ظفر یات

92

ظفر علی خان کی علمی و ادبی زندگی کا ایک اہم دور اس وقت شروع ہوا جب وہ شبلی نعمانی اور محسن الملک کی سفارش پر حیدر آباد پہنچے۔شبلی ۱۸۹۹ء میں یہاں پہنچ چکے تھے‘اب ظفر علی خان کو ایک بار پھر اپنے اس آئیڈیل استاد کی صحبت اور راہ نمائی میسر آ گئی۔اس خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ہم حیدر آباد میں’’شبلی جیسے وحید العصر و یکتائے زمن کے خرمنِ فیوض سے خوشہ چینی کر رہے ہیںاور حالی کی عدیم النظیر سخن وری اور سخن سنجی سے مذاقِ سلیم کو بہرہ اندوز بنا رہے ہیں‘‘۔یہ زمانہ ظفر علی خان کے لیے انتہائی اہم رہا ‘دوستوں اور ہم مذاقوں کی صحبت سے انھوں نے بھرپور لطف اٹھایا اور اس کا اظہار مولوی عبد الحق نے اس انداز میں کیا:’’ایک روز مولوی عزیز مرزا ‘مولوی ظفر علی خان(سید علی)مرحوم کے یہاں مدعو تھے‘بارہ بجے کھانے کے بعد سے چار بجے تک مولوی شبلی اساتذہ کے شعر سناتے رہے جس سے سامعین محظوظ ہوئے‘‘۔یہی وہ زمانہ تھا جب ظفر علی خان نے ’’دکن ریویو‘‘بھی جاری کیا تھاجس میں انھیں مولانا شبلی نعمانی کا بھرپور تعاون حاصل رہا‘مولانا شبلی نعمانی‘ ظفر علی خان کی محبت میں ’’دکن ریویو‘‘کے لیے اپنی تحریریں اور مقالات بھی بھیجتے رہے اور ان کا کلام بھی تواتر سے ’’دکن ریویو ‘‘کا حصہ بنتا رہا۔ظفر علی خان نے اکثر جگہوں پر اس کا اعتراف بھی کیا‘بلکہ ایک اداریے میں انتہائی تفصیل سے جن قلمی معاونین کا ذکر کیا ‘ان میں چوتھے نمبر پر’’علامہ شبلی نعمانی اعظم گڑھ‘‘کا نام شامل تھا‘ آپ شبلی کا نام انتہائی ادب و عقیدت سے لیا کرتے ‘جہاں بھی کسی مسئلے میں الجھتے‘اپنے استاد شبلی نعمانی سے رابطہ کیاکرتے۔
دکن سے پنجاب آنے کے بعد جب ظفر علی خان نے ’’دکن ریویو‘‘کو ’’پنجاب ریویو‘‘کا نام دے دیا ‘تب بھی استاد کا تعاون اورمشاورت حاصل رہی۔جیسا کے گزشتہ کالم ’’دو کوزہ گر‘‘میں بھی اس کا تفصیلی ذکر آ چکا کہ ظفر علی خان کے دل میں استاد کے لیے عقیدت اور محبت کے جذبات ہمیشہ موج زن رہے‘استاد کے ساتھ ان کے
قلمی‘ذہنی اور روحانی تعلق کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔۱۹۰۶ء میں مولانا شبلی نعمانی کی کتاب’’موازنہ انیس و دبیر‘‘منظرِ عام پر آئی تو بعض اطراف سے اس پر ناروا تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا‘سید نظیر الحسن فوق رضوی نے ’’المیزان‘‘کے نام سے اس کا جواب لکھا۔ایک اور صاحب (میر افضل علی) نے جو خود کو ’’شمس الشموس اوج سخن وری قمر الاقمار بروج نکتہ وری‘‘کہتے تھے‘۷۲ صفحات پر ایک رسالے کی شکل میں ’’رد الموازنہ‘‘کے عنوان سے مولانا کی کتاب کا رد لکھا۔ظفر علی خان نے اس جواب پر گرفت کرتے ہوئے ’’دکن ریویو‘‘کے اگست ۱۹۰۸ء کے ایڈیٹوریل میں اس کا جواب الجواب لکھا‘جس کی تفصیل ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی کتاب’’دو کوزہ گر‘‘ میں موجود ہے۔
