دوستو،برطانیہ میں مہنگائی کی وجہ سے ایک فیملی پورے ہفتے میں صرف ایک بار نہانے پر مجبور ہے۔غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، بڑھتی ہوئی مہنگائی، یوکرین میں جنگ زدہ صورتحال اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے برطانیہ میں معیار زندگی برقرار رکھنا اس وقت بہت زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔رپورٹ کے مطابق، لندن کے ساؤتھ ویسٹ سے تعلق رکھنے والی ایٹمین فیملی کا کہنا ہے کہ ’عالمی وبا کورونا کے بعد زندگی گزارنے کے لیے ضروری اخراجات نے زندگی کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔اس خاندان میں چار افراد ہیں، جن میں میاں بیوی اور ان کی دو نوعمر بیٹیاں شامل ہیں۔اس فیملی کا کہنا ہے کہ ہم ایک مشکل وقت سے گزر رہے ہیں، لیکن قیمتیں ہر روز مزید بڑھتی جا رہی ہیں۔ کورونا وبا کے دوران شوہر ملازمت سے محروم ہو گیا جب سے فیملی کے لئے گزارہ کرنا مشکل ہو گیا۔ اخراجات کا انتظام کرنے اوربجلی کے بلز کو کم کرنے کے لیے، ہماری فیملی ہفتے میں صرف ایک بار نہاتی ہے اور کھانا بھی محدود مقدار میں کھاتی ہے۔اس فیملی نے بہت سی چیزوں کو کم کر دیا جیسے کہ کپڑے خریدنا، برانڈڈ شیمپو یا صابن خریدنا، اب یہ لوگ صرف ضروری چیزیں خریدتے ہیں۔
پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد سے حکومت کا سوشل میڈیا پر مسلسل ’’توا‘‘ لگا ہوا ہے۔ ساتھ ہی سائیکل کی خریدنے یا گزشتہ زمانے کی طرح پھر سے تانگہ استعمال کرنے کا مشورہ بھی دیا جارہا ہے۔۔ایک صاحب کا کہنا تھا کہ۔۔ پٹرول کی ڈبل سنچری کرنے پر مبارکباد، شاید اب ہمیں تانگے کا سسٹم واپس شروع کر دینا چاہیے۔تو کسی نے مشورہ دیا کہ’اب ہم سب کو سائیکل خرید لینی چاہیے‘۔ایک نے یہ دعویٰ کیا کہ ۔۔کچھ دنوں میں پیٹرول چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں سنار کی دکان سے ملے گا۔ایک صاحب نے پٹرول مہنگا ہونے کے بعد عوامی پیغام شیئرکیا جس کے مطابق شادی اور عشق اپنے ہی شہر میں کیجئے، پٹرول بہت مہنگا ہوگیا ہے۔۔بس کی چھت پر بیٹھے شخص نے اچانک آواز لگائی۔۔مجیدے۔۔اندر بیٹھے ایک صاحب نے جیسے ہی گردن باہر نکالی تو اوپر سے کسی نے زور سے اس کے سرپر جوتا مارا، جوتا لگتے ہی اس نے جلدی سے گردن اندرکرلی۔۔تھوڑی دیر بعد پھر آواز آئی۔۔مجیدے۔۔اس کے بعد وہی ہوا جو پہلے ہوا تھا۔۔ اب بس کے اندر بیٹھے جوتے کھانے والے کو کچھ ہی دیر گزری تھی ،اچانک پھر سے آواز آئی۔۔مجیدے۔۔ اس نے پھر جلدی سے گردن باہر نکال دی، پھر ایکشن ری پلے ہوا۔۔ جب چوتھی بار بھی ایسا ہی سین ہوا تو برابرمیں بیٹھے بزرگ نے انتہائی سنجیدگی سے پوچھا۔۔بھائی جی آپ کا نام مجید ہے؟؟ جوتے کھانے والے نے کہا۔۔ جی نہیں۔۔بزرگ نے کہا۔۔ تو پھر آپ بار بار گردن باہر کیوں نکال رہے ہیں؟ جس پر جوتے کھانے والے نے تاریخی جواب دیا۔۔اوپر والے کو بیوقوف بنا رہا ہوں۔ واقعہ کی دُم: مہنگائی کی حمایت میں جب کسی پٹواری کو بولتا دیکھیں تو سمجھ لیا کریں کہ اسے باہر سے آواز آئی ہے۔۔مجیدے۔۔
