سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت صدراتی ریفرنس کا دو کے مقابلے میں تین ججز کی اکثریت سے فیصلہ کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63A میں بیان کیے گئے اصول کو آئین کی دیگر شقوں اورخصوصاً آئین کے آرٹیکل 17 سے ملا کر پڑھاجائے گا، آئین کے آرٹیکل 63 اے اورآرٹیکل 17 کا تقاضا ہے کہ انفرادی رکن کے مقابلے ایک سیاسی پارٹی کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور ایسے رکن اسمبلی کا ووٹ شمار میں نہیں لایا جا سکتا جو آرٹیکل 63 اے میں درج شدہ صورتوں میں پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے برخلاف اپنے ووٹ کا استعمال کرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اب سیاسی جماعتوں کے اندراختلاف ختم ہو جائے گااور آرٹیکل 95عدم اعتماد کی ووٹنگ پر موجودہ فیصلے کے کیا اثرات ہونگے،اور 63 اے کی تشریح کے بعد کیا عدم اعتماد کا آپشن ختم ہو گیا؟ کیا سربراہ کے حق میں ہونے والی ووٹنگ میں اگر کوئی انکا اپنا رکن ہدایت کے برخلاف ووٹ ڈالنا ہی نہ چاہے اوراحتراز کرے تو کیا ووٹ نہ ڈالنا بھی انخراف تصور ہو گا؟کیااس فیصلے نے جماعت کے اندر رہتے ہوئے جماعت سے اختلاف کا حق ختم کر دیا ہے اور کیااب استعفیٰ یا پھر دوسری جماعت میں شمولیت ہی رکن کیلئے آپشن ہے؟ اس ججممنٹ میں واضح رائے دے دی گئی ہے کہ کوئی ممبرپارلیمنٹ اپنی پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے برخلاف عدم اعتماد کی صورت میں ووٹ دے یاانحراف کرے گا تو اسکا ووٹ کاؤنٹ نہیں ہوگا۔
عدالت کا مشاورتی اختیار سماعت کسی بھی آئینی نقطے کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں آئین کے ارٹیکل186کے تحت صدارتی ریفرنس میں رائے مانگی جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے پہلی بار اس نکتے پر اپنی رائے 2005 میں صدرپاکستان کی طرف سے ایم ایم اے کی حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے حسبہ بل پر اپنے مشاورتی اختیار سماعت کی قوت نافذہ کی تشریح کرتے ہوئے دی اور اس اختیار سماعت میں دی گئی رائے کو سپریم کورٹ کے باقی فیصلوں کی نوعیت کا ایک حکم قرار دیا،البتہ اگر اس آرٹیکل کی تشریح کا موازنہ دیگر ممالک کی تشریح سے کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ بھارتی آئین مجریہ 1950 کے آرٹیکل 143 میں اسی طرح کا اختیار سماعت بھارتی سپریم کورٹ کے پاس بھی موجود ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ 1993 میں اس آرٹیکل کی تشریح کرتے ہوئے یہ کہہ چکی ہے کہ ایسا محض مشورے ہی کی حیثیت رکھتا ہے مگر کیونکہ یہ ایک قانونی نکتے پر ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی باقاعدہ سماعت کے بعد رائے ہوتی ہے، اس لیے اس مشورے کو انتہائی اہمیت دی جانی چاہیے۔اس فیصلے کو دیکھا جائے تو یہ بھارتی سپریم کورٹ کی بہ نسبت زیادہ قطعی رائے ہے، کیونکہ یہ فیصلہ صرف عدالت کے مشاورتی اختیار سماعت میں نہیں دیا گیا بلکہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے ازخود اختیار سماعت یعنی آرٹیکل 184 کی شق چار ضمن تین اور آرٹیکل 187 کے تحت دیا گیا فیصلہ بھی تصور ہو گا۔لہٰذا سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ملک کے تمام اداروں پر بائنڈنگ ہے اور اسکی حیثیت مشورے سے بڑھ کرحکم کی ہے۔دیگر ممالک میں بھی اعلیٰ عدلیہ کاایسااختیارسماعت موجود ہے۔ برصغیر میں برطانوی راج اور کالونی سسٹم کی وجہ سے کئی ممالک پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے آئین میں بہت سی ایسی شقیں مل جاتی ہیں جو انکے آئین میں ڈالی گئی جو ممبران پارلیمنٹ کو طے شدہ حدود میں رکھنے میں مددگار ہوں۔کینیڈا کے دستور میں بھی سپریم کورٹ کے پاس مشاورتی اختیار سماعت موجود ہے بلکہ اہم دستوری مسائل پر سپریم کورٹ کے سامنے بذریعہ ریفرنس پیش کیے جانے اور فیصلہ دینے کا الگ سے اختیار سماعت بھی موجود ہے۔برطانیہ میں تحریری دستور موجود نہیں ہے اور آئینی امور پر روایات پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے ہاؤس آف لارڈز کی طرف سے طلب کیے جانے پر مشورہ دینے کی روایت موجود تھی جو اب اپیل کی علیحدہ عدالتیں بننے کے بتدریج عمل کے دوران استعمال نہ کیے جانے پر عملاً ختم ہو چکی ہے۔البتہ امریکہ کے دستور میں اعلیٰ عدلیہ کے پاس ایسا کوئی اختیار سماعت موجود ہی نہیں ۔
