عالمی مجلس،بیداری فکراقبالؒ کی ادبی نشست منعقدہ25مئی کو محترمہ لبنیٰ فروغ نے اپنے خطاب میں کہاکہ عشق ایک صوفیانہ جذبہ ہے جووحی سے براہ راست سے ماخوذہے۔عشق کی اصطلاح سے مراد وحی کی تعلیمات پر عمل پیراہوناہے۔ اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے کل مخلوقات تک اپناپیغام پہنچاکران کو ذمہ داریوں تفویض کی ہیں اورانہی ذمہ داریوں کو احسن اندازمیں پوراکرنا عشق ہے۔علامہ اقبالؒ کی کتاب ”تشکیل جدیدالہیات اسلامیہ“کے حوالے بھی ا س موقف کومضبوط کرتے ہیں۔ جس طرح قرآن مجیدنے ہرمعاملے میں تقابلی مطالعہ پیش کیاہے اسی طرح اقبالؒ کے ہاں بھی عشق کے مقابلے میں عقل کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔فاضل مقررہ نے عشق اورعقل کی بابت اپنی ذاتی زندگی سے بھی کچھ مثالیں بھی پیش کیں۔
شرکاءمحفل نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ علامہؒ کی آخری عمرمیں ان کے سامنے صرف قرآن مجیددھرارہتاتھااور اسی میں علامہ غرق رہتے تھے۔ علامہؒ کے دورمیں ساراہندوستان بوجہ غلامی پست تھااور عشق کے ذریعے اسے بلندمقام آزادی کاراستہ دکھایاگیا۔ جس کلمے نے آپ کے ہاتھوں پستی میں ڈوبے ہووں کو بلندکیاوہی کلمہ آج بھی پست اقوام کی بلندی و رفعت کاضامن ہے۔
عشق کی دو اقسام ہیں،مجازی اور حقیقی۔عشقِ حقیقی معبودِ برحق سے ہوتا ہے جو رب العٰلمین ہے۔ یہ قربِ الہٰی کا ذریعہ ہے۔ یہ عشق ایک جستجو ہے، ایک عمل کا نام ہے، اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستے پہ چلنے کا۔جس کام سے انہوں نے روکا، اس سے رکا اور جس کا انہوں نے حکم دیا، وہ کیا۔ یہی عشق اقبالؒ کی سوچ کا مرکز و محور ہے۔
علامہ اقبالؒ کو اس بات پر بہت زیادہ اطمینان تھا کہ انسان جب سچائی اور قلب سلیم کے ساتھ آگے بڑھنے کی جدوجہد کرتا ہے تو دانش نورانی کے باطنی مظہر پوری طرح اور اپنی پوری چمک و دمک کے ساتھ واشگاف ہو جاتے ہیں اس شخص کی ہر ادا یعنی اس کا سوچ و دھڑکن اطاعت حق ،خدمت انسانیت کیلئے ہمہ وقت تیارہتی ہے وہ اپنے خالق کو اپنے چار سو پاتا ہے اور حق پرستی ان کے کام کا حاصل ہے اس لئے علامہ اقبالؒ نے اپنے غور و فکر کا مرکز و محور انسانی ذات کو بنا یانہیں بلکہ ان کا مقصد انسان کے عمل کومخاطب کرکے انسانیت کے ارفع درجے تک اس کو لے جانا ہے اس لئے انہیں ذاتِ انسانی کے ساتھ ابتدا سے کہیں زیادہ دلچسپی تھی آپ کے ہاں فلسفی کو اپنے غور و فکر میں با مقصد ہونا چاہیے جو فلسفی انسان کے قوائے عمل کو مہمیز کرنے کے بجائے قوائے عقلی کوجِلا دینے کی فکرمیں لگ جاتا ہے علامہ کے خیال میں حقائق دین سے بے بہر رہتا ہے خوا وہ مسلم دنیا میں پذیرائی پانے والا رازی ہی کیوں نہ ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبالؒ بھی عقل کے مقابلے میں عشق کی برتری کے قائل ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عقل کے مخالف ہیں اور کسی حد تک اقبالؒ عقل کی ضرورت و اہمیت کے قائل ہیں تاہم یہ درست ہے کہ اقبالؒ عشق کو عقل پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک عشق سے ہی حقائق اشیاءکا مکمل علم اور بصیرت حاصل ہوتی ہے اس کے علاوہ ان کا خیال ہے کہ انسانی زندگی میں جتنا اثر عشق کا ہے اتنا ہی عقل کا بھی ہے زندگی کی ساری رونق اور ہنگامہ عشق کی بدولت ہیں۔ کائنات کی بزم خاموشیاں میں ساتھ رونق عشق کی مرہون منت ہے۔
اقبالؒ نے کہا کہ میرے نزدیک ایمان کا جزو اوّل یقین و عشق ہے، دین کی بنیاد عقل نہیں ہے بلکہ عشق ہے، کیونکہ ایمان دعویٰ ہے اور عمل اس کی دلیل ہے۔ دلیل کے بغیر دعویٰ خارج از بحث ہوجاتا ہے اور عمل کا محرک بھی عشق ہے۔ مسلمان کا سینہ جب تک نور عشق سے منور نہیں ہوتا اس وقت تک مسلمان مو¿من کہلانے کا سرے سے حق دار ہی نہیں ہے۔ عقیدے کی اہمیت اپنی جگہ مگر محض عقیدہ تو اس تقاضے کو پورا نہیں کرتا جو دین کا خالق دین والوں سے کرتا ہے۔ عمل سے ہی آپ نے ثابت کرنا ہے کہ آپ ایک خاص عقیدے کے پیروکار ہیں۔ صرف زبانی اقرار عقیدہ جس کے حق میں عمل نہ پیش کیا جائے منافقت کی طرف لے جاسکتا ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
اقبالؒ کے فارسی کلام میں عشق کا ولولہ بھی ہے اور اس کے بیان میں حکیمانہ کثرت بھی ہے۔ رفتہ رفتہ تمام کائنات پر یہ رنگ چھا گیا ہے اس کے اشعار سے جو تاثر اور اس کے ساتھ جو بصیرت پیدا ہوتی ہے نثر میں اس کے متعلق کچھ لکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی حکیم نباتی پھول کو توڑ کر اس کے اجزا کا تجزیہ کرے۔ بہرحال ان کے اندر فکر یا نظریہ حیات کا جو پہلو ہے اس کا افہام و تفہیم کی خاطر الگ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔
بطور ایک قوم ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اب بھی اقبالؒ کو سمجھیں، ہم نے خود کو اس شخص سے دور کر لیا جس کو قائداعظمؒ بھی اپنا لیڈر مانتے تھے۔ جس کے پیغام کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن پاک کی تشریح ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اقبالؒ کی اس آرزو کو بھی پورا فرما دے۔
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.