا ہے۔پی ڈی ایم کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ انھوں نے عمران خان کو گھر بھیج کر بہت بڑی غلطی کی اور یہ بھی سچ ہے کہ مسلم لیگ نون کو یہ غلطی لے ڈوبے گی۔آصف علی زرداری کی باتوں میں آکر مسلم لیگ نون نے پنجاب میں بھی اپنی ساکھ کمزور کر لی‘اب نقصان کس کا ہوا؟ اتحادی جماعتیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کا یا مسلم لیگ نون کا؟یہ بات شریف برادران کو سمجھنا ہو گی۔ سب سے اہم بات کہ مسلم لیگ نون کو ترجمان بھی بدلنا ہوں گے اور مریم نواز کا سپیچ رائٹر بھی‘میں نون لیگ کی شکست کا ذمہ دار مریم نواز اور لیگی ترجمانوں کو ٹھہراتا ہوں جنھوں نے ہمیشہ نیا بیانیہ متعارف کرایا‘ جنھوں نے عمران خان کو گھر بھیج کر سمجھا تھا کہ تحریک انصاف کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا۔نیب قوانین میں تبدیلی‘اوورسیز پاکستانیوں کی حق تلفی اور معاشی بحران حالیہ شکست کی سب سے بڑی وجہ ہے‘ چند دنوں کی حکومت کو لیگی دوست نہ جانے کیا سمجھ بیٹھے تھے۔اقتدار میں آتے ہی عوام کو ریلیف دینے کے بجائے اپنے کیسز ختم کرانے میں لگ گئے اور یوں عوام کے سامنے اپنی اصلیت ظاہر کر دی‘یہی وجہ ہے کہ آج پنجاب کے عوام نے واضح کر دیا کہ ریلیف چاہیے‘نیب قوانین میں ترامیم نہیں۔
پنجاب میں سیاسی منظر نامہ یقینا تبدیل ہو جائے گا‘ پرویز الٰہی وزیراعلیٰ ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وفاق میں بھی بڑی تبدیلی آئے۔ذرائع سے یہ بھی خبریں مل رہی ہیں کہ نواز شریف ‘چھوٹے بھائی کو اسمبلیاں توڑنے کی تجویز دے رہے ہیں تاکہ نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ میرے خیال سے اسمبلیاں توڑنے کے بجائے شہباز شریف کو خود ہی نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دینا چاہیے‘ممکن ہے یہ فیصلہ نون لیگ کی ساکھ کو بہتر کر دے۔ایک اور مشورہ نون لیگی قیادت کے لیے کہ اتحاد ختم کر دیں‘مسلم لیگ نون کو مضبوط کرنے کا واحد آپشن یہی ہے کہ تمام جماعتیں اپنے ہی بینرز تلے الیکشن لڑیں اور عوام کا مینڈیٹ حاصل کریں‘ایک دوسرے کے کندھے پر رکھ کر بندوق اٹھانے سے کس کو فائدہ ہوگا؟شاید کسی کو بھی نہیں۔اب تحریک انصاف کے پاس دو راستے ہیں‘پہلا پنجاب میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ثابت کرے کہ اگلے عام انتخابات میں بہترین آپشن عمران خان ہے اور دوسرا آپشن کہ عمران خان پہلے کی طرح سیاسی غلطیاں کرے اور دوبارہ عوام کی نفرت کا باعث بنے۔میں اکثر دوستوں سے کہتا ہوں کہ اگر عمران خان پانچ سال مدت پوری کرتا تو اگلے جنرل الیکشن میں شاید اسے ایک صوبہ بھی نہ ملتا مگر اتحادی جماعتوں نے اپنے کیسز ختم کرانے کے چکر میں عمران خان کو لات ماری اور یہ لات اسے مزید کامیاب کر گئی۔ امید ہے عمران خان گزشتہ تجربے سے سبق سیکھیں گے اور اگلے جنرل الیکشن کی تیاری کے لیے بھرپور محنت کریں گے‘یہ وقت سیاسی طور پر خود کو مضبوط کرنے کا ہے‘ غداری اور نفرت کے سرٹیفکیٹس بانٹنے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے محنت کی جائے۔اگلے الیکشن کے ساتھ ساتھ اگلی نسلوں کا سوچا جائے اور مداخلت و سازش کے بیانے سے باہر نکلا جائے تاکہ بہت سے بہتر پاکستان کی بنیاد رکھی جائے۔ معاشی طور پہ یہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا‘ ایسے میں سیاسی شطرنج کے بجائے عوام میں اپنی عزت و وقار بحال کیا جائے تاکہ ہم حقیقت میں نئے پاکستان کی بنیاد رکھ سکیں۔

تبصرے بند ہیں.