جیدا ایک بہت ہی غریب انسان ہے، اس کی غربت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ محلے کے اکلوتے پرچون والے نے بھی اس کا ادھار بند کردیا تھا۔ کراچی کے ایک مضافاتی علاقے میں رہنے والے جیدے کے سپنے ویسے تو بڑے بڑے تھے لیکن مصیبت یہ تھی کہ سپنوں کیلئے سونا پڑتاہے اور جیدے کی نیند کبھی پوری نہیں ہوتی۔جیدا ہمیشہ سوچا کرتا تھا کہ پتہ نہیں کب اس کی غربت دور ہوگی کب اس کے تمام بڑے بڑے سپنے پورے ہوں گے۔پھر ایک دن وہ آگیا جب پورے محلے نے جیدے کو خوشحال دیکھا۔۔ جنید ڈاٹ کے نئے کرتے میں ملبوس دیکھا، پیروں میں کولہاپوری چپل جگمگا رہی تھی، گوچی کی عینک کے ششکے ہی الگ تھے۔۔جیدا محلے کے اکلوتے پرچون فروش کے پاس گیا اور پچھلے ایک سال کا سارا ادھار چکایا، اس خوشی میں پرچون والے نے جیدے کو ٹھنڈی ٹھنڈی کولڈ ڈرنک بھی پلائی ساتھ میں سپر بسکٹ کا ایک پیکٹ بھی کھول کر اس کے سامنے رکھا۔محلے والے پریشان تھے کہ جیدے کے پاس اتنا پیسہ اچانک کہاں سے آگیا کہ اس کی ٹور ہی بدل گئی، شام کو اور پھر رات کو جب فوڈ پانڈا والا جیدے کے گھر کھانا ڈیلیور کرنے ایا تو اگلے روز محلے کے بزرگوں نے سر جوڑ لئے سب کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ جیدے سے تفتیش کی جائے کہ اس کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے اچانک آگیا؟؟ ابھی بزرگ کمیٹی کا اجلاس جاری تھا کہ جیدا اچانک وہاں آن دھمکا کہنے لگا۔ خالو حمید اپنے لمڈے کو موٹر سائیکل دینا ذرا، اس کے ساتھ مارکیٹ جانا ہے، اپنے لئے ایک نیا آئی فون پرومیکس خریدنا ہے پھر پیڈ سم نکلوانی ہے، وہاں سے امتیاز سپر سٹور جانا ہے وہاں میں نے پورے محلے کیلئے ایک ایک ماہ کے راشن پیکٹ کا آرڈر دینا ہے، اور ہاں مجھے پتہ ہے پٹرول دوسو دس روپے لیٹر ہوگیا ہے گھبرانے کی بات نہیں میں آپ کی بائیک کی ٹینکی فل کرادوں گا۔۔ خالوحمید کی تو بانچھیں کھل گئیں فوری طور پر اپنے لمڈے کو بائیک سمیت جیدے کے ساتھ بھیجا۔ دوگھنٹے بعد جیدے کی واپسی ہوگئی۔۔ بزرگ کمیٹی کا اجلاس کچھ دیر پہلے ہی ختم ہوا تھا اور چائے کا دور چل رہا تھا۔ خالو نے اپنے لمڈے سے پوچھا، پٹرول ڈلوایا تھا، لمڈے نے کہا، ہاں ابا، ٹینک فل کرالیا۔ خالو نے اطمینان کی لمبی سانس لی جب کہ دیگر بزرگوں کی آنکھیں پھیل گئیں۔ ابھی وہ کچھ کہنے والے تھے کہ جیدا بولا۔ شام کو آپ میں سے کوئی امتیاز سٹور چلا جائے اور راشن کے پیکٹ اٹھا لے، محلے کے بارہ گھر ہیں بارہ پیکٹ کا آرڈر دیا ہے پے منٹ سب کر دی، ایک ماہ کا راشن ہو گا، یہ رسید رکھ لو جو بھی جائے اسے دکھا کر راشن اٹھا لے اور سب کے گھروں میں ایک ایک پیکٹ ایمانداری سے دے دے۔ بزرگ کمیٹی کے سرخیل جن کی بھنویں تک سفید تھی نے آخرکار پوچھ ہی لیا۔۔ جیدے کل تک تیرے پاس کھانے کو روٹی نہیں تھی، اچانک نئے کپڑے، مہنگا چشمہ، پرچون والے کا سارا ادھار چکانا، آئی فون پرو میکس لینا، پورے محلے کو ایک ایک ماہ کا راشن بانٹنا، آخر اتنا پیسہ اچانک کہاں سے آ گیا تیرے پاس؟؟؟ جیدا مسکرا کر بولا۔۔ باباجی، حکومت کی جانب سے دو ہزار روپے ملے ہیں، سمجھ ہی نہیں آتا اتنے پیسے کا کیا کروں، دو دن سے مسلسل خرچ کر رہا ہوں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔۔ اپنی تو غربت ختم ہو گئی فل عیاشیاں، موج مستی پروگرام چل رہا ہے۔ اگر یہ حکومت نہ ہوتی تو پتہ نہیں ہم غریب کب کے مرکھپ چکے ہوتے۔۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔موجودہ دور حکومت میں پیٹرول کی قیمتوں میں ساٹھ روپے اضافے کے بعدپوری قوم اس لڑکی کی تلاش میں لگ گئی ہے جو کہتی تھی۔۔گڈی توں منگا دے، تیل میں پوانی آں۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.