ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح

38

ہمارے لسانی ورثے پر انگریزی زبان کی یلغار کا سلسلہ دراز اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ جہاں اردو کے پرانے الفاظ متروک ہوتے جا رہے ہیں مگر قدیم اردو کے 2 الفاظ ایسے ہیں کہ کیا مجال ہے کہ انگریزی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے باوجود ان کو چھو کے بھی گزری ہو۔ یہ دو الفاظ ہیں توشہ خانہ اور مال خانہ جو آج بھی ہمارے ریاستی کلچر کا حصہ ہیں یہ دونوں اتنے پر کشش ہیں کہ ریاستی حکام کی ان سے محبت اور رومانویت ان کے نام نہیں بدلنے دیتی۔ ہر حکومت کی تبدیلی کے ساتھ جو چیز سب سے پہلے خبروں کی زینت بنتی ہے وہ توشہ خانہ ہے جس کے بہی کھاتے میں بیش قیمت تحائف کی آمد و رفت کی کہانیاں اخباروں کی شہ سرخیوں عدالتوں کی تاریخوں اور گلی محلے کی سیاست میں زبان زد عام ہوتی ہیں۔
آج کل بھی توشہ خانہ کی تلاشی کا موسم چل رہا ہے اور یہ تلاشی وزیراعظم ہاؤس کے کوچ کرنے والے رہائشیوں کی تلاشی کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ سابق وزیراعظم عمران خان توشہ خانہ کی اشیاء کی نیلامی اور اس نیلامی سے حاصل ہونے والے مال غنیمت کو اپنے لیے حلال جائز اور قانونی سمجھتے ہیں۔ وہ ایک ایسی ریاست مدینہ کے داعی ہیں جس میں خلیفۂ وقت عمر بن الخطابؓ سے مجمع میں سر عام سوال کیا گیا تھا کہ مال غنیمت سے جب باقی سب کو ایک ایک چادر ملی ہے تو آپؓ کے پاس 2 کیوں ہیں؟ لیکن وزیراعظم اس پر ناراض ہو جاتے ہیں کہ ان کے صوابدیدی حق پر کیوں سوال کیا جاتا ہے۔ خلیفۂ مدینہ اور وزیراعظم پاکستان کے طرز عمل کے درمیان پائے جانے والے اتنے بڑے تضاد کے بعد ایک عام سمجھ بوجھ رکھنے والا ہم جیسا گناہ گار یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا ریاست مدینہ کا نعرہ استعمال کرنے کی اتنی بڑی جسارت توہین مذہب کے زمرے میں نہیں آتی۔
آئیں ہم بر سبیل تذکرہ آپ کو امریکی توشہ خانہ کی مثال دیتے ہیں جسے وائٹ ہاؤس والے توشہ خانہ کے بجائے گفٹ ہاؤس کہتے ہیں۔ 2017ء میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سعودی
عرب کے سرکاری دورے پر ریاض تشریف لائے تو ولی عہد محمد بن سلمان نے ان پر قیمتی تحفوں کا مینہ برسا دیا۔ 83 تحائف کی مجموعی مالیت 1.2 ارب ڈالر تھی ان میں ہیرے جواہرات سے جڑی ہوئی ایک سونے کی تلوار کا بڑا چرچا تھا جس کا وزن 25 کلو گرام تھا۔ سعودی شہزادے کی طرف سے امریکی صدر کو ایک لگژری Yacht یا کشتی تحفہ دی گئی جو چلتا پھرتا عشرت کدہ تھی دنیا کی اس سب سے اونچی کشتی میں 80 کمرے اور ایک درجن luxury suits تھے۔ا س کے علاوہ سونے اور ہیرے جواہرات کے بنے ہوئے 2 گھوڑوں کے ماڈل دیے گئے جن کا سائز عام گھوڑے کے سائز کے برابر تھا۔ یہ فہرست بہت طویل ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ان 83 مہنگے ترین تحائف میں سے ایک بھی اپنے پاس نہیں رکھا یہ سارا مال بحق سرکار امریکی توشہ خانے میں جمع ہو گیا جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک بہت مہنگی فوٹو بھی تھی جو بطور خاص انہیں پیش کی گئی تھی۔ ٹرمپ نے اپنی وہ فوٹو بھی اپنے پاس نہیں رکھی۔ اس سلسلے میں امریکی قانون یہ کہتا ہے کہ اگر تحفے کی مالیت 390 ڈالر یا اس سے کم ہو تو وصول کنندہ اسے اپنے پاس رکھ سکتا ہے مگر اس سے زیادہ قیمت کی صورت میں یہ سرکاری ملکیت شمار ہو گا۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے صدر ہوتے تو آج سونے کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے ساتھ وہ کم از کم 3 ارب ڈالر کے مالک ہوتے مگر انہوں نے اپنی صدارت کا جائز استعمال نہیں کیا۔
توشہ خانہ کا قیام 1974ء میں عمل میں لایاگیا تا کہ سرکاری حیثیت میں ملنے والے تحائف کو قومی تحویل میں لیا جا سکے۔ اس قانون کی بنیاد ایسٹ انڈیا کمپنی کے بنائے ہوئے ضابطوں پر رکھی گئی تھی۔ کمپنی نے اپنے عہدہ داروں کے لیے قانون بنایا تھا کہ وہ مفتوحہ ریاستوں کے راجاؤں سے تحفے قبول نہیں کریں گے اور مجبوراً تحفہ قبول کرنا پڑے تو وہ کمپنی کے ریکارڈ میں لا کر سرکاری تحویل میں رکھا جائے گا تا آنکہ وہی تحفہ کسی ہندوستانی راجا مہاراجہ کو عطیہ کر دیا جائے۔
1974ء کے توشہ خانی رولز میں زیادتی یہ کی گئی کہ وصول کنندہ کو یہ قیمتی تحفہ ٹکے کلو کے حساب سے خریدنے کا حق دے دیا گیا۔ اس قانون کو فوری منسوخ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ State Gift House کے نام سے ایک اتھارٹی قائم کر کے یہ گفٹ اس کے پاس رکھوائے جائیں جہاں انہیں میوزیم ہال کے طور پر ڈسپلے کر دیا جائے اور ان کی تاریخی اہمیت برقرار رکھی جائے اگر اس کو فروخت ہی کرنا ہے تو پھر اسے سرکاری نیلامی کی شکل دی جائے جس میں سب سے زیادہ پیشکش کرنے والے کو بیچا جائے۔
ہماری حالیہ تاریخ میں آصف زرداری ،نواز شریف ، عمران خان سب پر ہی توشہ خانہ کے غلط استعمال اور اختیارات سے تجاوز پر مقدمات بنے ہیں۔ البتہ جنرل پرویز مشرف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے توشہ خانہ سے کچھ بھی اٹھا کر نہیں لے گئے اور نہ ہی ان پر کوئی مقدمہ قائم ہوا۔ اگر ریاستی تحائف کی ریاستی تحویل کا حق مان لیا جائے تو ہماری اعلیٰ عدالتوں کا بہت سارا وقت جو توشہ خانہ کیسز کو سماعت پر خرچ ہوتا ہے وہ بچ جائے گا۔
یہ کیسا مضحکہ خیز قانون ہے کہ ایک شخص خود ہی بیچ رہا ہے اور خود ہی خرید رہا ہے کیا ایسا کبھی ہوا ہے کوئی منطق کوئی دلیل کوئی جواز کوئی اخلاقیات باقی رہ جاتی ہے۔ یہ کیسی سوداگری ہے اور یہ کیسی منڈی ہے۔ پاکستان کے 23 کروڑ عوام اس گرینڈ سیل کو دیکھ کر یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ انہیں بھی اپنی من چاہی قیمت پر جتنے میں مرضی خرید و اور جتنے میں مرضی آگے فروخت کر دو۔ کشمیریوں کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
(پوری قوم بیچ دی گئی اور کتنی ارزاں قیمت پر بیچی گئی)
لہٰذا پاکستانی عوام اپنی سیاسی لیڈر شپ سے فریاد کناں ہیں کہ
ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح

تبصرے بند ہیں.