ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی…… خطرہ ابھی ٹلا نہیں

147

امریکہ کے 45 ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار کی صدارتی دوڑ سے باہر ہونے کے بعد آج کل بے روزگار ہیں۔ 2016ء سے 2020ء تک کا ٹرمپ کا صدارتی دور تنازعات، تضادات اور ہنگاموں سے بھرپور رہا جسے بعض امریکی آج بھی کسی Horror Film سے تشبیہ دیتے ہیں۔ انہوں نے ہر ریاستی ادارے کے ساتھ ٹکر لی خارجہ تعلقات میں ایران کے ساتھ معاہدے سے منحرف ہو کر امریکی ساکھ کو دھچکا لگایا روس، چین، شمالی کوریا ہر ایک کے ساتھ تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا کیا۔ اپنی ری پبلیکن پارٹی بیورو کریسی فوج سب کے ساتھ چن چن کر نئے نئے محاذ قائم کیے یہاں تک کہ ان کی ذہنی استطاعت پر سوال اٹھنے لگے اور ایک ایسا وقت بھی آیا کہ امریکی خاتون اول میلانیا ٹرمپ انہیں مخاطب کر کے یہ کہنے پر مجبور ہو گئی کہ "Are you crazy” (پاگل ہو گئے ہو کیا؟) پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں پاکستان کے خلاف کسی امریکی صدر نے اتنی گھٹیا، غیر مہذب اور ناشائستہ زبان استعمال نہیں کی۔ ان کی صدارتی الیکشن مہم سے لے کر وائٹ ہاؤس آمد سے لے کر دوسری مدت کے لیے شکست اور عہدہ چھوڑنے سے انکار اور دھاندلی کے الزامات اور وائٹ ہاؤس سے ذلت آمیز رخصتی سب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار دیکھا گیا کہ بائیڈن کی کامیابی کے سرکاری اعلان کو روکنے کے لیے ٹرمپ کے حامیوں نے کسی طرح کیپٹل ہل پر قبضہ کر کے اس اجلاس کو سبو تاژ کر دیا جس میں ٹرمپ کی شکست پر مہر تصدیق ثبت کرنا تھی اس کے بعد ان پر غداری اور ان کی گرفتاری کے امکانات پر بحث کا آغاز ہوا اور ان کے مواخذے کی باتیں ہونے لگیں۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے 2024ء کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے اور ری پبلیکن پارٹی میں صدارتی ٹکٹ کے حصول کے لیے پرائمری یا ابتدائی Campign شروع کر دی ہے۔ اسی اثناء میں ٹرمپ کے آخری دور پر امریکہ میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کی ہنگامہ خیز ریلیز کے بعد امریکہ میں ٹرمپ ایک دفعہ پھر ہر خاص و عام کی زبان پر ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ جیسے مؤقر امریکی اخبار کے دو صحافیوں باب وڈ ورڈ اوررابرٹ کو سٹا کی کتاب کا نام Peril ہے جسے اردو میں خطرہ کہتے ہیں اس کتاب نے امریکی ڈیمو کریسی میں سول ملٹری تعلقات پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ اگر ریاست شدید خطرات میں گھر چکی ہو تو کیا فوجی قیادت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ وسیع تر قومی مفاد میں سپریم سول اتھارٹی (صدر امریکہ) کے علم اور مرضی کے برخلاف ایسے فیصلے یا اقدامات اٹھائے تا کہ ملک کو خطرے سے بچایا جا سکے۔ یہ بحث دنیا بھر کے ممالک خصوصاً ان ممالک پر بطور خاص لاگو ہوتی ہے جہاں فوج سول حکومت کاتختہ الٹ چکی ہو یا 
جہاں فوجی قیادت اقتدار پر قبضہ کیے بغیر سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہو۔ 
اس کتاب کے مندرجات کی اہم ترین بات یہ ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کا بہانہ بنا کر ٹرمپ نے اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس دوران امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی کو خطرہ تھا کہ اقتدار پر قابض رہنے کے لیے ٹرمپ یا تو روس یا چین کے ساتھ جنگ کا اعلان کرنے والا ہے یا پھر امریکہ کے اندر کوئی ایسا انتشار پیدا کر دیا جائے گا جسے جواز بنا کر ٹرمپ اقتدار پر قبضہ جاری رکھے گا۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ اس صورت حال میں جنرل