فیک نیوز، فیک سسٹم

201

جھوٹی خبر جعلی سسٹم کی لازمی ضرورت ہوتی ہے۔ واقعہ کچھ ہو مگر اسے بالکل متضاد شکل دے کر پیش کردیا جائے۔ اس طرح کے ہتھکنڈے ایک محدود مدت تک ہی کارآمد رہتے ہیں۔ سچ کو زیادہ دیر چھپانا ممکن نہیں۔ خصوصاً آج کے دور میں جب معلومات کے ذرائع پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بنا کر آزادی صحافت کا گلہ گھونٹنے کی کوشش فی الوقت ناکامی سے دوچار ہوگئی ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے اس وقت مرکزی دھارے کا میڈیا اخبارات اور ٹی چینلز بڑی حد تک حکومت کے زیر اثر ہیں۔ اس کے باوجود حقائق کسی نہ کسی صورت لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔ یعنی ہائبرڈ سسٹم زبردست دباؤ ڈالنے کے باوجود مطلوبہ مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم عمران خان یہ کہیں کہ پاکستان میں میڈیا جتنا اب آزاد ہے پہلے کبھی نہیں تھا تو اس سے بڑی فیک نیوز کیا ہوگی۔ قومی مفاد اور قومی سلامتی ہر شہری کو عزیز ہے مگر ان کی آڑ لے کر قومی یا حکومتی ناکامیاں چھپانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جھوٹ بول کر اپنے لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کرنے کی بجائے حقیقت سے آگاہ کرکے آگے بڑھنے کیلئے راستہ روشن کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم عمران خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ورچوئل خطاب یوں تو بالکل روائتی تھا۔ اصل سوال مگر یہ ہے کہ وہ اس اہم موقع پر خود نیویارک کیوں نہیں گئے۔ اس حوالے سے مصدقہ اطلاعات سامنے آچکی ہیں۔ خود سرکاری وفد کے ہمراہ جانے والی ایک شخصیت نے تصدیق کی کہ چونکہ تمام تر کوششوں کے باوجود وزیر اعظم عمران خان کی دوسروں ممالک کے سربراہوں سے ملاقاتیں طے ہوسکیں نہ ہی کسی اہم تقریب کا اہتمام کرنا ممکن تھا۔ اسی لیے بہتر جانا گیا کہ خود جانے کے بجائے ورچوئل تقریر کرلی جائے۔ یہاں تک تو ممکن تھا کہ اس خبر کو زیادہ نمایاں کرنے کے بجائے تبصرے کے انداز میں ذکر کر دیا جاتا۔ حیرانی اس وقت ہوئی جب وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر پر ایک اور پاک بھارت جنگ ہونے سے روک لے۔ 5 اگست 2019 کو جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کیا تو پہلے لگا کہ سب اچانک ہوا ہے۔ پھر پتہ چلا اس وقت کے وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کو اسلام آباد بلوا کر دو روز پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔یہ بھی پتہ چلا کہ پاک بھارت خفیہ مذاکرات 2017 سے جاری ہیں۔ اس اقدام کے بعد پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کی قیادت کو عسکری قیادت نے اسلام آباد مدعو کرکے آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کو الگ صوبے بنانے کی تجویز دیتے ہوئے اس کی حمایت میں دلائل کیوں دئیے تھے۔ پھر مخصوص میڈیا نمائندوں کو مدعو کرکے اسی حوالے سے بریف کیوں کیا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جب بھارت یہ انتہائی قدم اٹھا بیٹھا تو پھر دونوں ملکوں کے درمیان سیز فائر کا معاہدہ کیسے ہوگیا۔ اب جب کہ بھارت کے ساتھ کم ازکم ہماری جانب سے کسی لڑائی کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں تو پھر جنگ کی بات کرنا کس زمرے میں آئے گا۔ اسی طرح ڈی جی آئی ایس آئی کے دورہ کابل کے بعد سے یہ تاثر دیا
جارہا تھا کہ طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات مثالی ہیں۔ ہماری قیادت آج تک ہر موقع پر افغانستان کا ذکر یوں کرتی ہے جیسے یہ ہمارا داخلی معاملہ ہو۔ ابھی چند ہفتے پہلے تک جب کابل پر بظاہر طالبان کے فوری قبضے کا امکان نہیں تھا تو ہمارا ریاستی موقف یہی تھا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اب حال یہ ہے کہ ہم زبردستی ان کا موقف خود پیش کرتے نظر آرہے ہیں۔ کہا جارہا تھا کہ طالبان قیادت اس طرز عمل پر خوش نہیں۔ ان کا ردعمل طالبان رہنما جنرل مبین کے انٹرویو کی صورت میں سامنے آگیا۔ انہوں نے کابل میں ایک نجی ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے الزام لگایا کہ عمران خان کو تو خود کٹھ پتلی سمجھا جاتا ہے وہ ہمیں کس حیثیت میں مشورے دے رہے ہیں۔ اگر طالبان کا یہ رویہ ہے تو پھر ہماری جانب سے خواہ مخواہ کی وکالت کس کھاتے میں آئے گی – ہمیں افغانستان کے حوالے سے قوم کو سچ بتانا چاہئے تاکہ کسی ممکنہ عالمی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے یکسوئی پیدا ہوسکے۔ اس سے بھی بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب چینی حکام نے سی پیک منصوبوں پر کی جانے والی تنقید کا جواب کھل کر غیر روائتی انداز میں دیا۔ مخصوص شہرت رکھنے والے اینکر کامران خان نے ایک ویڈیو رپورٹ بنا کر الزام لگایا کہ سی پیک کے بجلی کے منصوبے قومی خزانے کے گلے کا طوق بن گئے۔ چینی حکام نے معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے اسے پاکستان کا ریاستی موقف گرد انا۔ چین کی سرکاری نیوز ایجنسی نے کامران خان کو مخاطب کرتے ہوئے سخت جواب دیا اور کہا ”کامران خان صاحب!اگرچین پاکستان میں توانائی کے منصوبے نہ لگاتا تو اس وقت پاکستان میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ ایک دن میں 16 گھنٹے ہوتا،پاکستان میں بڑی تعداد میں صنعتیں بند اورملک میں ایک سنگین خطرناک بحران کی کیفیت ہوتی،پاکستان اس وقت توانائی کے شعبے میں سرپلس ہے، چند سیکنڈز میں آپ نے سی پیک اور پاک چین دوستی پر انتہائی سنگین الزامات لگا دیئے چین دنیا میں واحد ملک ہے جو ہر مشکل اور ہر چیلنج میں پاکستان کے ساتھ نہ صرف شانہ بشانہ کھڑا ہوا ہے بلکہ پاکستان کی اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی فورم پر ہر ممکن تعاون اور مدد کرتا ہے سی پیک توانائی کے منصوبوں سے اب آگے نکل چکا ہے، اب پاکستان میں صنعتیں لگ رہی ہیں صنعتی زون بن رہے ہیں، گوادر ایئرپورٹ، ایم ایل ون ریلوے اور ایسے منصوبے شروع ہو رہے ہیں جو پاکستان کی تقدیر بدل دیں گے، اور اس وقت ایسی تنقید پاکستان کے مفاد میں ہر گز نہیں“۔ اس بیان بازی سے واضح ہوگیا کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اس وقت کیا سوچ رہی ہیں۔ سی پیک کے بارے میں خالی خول مثبت خبریں چلا کر زمینی حقائق سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔اب سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات کے حوالے سے ہی دیکھ لیں۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے شہباز شریف اور انکے صاحبزادے سلمان شہباز کے تمام اکاؤنٹس کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ دی ہے کہ ہر طرح سے تحقیقات مکمل ہونے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ ان رقوم میں کسی قسم کی بے قاعدگی یا کرپشن نہیں پائی گئی۔ واضح رہے کہ اس حوالے سے درخواست حکومت پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی تھی جس پر برطانوی حکومت غیر معمولی تعاون کا مظاہرہ کرتے ہوئے اکاؤنٹس منجمد کردئیے۔اس دوران بیس سال کے کھاتوں کا جائزہ کیا گیا۔ سب کچھ کلیئر ہوچکا مگر حکومت پاکستان شرمندہ ہونے کے بجائے اب یہ کہہ رہی ہے کہ یہ کوئی بڑی کامیابی نہیں۔ ہم پاکستانی عدالتوں میں مقدمہ چلائیں گے۔ گویا معاملات ثاقب نثار اور کھوسہ ٹائپ ججوں کے ہاتھوں میں دے کر زبردستی مجرم ثابت کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ فیک نیوز تو یہ بھی ہے کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے، اب تو لوگ یہ تک کہنا شروع ہوگئے ہیں ملک میں طرح طرح کے بحران محض نااہلی نہیں بلکہ کسی ایجنڈے کے تحت پیدا کیے جارہے ہیں۔ اس پر فوری رائے دینا شاید مناسب نہ ہو مگر یہ تو حقیقت ہے کہ ملکی ترقی اور عوامی مسائل حل کرنے کے حوالے سے بھی حکمران اشرافیہ کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ حکمران طبقات کو صرف اور صرف اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنے لیے وسائل میں اضافے سے غرض ہوتی ہے۔ اس کی قیمت خواہ ملک کو عوامی مشکلات میں اضافے سے چکانا پڑے یا خدا نخواستہ جغرافیائی طور پر الجھنوں میں پڑ کر۔ جنرل ایوب اور جسٹس منیر نے حکمران اشرافیہ کے مفادات کو ہر صورت تحفظ دینے کا جو مکروہ سلسلہ شروع کیا وہ آج بھی جاری ہے۔ اب کسی کو شک نہیں رہا کہ فیک سسٹم کو بچانے اور برقرار رکھنے کے لیے فیک نیوز کا سہارا لینا لازم ہوتا ہے۔ حقائق کو غلط رنگ دے کر قوم کے سامنے پیش کرنا ملک کی خدمت نہیں۔ ایسے عناصر کو کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزائیں دینے تک حالات درست ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

تبصرے بند ہیں.