دنیا کا کہنا ہے کہ ملکوں کا استحکام، اسلحہ اور گولہ بارود سے نہیں، ان کے نظام حکومت کی مضبوطی سے ہوتا ہے اور نظام کا دارومدار ریاست کے اداروں پر ہوتا ہے۔ ادارے کمزور ہو جائیں تو نظام حکومت بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔ جب عوام کا اعتماد کمزور پڑ جائے تو ریاست کا پورا نظام مفلوج ہو کے رہ جاتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔آہستہ آہستہ ہر ادارے کی ساکھ ختم ہو رہی ہے یا ختم کی جا رہی ہے۔ تازہ تریں حملہ پاکستان الیکشن کمیشن پر ہوا ہے۔ وجہ یہ بنی کہ حکومت وقت آئندہ انتخابات کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (EVMs) کا استعمال چاہتی ہے۔ صرف چاہتی نہیں، اس کا تہیہ کر چکی ہے۔ الیکشن کمیشن بعض وجوہات کی وجہ سے اگلے انتخابات میں ان مشینوں کے حق میں نہیں۔ حال ہی میں تفصیلی بریفنگ کے بعد الیکشن کمیشن نے 37 اعتراضات یا تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انتخابات کرانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے۔ اگر انتخابات میں گڑبڑ یا دھاندلی ہو، نتائج تبدیل کر دئیے جائیں، عوام احتجاج کریں تو اس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ہی عائد ہوتی ہے اور اگر انتخابات منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور صاف شفاف ہوں تو اس کا کریڈٹ بھی الیکشن کمیشن ہی کو جاتا ہے۔ اگرچہ پارلیمنٹ کو انتخابی قوانین یا ضابطے بنانے کا مکمل اختیار حاصل ہے لیکن اگر یہ قوانین اور ضابطے یکطرفہ طور پر مسلط کر دئیے جائیں تو مقصد پورا نہیں ہوتا۔ الیکٹرانک مشینوں کی صورتحال یہ ہے کہ سوائے حکمران جماعت کے کوئی اہم سیاسی جماعت ان کی حمایت نہیں کر رہی۔ حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتیں ، مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی پر زور مخالفت کر رہی ہیں۔ جماعت اسلامی اور کئی دوسری چھوٹی جماعتیں بھی حمایت نہیں کر رہیں۔ اخباری اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت ہر قیمت پر الیکٹرانک مشینوں کا استعمال چاہتی ہے ۔ اس سلسلے میں اس نے ایک صدارتی آرڈیننس بھی جاری کر رکھا ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنی عددی اکثریت کے زور پر یہ بل منظور کرانا چاہتی ہے۔ اگر یہ قانون بن جاتا ہے تو الیکشن کمیشن کو لامحالہ مشینی ووٹنگ کو قبول کرنا پڑے گا۔ اپوزیشن جماعتوں کے پاس دو راستے بچیں گے۔ پہلا یہ کہ وہ مجبورا ہی سہی، مشینی ووٹنگ کو قبول کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیں اور دوسرا یہ کہ وہ بائیکاٹ کا راستہ اختیار کریں۔
ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو یہ کوئی کفر اور اسلام کا معاملہ نہیں۔ انتہائی کم ہی سہی لیکن آٹھ نو کے قریب جمہوری ممالک الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں، بھارت، جہاں دنیا کی سب سے بڑی انتخابی مشق ہوتی ہے۔ الیکٹرانک مشینیں استعمال کر رہا ہے۔ میں نے ایک مضمون میں پڑھا کہ آج سے کوئی نو دس سال پہلے ایسی انتخابی مشین معروف ادارے کا مسیٹس (COMSATS) نے تیار کی تھی۔ 2011 میں الیکشن کمیشن کے ارکان، سیاستدان، سفارت کاروں اور بعض این۔جی۔اوز کو اس مشین کے بارے میں ایک بریفنگ دی گئی ۔ باہر کے کچھ لوگ بھی اپنی اپنی مشینیں لے آئے۔ مقامی مشین کی کارکردگی کو بہت سراہا گیا۔ ملتان کے ایک ضمنی انتخاب میں جزوی طور پر اس مشین کا استعمال بھی ہوا۔ معاملہ آگے نہ بڑھا۔ اب جب ایک بار پھر مشینی ووٹنگ کا شور اٹھا تو اسی دس سالہ پرانی مشین کو جھاڑ پھونک کر وزیر اعظم کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ یہی وہ مشین ہے جسے اب منصفانہ انتخابات کی ضمانت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ صدر عارف علوی کا کہنا ہے کہ ” اگر چار پانچ ماہ میں معاملات طے پا جاتے ہیں تو ہمیں تین لاکھ پچیس ہزار مشینیں تیار کرنے کے لئے ہر روز ایک ہزار مشینیں تیار کرنا ہوں گی”۔ معلوم نہیں اتنی بڑی تعداد میں، ہر خامی سے پاک مشینیں تیار ہو پاتی ہیں یا نہیں۔ لیکن ایک مسئلہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ ووٹر کو اپنے انگوٹھے یا انگلی سے اپنی شناخت کرانا ہو گی جسے بائیو میٹرک کہا جاتا ہے۔ مشین کے سینسر جب ووٹر کی شناخت کر لیں گے تو اسکے کوائف سکرین پر نمودار ہوں گے۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ اکثر انگوٹھوں یا انگلیوں کے نشانات کو مشین قبول نہیں کرتی۔ خود نادرا کا کہنا ہے کہ اگر اعلیٰ تریں کارکردگی دکھانے والی مشین ہو تو بھی وہ زیادہ سے زیادہ 82 فی صد ووٹروں کی شناخت کر سکے گی۔ گویا 18 فیصد ووٹر ایسے ہوں گے جن کو بائیو میٹرک مشین شناخت نہیںکرے گی۔ اس وقت قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں اوسطاً چار لاکھ 15 ہزار ووٹر ہیں۔ گویا بہترین مشینی کارکردگی کی صورت میں بھی ہر انتخابی حلقے سے 74750 ووٹر ووٹ ڈالنے سے محروم رہیں گے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پچاسی ہزار پولنگ سٹیشنوں اور دو لاکھ بیالیس ہزار پولنگ بوتھز کے لئے ہمیں ووٹر کی شناخت کرنے والی پچاسی ہزار مشینوں اور بیلٹ کے لئے تین لاکھ چالیس ہزار ای۔وی۔ایمز کی ضرورت ہو گی۔
2013 کے انتخابات پر 4 ارب روپے خرچ ہوئے۔2018 کے انتخابات پر یہ خرچہ 21 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ ایک عمومی تخمینہ لگایا گیا ہے کہ مشینی ووٹنگ سے ہمارا خرچہ 75 ارب روپے سے تجاوز کر سکتا ہے۔ عملے کی تربیت ، مشینوں کی نقل و حمل اور دیکھ بھال کا خرچہ الگ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مشینیں استعمال کے بعد پانچ سا ل کے لئے کسی انتہائی محفوظ مقام پر سٹور کرنا پڑیں گے۔ اس پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ ابھی تک نہیں لگایا گیا۔ آئر لینڈ نے مشین ووٹنگ کا نظام صرف اس بنیاد پر ترک کر دیا تھا کہ مشینوں کی حفاظت اور سٹوریج کے اخراجات ناقابل برداشت تھے۔
بھارت کئی سالوں کے جزوی تجربات کے بعد مشینی ووٹنگ تک پہنچا۔ ہم یہ تجربہ کھڑے کھڑے ایک چھلانگ لگا کر کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں خواندگی کی شرح اتنی کم ہے کہ ہمیں امیدواروں کے ناموں کے سامنے ہاتھی گھوڑوں جیسے انتخابی نشان بھی چھاپنا پڑتے ہیں۔ یہ لوگ مشینی ووٹنگ کے تجربے سے کیسے گزریں گیـ ؟کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح اتنی بڑی تعداد میں عملے کو کیسے تربیت دی جا سکے گی؟ یہ بھی بڑا سوال ہے۔ بجلی کی آنکھ مچولی ہمارے ہاں معمول کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے اثرات مشینی ووٹنگ پر بھی یقینا پڑیں گے۔ ان سب سوالوں سے بڑا سوال یہ ہے کہ حکمران جماعت یکہ و تنہا یہ بوجھ کیسے اٹھائے گی؟ یہ معاملات تو سیاسی اتفاق رائے سے طے پاتے ہیں جیسا کہ 2017 میں انتخابی قوانین کا بل تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے منطور ہوا تھا۔ ہم الیکشن کمیشن کا چیئر مین اور اس کے ارکان بھی وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے اتفاق رائے سے بناتے ہیں۔ اس مشق کی روح یہ ہے کہ انتخابی عمل کو مکمل طور پر غیر جانبدار رکھا جائے۔ اگر ایک غیر جانبدارکمیشن کے بعد کوئی جماعت عددی اکثریت کے زور پر ، دوسری جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر، انتخابی نظام یا قواعد وضوابط مسلط کر دیتی ہے تو انتخابات سے بہت پہلے ہی انتخابی عمل متنازع ہو جائے گا۔
انتخابات پر نگاہ رکھنے والی غیر جانبدار تنظیموں پلڈاٹ اور فافن نے بھی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ یکطرفہ طور پر کوئی فیصلہ نہ کرے اور تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے۔ لیکن لگتا ہے کہ حکومت اسکی ضرورت محسوس نہیں کر رہی۔ وہ تلی بیٹھی ہے ۔ جس کی تازہ مثال یہ ہے کہ وزراء نے الیکشن کمیشن کو بھی نشانے پر دھر لیا ہے۔ یہاں تک کہ اسے آگ لگا دینے کا نعرہ لگایا گیا ہے۔ سوچنا چاہیے کہ اگر اس اہم تریں ادارے کی ساکھ ختم کر دی گئی تو انتخابی نتائج پر کون یقین کرئے گا۔
تبصرے بند ہیں.