سوموار 4اپریل کو روزنامہ ـ”نئی بات”میں گنتی نہ ہو سکی کے عنوان سے میرا کالم چھپا۔ یہ کالم 3اپریل اتوار کو جس دن وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی کے اجلاس میں متحرک اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد پر گنتی ہونی تھی، سے ایک دن قبل لکھا گیا تھا۔ تاہم اس میں خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ حکمران جماعت کے قا ئدین کی ہدایت ، مشورے، راہنمائی اور ملی بھگت سے سپیکر یا ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کر سکتے ہیں جس سے تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے عمل کو مزید التوا میں ڈال سکیں۔ یہ بات بھی سامنے تھی کہ وزیرِ اعظم جناب عمران خان، فواد چودھری اور شیخ رشید احمد جیسے قریبی ساتھیوں کی معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ دی جانے والی ایک طرح کی اُن دھمکیوں کہ وزیرِ اعظم عمران خان آخری وقت کوئی ایسا ترپ کا پتہ پھینک کر سرپرائز دے سکتے ہیں جس سے کوئی بھی انہونی ہو سکتی ہے۔ تاہم یہ بات وہم و گمان میں نہیں تھی کہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی جناب قاسم سوری وفاقی وزیر اطلاعات و قانون چودھری فواد حسن کے ایک پوائنٹ آف آرڈر جس میں اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو آئین کے منافی اور پیش کرنے والوں کو ملک سے غداری کا مرتکب قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا کو بنیاد بنا کر پہلے سے لکھی ہوئی رولنگ پڑھ کر تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر دیں گے۔ ڈپٹی سپیکر نے رولنگ پڑھتے ہوئے اس بات کا بھی خیال نہ کیا کہ سپیکر اسد قیصر ایوان میں موجود نہیں تو ان کی طرف سے فواد چودھری کے پیش کئے گئے پوائنٹ آف آرڈر سپیکر کی طرف سے پہلے سے لکھی ہوئی رولنگ کہاں سے آگئی۔ خیر یہ سب کچھ انتہائی تکلیف دہ، شرمناک ہی نہیں تھا بلکہ غیر آئینی بھی تھا۔ پھر اس طرح کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی کے بارے میں اعلیٰ عدلیہ (سپریم کورٹ) کا از خود نوٹس سامنے آیا بلا شبہ وقت کا تقاضا ہی نہیں تھا بلکہ معاملے کے حساس نوعیت کو سمجھنا اور اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کا احساس تھا۔ اسی دن یعنی 3اپریل کو چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم
سپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ نے از خود نوٹس کی ابتدائی سماعت کرتے ہوئے اگلے دن اسے سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی لارجر بنچ کے سامنے سماعت کے لیے پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
4اپریل پیر سے جمعرات 7اپریل تک چار دنوں کے دوران اسی از خود نوٹس کی سماعت ہوتی رہی۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے وکلاء سمیت وزیرِ اعظم ، سپیکر ، ڈپٹی سپیکر ، صدر مملکت پاکستان بار کونسل ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن وغیرہ کے وکلاء اور اٹارنی جنرل نے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران اپنے اپنے دلائل پیش کئے۔ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور بعض قانونی حلقوں اور میڈیا پرسنز سمیت عام لوگوں کے یہ تاثرات سامنے آتے رہے کہ سپریم کورٹ کو از خود نوٹس کی سماعت مکمل کرکے جلد سے جلد اس کا فیصلہ کرے تاہم محترم چیف جسٹس اور بنچ کے دوسرے معزز ججزصاحبان کا کہنا یہی تھا کہ وہ سب کو سننے کے بعد فیصلہ دینے میں تاخیر نہیں کریں گے۔
پھر ایسا ہی ہوا، جمعرات 7اپریل کو صبح ساڑھے نو بجے از خود نوٹس کی سماعت شروع ہوئی اور بعد دوپہر تک وکلاء کے دلائل جاری رہے۔ اٹارنی جنرل کے اختتامی دلائل میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا دفاع نہ کرنے کا نکتہ شامل تھا تو اس سے قبل جناب چیف جسٹس کی طرف سے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے بہرکیف غیر آئینی ہونے کے ریمارکس بھی سامنے آچکے تھے۔ اندازہ ہو رہا تھا کہ چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ معزز اور باوقار ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کا لارجر کس قسم کا فیصلہ دے گا۔ وکلاء اور اٹارنی جنرل کے دلائل ختم ہوئے تو چیف جسٹس نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف اور چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو روسٹرم پر آنے کی دعوت دی۔ ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کے وکیل نامور قانون دان سابقہ اٹارنی جنرل مخدوم علی خان سے بھی کچھ نکات پر وضاحت مانگی گئی اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔
رات ساڑھے 8بجے سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی لارجر بنچ کی طرف سے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ کے بارے میں لئے از خود نوٹس پر جو متفقہ فیصلہ آیا ہے اس نے بینچ کے ججز کے بارے میں غیر ضروری شکوک و شبہات اور منفی تاثرات کو بھی جڑوں سے نہیں اکھیڑ دیا ہے بلکہ یہ فیصلہ ہر لحاظ سے یادگار ، تاریخی اور سپریم کورٹ کی روایات میں ایک تابندہ روایت کے طور پر جگمگاتا رہے گا۔ 8صفحات اور بارہ پیراگراف پر مشتمل یہ تاریخی فیصلہ چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال نے پڑھ کر سنایا۔ بلا شبہ ان کی آواز میں بڑا اعتماد اور الفاظ کی ادائیگی بڑی صاف اور واضح تھی۔ اس فیصلے کے مطابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی 3اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں دی جانے والی رولنگ کو آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کی بحالی اور ہفتہ 9اپریل کو اس میں تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کرانے اور رائے شماری کے نتیجے میں سامنے آنے والی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے دیگر اقدامات کرنے کے لیے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کو پابند کیا گیا ہے اس کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان اور اُن کی کابینہ بھی بحال ہو گئی ہے۔ 3اپریل کو وزیر اعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی کی تحلیل اور اس کے ساتھ دیگر اقدامات کے لیے صدر مملکت عارف علوی کی ہدایات کو بھی کالعدم قرار دیدیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں ملک میں موجود سیاسی صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے آئین کے تحت کئے جانے والے تمام اقدامات کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ لگتا ہے جیسے اُنگلی پکڑ کر ہر بات سمجھائی جا رہی ہے۔ اب بدگمانی، بداعتمادی اور ریاستی اداروں اور ان کے ذمہ داران کی طرف سے ہر طرح کے منفی ریمارکس اور پروپیگنڈے کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اپوزیشن راہنماؤں کو جان لینا چاہیے کہ اس سے بڑھ کر غیر جانبدار رہنے کا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔ ملک ہم سب کا ہے خدا کے لیے نفرت، انتقام، الزام تراشی اور غیر ضروری بدگمانیوں سے سب کو اجتناب کر نا ہوگا۔ ورنہ یاد رکھیئے تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔
اپوزیشن راہنماؤں بالخصوص میاں شہباز شریف ، آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر کے لیے آنے والے دن ایک امتحان ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ وہ اس سے کیسے سرخرو ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان …زندہ باد
Prev Post
تبصرے بند ہیں.