آرٹیکل 63 اے انحراف اور اس کے نتائج پر مکمل ضابطہ ہے، کسی رکن کے انحراف پر الیکشن کمیشن پارٹی سربراہ کے ڈیکلریشن کے مطابق ڈی سیٹ کرتا ہے۔البتہ اگر پارلیمنٹ مناسب سمجھے تو منحرف ارکان پر مزید پابندیاں عائد کرسکتی ہے۔آرٹیکل 63 اے میں ڈی سیٹ کے بعد رکن کے پاس سپریم کورٹ سے رجوع کا آپشن موجود ہے،اور یقینا آرٹیکل 63 اے کی اس سے زیادہ تشریح آئین پاکستان دوبارہ لکھنے کے مترادف ہوگی۔ جبکہ آرٹیکل 186حکومت کی تشکیل سے متعلق نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اکثریت سے اقتدار میں آنے والی جماعت کے سربراہ کے خلاف عدم اعتماد کا پھر بھی ایک آپشن موجود ہے۔ کیونکہ سپریم کورٹ نے 63 اے کی تشریح میں معاملہ پارلیمانی پارٹی پر چھوڑا ہے،کہ اگر پارلیمانی پارٹی اکثریت کے ساتھ اپنے منتخب وزیراعظم پر عدم اعتماد کرتی ہے تو اس صورت میں بھی وزیراعظم اکثریت کھو دیں گے۔سپریم کورٹ کی تشریح میں اقلیتی تعداد کے ووٹ کا شمار نہیں ہو گا۔لیکن جب ایک جماعت ہے اور اسکے اکثریتی اراکین مطمئن نہیں اور پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اعتماد کا اظہار نہیں کرتے اور اسمبلی سیکرٹریٹ کو آگاہ کر دیں تو یہ ایک طریقہ پھر بھی موجود رہے گا۔اسکو انخراف نہیں کہیں گے کیونکہ جب جماعت کی اکثریت ہی سربراہ کے حق میں نہیں تو جماعت کے سربراہ کی اتھارٹی نہیں رہے گی۔آرٹیکل 95 اراکین کو حق دیتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا استعمال کر سکتے ہیں، صرف 63 اے کی قدغن شاید کافی نہ ہو۔اس تضاد کی بڑی وجہ سپریم کورٹ کا ماضی میں ایک اپنا فیصلہ ہے جو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں تین رکنی بینچ نے سنایا تھا۔ اسکے تحریری فیصلے میں درج ہے کہ اگر کوئی پارٹی یا اس کانامزد امیدوار بائیکاٹ کرتا ہے اور اس کے اراکین کسی اور کو ووٹ دیتے ہیں تو وہ انخراف تصور نہیں ہو گا۔سپریم کورٹ کا 2018 کا اپنا فیصلہ واضح ہے کہ اگر جماعت پارلیمان میں کسی کارروائی یا انتخابی کارروائی کا بائیکاٹ کرتی ہے چاہے جماعت کے سربراہ نے کوئی ہدایات جاری کی ہوں یا نہیں، لیکن جب جماعت نے بائیکاٹ کر دیا یا جماعت کی جانب سے نامزد امیدوار بائیکاٹ کر دے تو اس کے بعد اگر کچھ اراکین اپنی مرضی سے ووٹ دے دیں تو اسے انخراف نہیں سمجھا جائے گا۔لیکن اب چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجربنچ نیآرٹیکل تریسٹھ کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پراکثریتی رائے دی کہ آرٹیکل 63اے کو تنہا نہیں پڑھا جاسکتا۔63اے انحراف کو روکنے کیلئے آئین میں شامل کیا گیا، کیونکہ سیاسی جماعتیں ہماری جمہوریت کیلئے اہم ہیں اور پارٹی پالیسی سے انحراف کو کینسر کہا گیا ہے۔
درحقیقت آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کی بات اورتحفظ کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انحراف پر نااہلی کیلئے قانون سازی کا درست وقت یہی ہے کیونکہ انحراف سیاسی جماعتوں کو غیرمستحکم اورپارلیمانی جمہوریت کو ڈی ریل بھی کرسکتا ہے لہٰذا سپریم کورٹ کی تشریح بروقت اور خوش آئند ہے کہ منحرف رکن کا ووٹ کاسٹ نہیں ہو سکتااور پارٹی کے سربراہ کومنحرف اراکینِ کیخلاف کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے تاحال منحرف کی سزا کیلئے کوئی قانون نہیں بنایا گیا جسے پارلیمنٹ آئین کی فراہم کردہ سزاکو قانون کے ذریعے واضح طور پربڑھایا جاسکتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.