ذرا نم ہو تو۔۔۔

69

گزشتہ رات ہی مملکت خداداد بہاولپور سے واپس آیا ہوں۔ یہ وہ ریاست ہے جس کا پاکستان مقروض ہے۔ 1947 میں اس نے بھارت کے بجائے پاکستان کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ اپنے خزانے سے پاکستان کے ملازمین کی تنخواہیں ادا کیں۔ قائد اعظم نے ریاست کی آزاد حیثیت کو برقرار رکھا۔ کشمیر کی ریاست ہو یا بہاولپور ہماری حکومتوں نے قائد اعظم کے فیصلوں کے خلاف کام کیے۔ ریاست بہاولپور قائم رہتی تو آج یہ ریاست پورے پاکستان کے لیے ایک مثال بن کر سامنے آتی۔ اس دور میں بننے والے ادارے آج بھی عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ بہاولپور کا دورہ کریں تو نواب کا وژن سامنے آتا ہے۔ 1906 میں مسلم لیگ قائم ہوئی اس سن میں ریاست میں عوام فلاح و بہبود کے کئی منصوبے شروع ہو چکے ہیں۔ بہاولپور جائیں تو اسے صرف محلات کے شہر کے طور پر نہ دیکھیں بلکہ ان منصوبوں کا جائزہ بھی لیں جو اس ریاست کے حکمرانوں نے عوام کے لیے شروع کر رکھے تھے۔ نواب آف بہاولپور نے ریاست کے اندر ہی نہیں بلکہ ریاست کے باہر بھی مسلمانوں کی فلاح کے لیے تعلیم اور صحت کے ادارے قائم کیے تھے۔ بہاولپور کا قصور کیا تھا کہ اسے مشرقی پاکستان کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی خاطر ہم نے مغربی پاکستان کا حصہ بنا دیا۔ ون یونٹ بنا ہم نے ریاست کو ضم کیا۔ ون یونٹ ختم ہوا تو باقی صوبے اپنی حیثیت میں واپس آ گئے مگر ریاست بہاولپور کو ہم نے واپس اس کی حیثیت میں بحال نہیں کیا۔ آج ہم وہاں پر جنوبی صوبے کا سیکریٹریٹ بنائیں یا کچھ اور مگر ان کے احساس محرومی کو ختم نہیں کر سکتے۔ ریاست نے پاکستان سے لیا کچھ نہیں بلکہ دیا ہی دیا ہے۔
بھلا ہو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کا جنہوں نے ڈاکٹر جام سجاد کی وساطت سے یونیورسٹی کے دورے کی دعوت دی۔ میں پچیس چھبیس برس کے بعد بہاولپور گیا ہوں۔ اسلامیہ یونیورسٹی سے لگائو اس لیے بھی ہے کہ یہاں سے میں نے ماسٹرز کی ڈگری کی تھی۔ ہم اسی پرانی یونیورسٹی کا تصور لے کر گئے تھے مگر وہاں کی ترقی دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ اس وقت ریاست بہاولپور کی یہ یونیورسٹی پورے پنجاب کی سب سے بڑی یونیورسٹی بن کر سامنے آئی ہے۔ طالب علموں کی تعداد اور فیکلٹی کے اعتبار سے اس نے پنجاب یونیورسٹی کو مات دے دی ہے۔ اس وقت اس یونیورسٹی میں 53 ہزار سے زائد طالب علم زیر تعلیم ہیں۔
اولڈ کیمپس میں فیکلٹی آف لا کے ساتھ ساتھ انتظامی دفاتر قائم ہیں لیکن نیو کیمپس جسے بغداد الجدید کا نام دیا گیا ہے وہاں پر تیزی سے کام جاری ہے۔ بارہ ہزار ایکٹر سے زائد رقبے پر محیط یہ کیمپس دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک برس قبل تک اس کیمپس میں طلبہ و طالبات کی تعداد تیرہ ہزار کے قریب تھی اور صرف اس ایک برس میں چالیس ہزار نئے داخلے کیے گئے ہیں۔ کووڈ کے دوران جب ساری یونیورسٹیاں بحران کا شکار ہیں اس یونیورسٹی نے حکومت پر بوجھ بننے کے بجائے اتنا بڑا جمپ لگایا ہے تو اس پر داد دینا بنتی ہے۔ تیرہ ہزار کی جگہ چالیس ہزار نئے بچوں کو پڑھانا، ان کے لیے کلاس رومز کا بندوبست کرنا، اساتذہ کی دستیابی اور انفراسٹرکچر کو اتنی بڑی تعداد کے مطابق ڈھالنے کا فن ایک انجینئر ہی بخوبی کر سکتا ہے۔ اس وقت یونیورسٹی تین شفٹوں میں چل رہی ہے اور یونیورسٹی کا ٹرانسپورٹ کا نظام اتنا جامع ہے کہ وہ ساٹھ کلومیٹر کے دائرے سے بچوں کو یونیورسٹی لا رہا ہے۔ یونیورسٹی نے جدید طرز پر اپنا سکول سسٹم شروع کیا ہے اور آنے والے وقت میں اس کا دائرہ کار پورے صوبے تک بڑھانے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ تھا کہ کیا ٹیچرز کے بچے اسی سکول میں زیر تعلیم ہیں تو بتایا گیا کہ یونیورسٹی ٹیچرز کے بچے یہاں ہی داخل ہو رہے ہیں۔ ہمیں سکول آف آرٹ کا دورہ کرایا گیا جس کا طرز تعمیر دراوڑ قلعہ کے مطابق ہے لگتا ہے کہ ایک چھوٹا سا دراوڑ یہاں موجود ہے۔ ہاکڑہ آرٹ لائبریری میں اساتذہ اور بچوں کے خطاطی اور نقاشی کے فن پارے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جدید طرز پر سکول آف بزنس ایڈمنسٹریشن کو بنایا گیا ہے۔ سات ایکٹر پر محیط سولر پارک بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کیے قائم کیا گیا ہے اور موسم سرما میں پوری یونیورسٹی سولر پر منتقل ہو چکی ہے۔ دوسری یونیورسٹیوں کو بھی اس کی تقلید کرنا چاہیے۔ اس برس سکول آف نرسنگ کا آغاز ہوا ہے تاکہ ملک میں نرسوں کی کمی کو پورا کیا جائے۔ اس یونیورسٹی میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت نئی عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور یونیورسٹی نے یہ رقم اگلے دس برس میں ادا کرنا ہے۔ آئی ٹی کے مختلف سنٹرز کام کر رہے ہیں تاکہ نوجوانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جا سکے۔ انکیوبیشن سینٹرز سے دس سٹارٹ اپس شروع ہو چکے ہیں۔
وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ ہم صرف بچوں کی تعلیم و تربیت پر زور نہیں دے رہے بلکہ ہمارا مقصد معاشرے کے لیے کارآمد افرادی قوت پیدا کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے ہم نے انڈسٹری کے ساتھ ملکر مختلف پروگرام شروع کیے ہیں۔ یونیورسٹی کے اساتذہ نے کاٹن کے نئے بیج متعارف کرائے ہیں اور اس سے کاٹن کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ سویابین اور مکئی کی بیجوں پر کام ہو رہا ہے اور ان کی کاشت جارہی ہے یہ منصوبے اسی طرح جاری رہے تو پاکستان سویابین کی درآمد سے آزاد ہو جائے گا اور سویابین پر دو ارب ڈالر کا سرمایہ محفوظ ہو گا اور یہ رقم کسانوں کو جائے گی۔ یونیورسٹی نے بچوں کو مختلف اداروں میں ملازمت دلوانے کے لیے باقاعدہ ایک سیل قائم کر رکھا ہے۔ اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ یہاں آکر ریکروٹمنٹ کریں یونیورسٹی ان کو تمام سہولیات دینے کے لیے تیار ہے۔ ان کو اپنے دفاتر قائم کرنے کے لیے جگہ بھی فراہم کی جائے گی۔ بچوں کے نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے ماہر نفسیات پر مشتمل ادارہ قائم ہوا ہے۔وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب جس طرح کام کر رہے ہیں امید یہی کی جا رہی ہے کہ اگر یہ کام اسی طرح جاری رہے تو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور مستقبل کی ایک بڑی اور جدید یونیورسٹی بن کر سامنے آئے گی۔