مارک ملی نے تہیہ کر لیا کہ وہ فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے جس کے بعد انہوں نے فوجی کمانڈروں کو کہا کہ ٹرمپ کی طرف سے اگر کوئی بھی غیر آئینی حکم جاری کیا جائے تو اس پر عمل کرنے سے پہلے وہ انہیں اطلاع کریں۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی اس سے بھی غیر معمولی بات یہ تھی کہ جنرل ملی نے حالات کی پیش بندی کرتے ہوئے چائنا اور روس کی فوجی قیادت سے خفیہ رابطے کر کے انہیں ٹرمپ کی ذہنی کیفیت اور امریکی فوجی قیادت کے جنگ نہ کرنے کے فیصلے سے متعلق انہیں اعتماد میں لے لیا۔ Peril(خطرہ) نامی کتاب میں باب وڈورڈ اور کوسٹانے اس بارے میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی کے الفاظ Quote کیے ہیں جس پر امریکہ میں ایک طرف تو یہ کہا جا رہا ہے کہ جنرل ملی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے جس پر اسے فوج سے نکال دینا چاہیے اور اس پر مقدمہ چلنا چاہیے جبکہ دوسری طرف موجودہ صدر بائیڈن نے ان کے ان اقدامات کو درست قرار دیا اور انہیں کورٹ مارشل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ ساری صورت حال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت (امریکہ) کے بجائے کسی ایشیائی یا افریقی ملک کی بات کر رہے ہیں جہاں فوج کو سیاست کی لت پڑ چکی ہو۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ امریکہ کو جنرل ملی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ملک کو جنگی بحران سے بچایا مگر اس کوشش میں وہ ایک خطرناک آئینی سرحدوں سے تجاوز کے قریب پہنچ گئے جہاں ایک فوجی کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے کیونکہ اس سے آئین کے سویلین بالادستی کے تقدس کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں کیونکہ فوج کو اعلیٰ سویلین قیادت کا ایک ماتحت ادارہ بن کر رہنا چاہیے۔ 
کتاب میں جنرل ملی کی 30 اکتوبر 2020ء کی 8 ٹیلی فون کالوں کا ذکر ہے جو انہوں نے اپنے چینی ہم منصب چینی آرمی چیف جنرل Lizuadang کو کی تھیں۔ اس کے دفاع میں کہا جاتا ہے کہ ملٹری ٹو ملٹری رابطے Deconflict یا کشمکش ختم کرنے کے لیے ایک پرانی روایت ہے۔ مصنفین کے مطابق جنرل ملی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ اس نے ٹرمپ کے ممکنہ نیو کلیئر حملے کے حکم کو زائل کرنے کے علاوہ امریکہ میں وزیر خارجہ پومپیو، اٹارنی جنرل ولیم بر، امریکی سی آئی اے سب کے ساتھ مل کر انہیں صورت حال سے آگاہ کیا تھا بلکہ کچھ سینسٹرزکو بھی اپ ڈیٹ کیا گیا تھا اور ہاؤس سپیکر نینسی پلوسی کو بھی بتا دیا کہ فوج کو سیاسی طور پر استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ 
اس کتاب میں جنرل ملی نے سیاہ فام جارج فلائیڈ کی پولیس تشدد سے موت کے بعد ہنگاموں کو کنٹرول کرنے کے ضمن میں وضاحت کی ہے کہ ٹرمپ چاہتے تھے کہ احتجاج کو کچل دیا جائے مگر ہم نے سختی سے اجتناب کیا البتہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں کہ مظاہرین کو زبردستی Lafayett اسکوائر سے دھکیل کر وہاں ٹرمپ کے تقریر کے لیے آنے پر ان کی ٹرمپ کے ساتھ فوجی وردی میں تصویر کھنچوانا ایک غلطی تھی (اس سے یہ تاثر پیدا ہوتاتھا کہ فوج ٹرمپ کے غیر آئینی اقدامات کا دفاع کر رہی ہے) اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امریکی فوج سیاست سے دور رہنے میں کس قدر حساس ہے۔ یہ کتاب دنیا بھر میں سول ملٹری ریلیشن اور فوج کی اقتدار میں مداخلت کے موضوع پر ایک Case History کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس میں Comeback کا چانس مزید کمزور ہو جائے گا۔ البتہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔

تبصرے بند ہیں.