اعتراف کرنا پڑے گا

101

ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس منعقد کرانے کے دور رس نتائج نکلے ہیں اور ان شاء اللہ اب یہ عمل جاری رہے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ غلط نہ ہو گا مثبت تنقید کے ہمیشہ صحت مند نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ آئین و قانون کی بالادستی کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والے علی احمد کرد صاحب نے اس کانفرنس میں بائیس کروڑ عوام کے جذبات کی ترجمانی کی تھی۔ تنقید ہی وہ واحد ہتھیار ہے جو ظلم اور گھٹن کے ماحول کے بند دریچوں کو پوری طرح نہ سہی مگر اپنے جھٹکوں سے ان بند دریچوں میں کچھ نہ کچھ رخنہ تو ڈالتی ہے۔ اس لیے ترقی پسند علمی و ادبی ، سیاسی اور انصاف کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والے حلقوں کو ایک تواتر کے ساتھ تنقید کے عمل کو جاری رکھنا چاہیے کیونکہ جب اس عمل میں خلا آتا ہے تو جبر کے زور پر عوام پر حکومت کرنے والا طبقہ دوبارہ اسی روش پر چل نکلتا ہے۔ اس کانفرنس کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے جس کی مثال سپریم کورٹ کا سولہ ہزار افراد کی نوکریاں بحال کرنے کا حالیہ فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ مکمل طور پر عوامی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں کرد صاحب کی تقریر کے بعد ملک بھر میں خوشی کا سماں تھا گلی گلی ہر جگہ لوگ خوشی سے کرد صاحب نے حوصلہ کی تعریف کر رہے تھے اس کے پس پردہ بنیادی وجہ یہی تھی کہ کرد صاحب نے لوگوں کے دلوں کی بات کی تھی اور آج ایک بار پھر ویسی ہی صورت حال ہے لوگ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو سراہ رہے ہیں۔ گو کہا یہ جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ کرد صاحب کی تقریر اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی پرسیسین رپورٹ کا نتیجہ ہے اگر کرد صاحب جبر اور نا انصافی کے خلاف کلمہ حق بلند نہ کرتے اور عدلیہ کی بدعنوانی کے حوالے سے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ شائع نہ ہوتی تو اس عدلیہ سے ایسے فیصلے کی امید کسی طور بھی نہیں تھی اس سوچ کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جب پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے 2010 ء میں بر طرف ملازمین بحالی ایکٹ منظور کرالیا تھا اور وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہی کہ ملازمین کو کسی نہ کسی طرح سپورٹ کہا جاتے لیکن بدقسمتی سے رواں سال اگست کو اسی عدلیہ نے جس نے اب سولہ ہزار برطرف ملازمین کی نوکریاں بحال کرنے کا فیصلہ دیا ہے تب پیپلزپارٹی کے لائے ہوئے برطرف ملازمین بحالی ایکٹ کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا اور اس فیصلہ سے سولہ ہزار ملازمین بیروزگار ہو گئے تھے۔ انسانی جذبات اور زمینی حقائق کے متصادم اس فیصلہ کو با امر مجبوری تسلیم کیا گیا تھا۔ تاہم اسی بنچ کے ایک معزز جج صاحب نے اس فیصلہ کے خلاف ایک اختلافی نوٹ لکھا تھا جس میں واضح صاف لفظوں میں لکھا گیا تھا کہ پارلیمنٹ بالاتر ادارہ ہے۔ اس کی برتری کو تسلیم کرنا ہو گی مقننہ اور عدلیہ کو اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہیے۔ معزز جج صاحب کا یہ اختلافی نوٹ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ کسی بھی قسم کے خوف سے سچ بولنے سے ڈرنے والے لوگ قوموں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ مرنا ایک لازمی امر ہے۔ کون آج تک اس سے راہ فرار کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ مرتے تو عام لوگ ہیں خاص لوگوں کو مرنا نہیں چاہیے انہیں امر ہونا چاہیے۔ کیونکہ امر ہونے والے کبھی نہیں مرتے صرف نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں لیکن وہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ اس لیے علمی و ادبی ، سماجی و سیاسی اور وکلاء رہنماؤں کو ہمہ قسم کے خوف سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ اس میں کوئی شک نہیں۔ کرد صاحب کے ایک جملہ بائیس کروڑ عوام اور ایک جرنیل نے سب کے ضمیر جھنجھوڑ دیئے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں اس دن سے لے کر آج تک کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ بہتر ہوتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ عدل کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے جو لوگ ہیں ان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کوئی بھی معاشرہ کفر پر قائم رہ سکتا ہے لیکن نا انصافی پر قائم نہیں رہ سکتا اور ایک ہم ہیں بھاؤپر عمل اس کے منافی ہے۔ عدالتوں کو بھی ہر قسم کے خوف سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لیے آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے فیصلے دینے چاہئیں اعلیٰ عدلیہ کو کسی صورت بھی متنازع نہیں بننا چاہیے۔ جس طرح جسٹس سید منصور علی شاہ صاحب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب ، جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب اور جسٹس باقر نجفی صاحب کا نام لوگ ادب سے لیتے ہیں اور بقیہ ججز کو صرف تنخواہ پر کام کرنے والے کہا جاتا ہے ایسا کیوں ہے۔ اس پر غور کرنا چاہیے اور اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ اپنا عملی کردار ادا کر کر کے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ عدلیہ پر تنقید نہیں ہے۔ عدلیہ ہم سب کے لیے افضل ہے۔ تاہم کسی کی غلطی پر تنقید کو کسی طور پر توہین عدالت یا توہین عدلیہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ملک و قوم کی بہتری کے لیے بحث و مباحثہ کا عمل جاری رکھنے پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ کوئی تو ہو جو ملک وقوم اور ریاستی اداروں کی بہتری کے لیے تنقید کے عمل کو اب رکنے نہ دے تا کہ ہم ریاستی اداروں میں بہتری لا سکیں۔

تبصرے بند ہیں.