اداروں کی قیادت کرنے والے لوگ اگر وژن بھی رکھتے ہوں تو وہ اپنے اداروں کو ترقی کی نئی منزلوں تک لے جاتے ہیں اور پھر ان کا نام ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے۔ تعلیم قوم پر ایک بڑی سرمایہ کاری ہے اور اگر یہ سرمایہ کاری صحیح طریقے سے کی جائے تو قوم کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس وقت اسلامیہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم بچوں میں چالیس فیصد لڑکیاں زیر تعلیم ہیں۔ یہ اس علاقے میں نئے انقلاب کی ابتدا ہے جس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں بچیوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا ہے۔ آنے والے وقتوں میں امید یہی کی جا رہی ہے کہ اس یونیورسٹی میں بچیوں کی تعداد لڑکوں کے برابر ہو جائے گی۔
اس وقت یونیورسٹی میں بارہ ارب روپے کے منصوبے جاری ہیں، جب ان منصوبوں کی شفافیت کے حوالے سے سوال کیا گیا تو وائس چانسلر نے کہا کہ اس ڈر سے منصوبوں کو روکا نہیں جا سکتا کہ اس پر اعتراضات اٹھائے جائیں گے جب آپ کو علم ہو کہ آپ نے قواعد و ضوابط کے تحت کام کرنا ہے اور آپ کو کام کرنے کا ہنر بھی آتا ہے تو پھر ڈر کس بات کا ہے۔ تمام تر منصوبوں کو مروجہ طریقہ کار کے مطابق شروع کیا گیا ہے اور آڈیٹر جنرل کی طرف سے جو بھی اعتراضات اٹھائیں جائیں گے ان اعتراضات کو دور کیا جائے گا۔ فرق صرف اپروچ کا ہے کہ اگر آپ نے صرف نوکری کرنا ہے تو نظام کو پرانی ڈگر پر چلاتے رہیں اور اگر آپ نے کام کرنا ہے تو پھر آپ خوف سے بالاتر ہو کر کام کرتے ہیں۔ آپ کا کام آپ کی گواہی دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ وفد کے ارکان کا سوال یہ بھی تھا جس رفتار سے یہ منصوبے چل رہے ہیں کیا یہ آنے والے وقت میں بھی برقرار رہ سکیں گے تو وائس چانسلر نے کہا کہ جس رفتار سے کام ہو رہے ہیں اور یہ جس نہج پر جا رہے ہیں آنے والے وقت میں ان کو روکنا ممکن نہیں رہے گا اور میری جگہ کوئی بھی آئے اس کے لیے ان کو جاری رکھنا مجبوری بن جائے گا اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ صرف میرے منصوبے نہیں ہیں بلکہ اس میں اساتذہ، والدین اور بچے حصہ دار اور شراکت دار ہیں اور اس کا سہرا صرف میرے سر نہیں بلکہ یہ ایک ٹیم ورک کا نتیجہ ہے میں نے ٹیم کو اعتماد دیا اور اس نے کر دکھایا۔ یونیورسٹی نے شہر کی معیشت کو آگے بڑھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع ملے ہیں، کاروبار کر ترقی ملی ہے۔ موٹروے سے کٹ جانے کی وجہ سے لوگوں میں جو مایوسی پھیلی تھی یونیورسٹی میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس یونیورسٹی میں صرف بہاولپور ڈویژن کے بچے ہی نہیں پڑھ رہے بلکہ پورے پاکستان سے بچے یہاں زیر تعلیم ہیں اور ان بچوں کو 800 ملین روپے کے سکالرشپ مل رہے ہیں۔ برٹش کونسل اور یو ایس ایڈ کے سکالرشپ بڑی تعداد میں اس یونیورسٹی کے بچے حاصل کرتے ہیں۔ سکالر شپ حاصل کرنے میں مدد اور رہنمائی کے لیے ایک باقاعدہ شعبہ قائم کیا گیا ہے۔
سچ پوچھیے تو اس دورے سے مایوسی کی جو کیفیت تھی اس میں کمی واقع ہوئی ہے کہ اس طرح کے لوگوں کی ایک ٹیم بن جائے تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ اور آخر میں اقبال
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز بہت ساقی

تبصرے بند ہیں.