قیام حیدر آباد کا یہ زمانہ مولانا ظفر علی خان کے لیے انتہائی خوش گوار تجربہ تھا‘اس حوالے سے ’’ستارہ صبح‘‘میں چھپنے والی مولانا ظفر علی خان کی تحاریر دیکھیں جا سکتی ہیں جن میں مولانا نے حیدر آباد کی صحبتوں کا انتہائی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ظفر علی خان عمر بھر اپنے استاد کے مداح اور معترف دکھائی دیتے ہیں‘جہاں ممکن ہو وہ اپنے استاد کی تجلیل کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے‘ وہ شبلی کی کتاب ’’الکلام‘‘ بے مثال قرار دیتے ہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ استادِ گرامی کی پسند یدہ کتاب ’’الفاروق‘‘ کے انگریزی ترجمے کی طرف بھی متوجہ ہوئے‘ مولانا شبلی کو اپنی کتابوں میں ’’الفاروق‘‘ سب سے زیادہ پسند تھی‘وہ اس کتاب کو ’’مرصع غزل‘‘کہتے تھے۔ ’’سیرت النبیﷺ‘‘کو چھوڑکر مولاناشبلی نعمانی نے جس کتاب کے لیے سب سے زیادہ محنت کی وہ یہی ’’الفاروق ‘‘تھی‘۱۹۰۰ء میں مولانا ظفر علی خان نے اس کا انگریزی ترجمہ کیا‘ کہا جاتا ہے کہ یہ ترجمہ شمس العلما سید علی بلگرامی کی فرمائش پر کیا گیا تھا۔افسوس کہ یہ ترجمہ مولانا شبلی نعمانی کی زندگی میں شائع نہ ہو سکااور ان کی وفات کے بھی ایک طویل عرصے بعد ۱۹۳۹ء میں لاہور سے چھپ سکا‘ماضی قریب میں اس کی ایک نئی اشاعت بھی سامنے آئی ہے۔اس ترجمے کے دیباچے میں مولانا ظفر علی خان نے جو استاد کا تعارف کرایا‘وہ بھی انتہائی مفید ہے۔
مولانا شبلی نعمانی نے بھی اپنے عزیز شاگرد کی حوصلہ افزائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا‘حیدر آباد لانے سے لے کر ان کی حیدر آبادی ادبی زندگی تک ہمیںشبلی کی حوصلہ افزائی کار فرما دکھائی دیتی ہے۔استاد حقیقی معنوں میں اسی صورت میں استادِ عظیم کہلانے کا حق دار ہوتا ہے جب اپنے طالب علموں کی حوصلہ افزائی بھی کرے اور انگلی پکڑ کر شاگردوں کوسیدھا راستہ بھی دکھاتا ہو‘حسد اور شک کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے شاگردوںکی علمی و ادبی پرورش میں بطور استاد اور روحانی باپ کے اپنا کردار ادا کرتا ہو۔مولانا شبلی نعمانی نے ہمیشہ مولانا ظفر علی خان کی علمی و ادبی نشوونما میں اپنا بنیادی کردار ادا کیا‘وہ دریا گنج کی قیامت صغریٰ پر ظفر علی خان کی طویل نظم ’’شور محشر‘‘پر انھیں بھرپور داد دیتے نظر آتے ہیں‘’’دکن ریویو‘‘میں قلمی تعاون کرتے ہیں اور جب ’’معرکہ مذہب و سائنس‘‘شائع ہوتی ہے تو اسے ایسا ترجمہ قرار دیتے ہیں ’’جو مایوسی کی تاریکی میںامید کی جھلک پیدا کر دیتا ہے‘‘۔شبلی نعمانی نے اپنے رسالہ ’’الندوہ‘‘میں اس پر مفصل ریویو کرتے ہوئے اپنے شاگرد کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:’’ترجمے کی خوبی پر کچھ رائے نہیں دے سکتا،کیونکہ میں انگریزی نہیں جانتا ،اس لیے ترجمے کی صحت اور غلطی کا فیصلہ نہیں کر سکتا،البتہ اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ علمی کتاب کا صحیح ترجمہ اس سے زیادہ صاف اور قریب الفہم نہیں ہو سکتا‘مترجم نے مصطلحاتِ علمی کے ترجمہ میںبہت سے الفاظ ویا خود پیدا کیے ہیں چنانچہ خاتمہ میں ایسے الفاظ کی فہرست دی ہے‘‘۔جس سال مولانا شبلی نعمانی کی کتاب کو پنجاب یونی ورسٹی نے بہترین تصنیف کا انعام دیا ‘اسی سال ’’معرکہ سائنس و مذہب‘‘ کو بہترین ترجمہ ہونے کا انعام ملا‘ اس پر استاد کی جانب سے ایسی تعریف و توصیح بھی ملی ‘یہ حوصلہ افزائی ان کا دل بڑھانے کے لیے کافی تھی۔

تبصرے بند ہیں.