برعظیم کی تاریخی دستاویز، شمشیر بے زنہار

97

’’شمشیر بے زنہار‘‘ کے نام سے ایک شاندار کتاب رائے امیر حبیب اللہ خان سعدی کیلئے ان کی بیٹی محترمہ فریدہ جبیں سعدی نے لکھی ہے۔687 دیدہ زیب صفحات پر مشتمل اس کتاب میں محترمہ فریدہ جبیں نے اپنے عظیم والد رائے حبیب اللہ خان سعدی کو نہ صرف خراج تحسین پیش کیا بلکہ براعظم پاک و ہند کی تاریخ بھی بیان کی۔
جناب سعدی کا شمار ہمارے ان مشاہیر میں ہوتا ہے ،جنہیں ہم نے ضائع کر دیا ہے۔ قیامِ پاکستان سے برسوں پہلے اْن کی عملی زندگی کا آغاز ہوا۔ اس وقت کی سیاست میں اس قدر فعال رہے کہ ’’خاک سار تحریک‘‘ کے ہراول دستے میں شمار کیے جاتے تھے۔ انہوں نے زراعت میں ایم ایس سی کیا تھا لہٰذا باغ بانی کا بہت شوق تھا۔اس کے علاوہ طب مشرق اْن کی دلچسپی کا ایک اور محور تھا۔
ممتاز صحافی، تجزیہ نگار اور روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹرجناب مجیب الرحمن شامی کے بقول ’’ فریدہ جبیں نے ان (والد) کی سوانح حیات لکھ کر یوں سمجھئے کہ ہمارے سامنے ایک روشن چراغ رکھ دیا ہے۔ محترمہ فریدہ جبیں کوئی سکہ بند قلم کار نہیں ہیں، اس لئے وہ اپنی معلومات کو بے تکان سپرد قلم کرتی چلی گئی ہیں۔ معلومات کا ایک جنگل کہ جو انھوں نے اگا دیا ہے۔ اپنے گرامی قدر والد کے شب و روز بھی محفوظ کر ڈالے ہیں۔ان کا خاندانی پس منظر اور آزادی سے پہلے اور بعد کے سماجی رویوں کی یاد بھی تازہ کردی ہے۔ آگ اور خون کے ان دریاؤں کی منظر کشی بھی کی ہے جن میں غوطہ زن ہوکر پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنا ممکن ہوا۔اس جنگل کی سیر
میں سیاست اور صحافت کے طالب علموں کو ایسے جگنو بڑی تعداد میں ملیں گے جو روشنیوں کا نگر آباد کرنے میں رہنما ہوسکتے ہیں۔
ہمارے محترم دوست پروفیسر منیرابن رزمی لکھتے ہیں کہ سعدی صاحب کا تعلق اس نسل سے تھا ،جس کے لئے سیاست خدمت کا ذریعہ تھی۔اس نے تجارت سے آنکھیں نہیں لڑائی تھیں۔ ایوب خان کے زمانے میں ان کا طوطی بولتا تھا۔ چند ارکان ( ایم اے حمزہ ،خواجہ صفدر ،عبدالباقی بلوچ اور رائے حبیب اللہ خان سعدی وغیرہ ) پر مشتمل حزبِ اختلاف سیکڑوں پر بھاری تھی۔ یہ حزب اختلاف اگرچہ مختصر تھی لیکن جرنیلی اقتدار پر بہت بھاری تھی، رائے امیر حبیب اللہ خاں سعدی اس حزب اختلاف میں ممتاز تھے۔وہ کھدرپوش تھے لیکن کسی ریٹائرڈ جرنیل کی طرح انتہائی منظم زندگی گزارتے تھے۔ مزید کیا تھے؟ پاکستانی سیاست میں انھوں نے کیا ، کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیے، یہ سب کچھ اس کتاب میں ان کی بیٹی محترمہ فریدہ جبیں نے لکھا ہے۔ایک زمانے تھا کہ کمالیہ کا کھدر ، قلعہ تلون کے اس جلیل القدر منج راجپوت کے نام سے خاص و عام میں ، کمالیہ کا سعدی کھدر ، پہچان بنا تھا۔ اب نہ کمالیہ میں اس کی عظیم الشان لائبریری کا وجود ہے اور نہ اس کی شہرت یافتہ نرسری کا وجود اور خاکسار تحریک تو قصہ ماضی بن چکی ہے۔ ہاں کھدر ، کونوں کھدروں سے باہر زینت بازار بن چکے ہیں۔
مزید برآں بانی خاکسار تحریک علامہ عنایت اللہ مشرقی مرحوم کی بے مثل جدوجہد جو عوام میں ، بیلچہ پارٹی ، کے نام پر پورے برصغیر پاک و ہند میں چپ راست سے عسکری ماحول کے منظر نامے میں نئی زندگی کی ترجمانی کرتی تھی ، اس کے بارے میں ، اسلام لیگ ،بننے تک پوری شرح وبسط ( صفحہ 249 سے 538 صفحات ) تک کی تاریخ کو سیاست اور صحافت کے طالب علموں کیلئے روشنیوں کا نگر آباد کرنے میں رہنمائی دیتی ہے۔ حبیب اللہ خاں سعدی تحریک جمہوریت کے سلسلے میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں زخمی ہوئے۔ وہ ایک ایسے نابغہ تھے جو بے قدروں کی بستی میں پیدا ہو گئے۔
حبیب اللہ خاں سعدی کی طویل اور ہنگامہ خیز زندگی کے اَوراق کو اْن کی صاحب زادی محترمہ فریدہ جبیں سعدی نے نہایت محنت اور لگن سے کتاب کی صْورت عطا کر کے اگلی نسلوں کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔سلیقے اور اہتمام سے شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت البتہ بہت زیادہ ہے۔
اس کتاب پر بہت ہی شاندار تبصرہ محسن پاکستان ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیرخان مرحوم و مغفور نے کیا کہ زیر نظر کتاب ایک ایسی دستاویز ہے جسے بہت پہلے شائع ہو جانا چاہیے تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ اس پر لوگوں کی طرف سے بڑی محبت ملی مگر حکمرانوں نے انہیں نظرانداز کرنے کی ناکام کوشش کی۔ جب ایٹمی دھماکے ’’وزیراعظم‘‘ پاکستان نوازشریف نے کئے تو ایٹم بم بنانے والے پاکستان کو ہمیشہ کیلئے محفوظ بنانے والے ڈاکٹر قدیر خان مرحوم آخری صف میں کھڑے تھے مگر پاکستانیوںکی نظریں صرف انہیں تلاش کر رہی تھیں۔ عزیزی فریدہ جبیں سعدی نے کرم فرمائی کی کہ اپنے والد گرامی کی یادوں کو قلمبند کیا۔

تبصرے بند ہیں.