جنگ ستمبر اور ہمارے بقرا طیے

211

 قا رئین کرا م، آ ج چھ ستمبر ہے۔ یا د دلا دو ں کہ ۱۹۶۵ میں یہی تو وہ د ن تھاجسے جنگ ستمبر کے حو ا لے سے یا د کیا جا تا ہے۔ آج دل کڑھ کر رہ جاتا ہے جب کوئی نو عمر سوال کرتا ہے کہ جنگ میں کس کا پلا بھاری رہا۔ حیران ہوتا ہوں کہ اس سوال کی گنجائش کیونکر پیدا ہوئی۔ بسا اوقات تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی دوپہر کے وقت سورج کی روشنی میں پوچھے ’یہ دن ہے یا رات؟‘ ہر پہلو سے ہر محاذ پہ یہ جنگ پاکستان نے اس انداز سے جیتی کہ ہر سال چھ ستمبر کو عید کا سا سماں ہوتا تھا۔ یہ ایک عام تعطیل کا دن ہوا کرتا تھا۔ چھ ستمبر سے شروع ہوکر سترہ روزہ تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران میں سکول کا طالب علم تھا۔ صرف ریڈیو پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر کے ریڈیو سٹیشن پاکستان کی آئے دن کی فتوحات کے بارے میں خبریں نشر کرتے۔ ہم لوگوں کو اگر کوئی ان دنوں بتاتا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ کوئی پاکستان کی فتح کے بارے میں شک کا اظہار کرے گا تو شاید ہم ہنس دیتے۔ لیکن آج ایسا ہوچکا ہے۔ اس سے اور کچھ نہیں تو مجھے پروپیگنڈے کی منفی طاقت پہ یقین ہوگیا ہے۔ جارج اوریل (George Orwell) نے ایک مرتبہ کہا ”لوگوں کو برباد کرنے کا مؤثر ترین طریقہ یہ ہے کہ ان کے ماضی کے بارے میں ان ہی کے خیالات کو تباہ کردیا جائے۔“
تو 1965ء کی جنگ کے بارے میں حقائق کو توڑنے مروڑنے سے ہمارے ساتھ یہی تو کیا جارہا ہے۔ او ر کر نے وا لے ہمارے اپنے ملک کے ہی بقر اطیے ہیں۔ہمارے ماضی کی اصل صو رت کو بگا ڑنے کا آ غا زچھ ستمبر کی چھٹی ختم کرکے کیا گیا۔ عذر پیش کیا گیا کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہوجانے کے بعد چھ ستمبر کی چھٹی جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ کسی واقعہ کی یاد میں چھٹی کوئی آرام کا دن نہیں ہوتا۔ وجہ ہوتی ہے واقعہ کی شدت کو یاد رکھنا اور اسے ذہنوں میں زندہ رکھنا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ چھ ستمبر کے یادگار دن کو 1971ء میں پیش آنے والے سانحہ سے الگ تناظر میں دیکھا جاتا۔ کوئی پوچھے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا مطلب یہ کہاں سے نکل آیا کہ ستمبر 1965ء کی جنگ ہمارے لیے بے معنی ہوکر رہ گئی ہے؟ یاد رفتہ کو آواز دیتے ہوئے بتاتا ہوں کہ جنگ ستمبر 1965ء کل سترہ روز جاری رہی۔ ہر محاذ پر انڈین آرمی، فضائیہ اور بحریہ کو منہ کی کھانا پڑی۔ پاکستانی افواج نے نہ صرف انہیں شکست فاش دی، بلکہ ان کے 1617 میل علاقہ پر قبضہ کرلیا۔ سیالکوٹ کے محاذ پر ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی ہوئی۔ BBC کی رپورٹ کے مطابق جنگ عظیم دوم کے بعد یہ ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی تھی۔ صرف 12 ستمبر تک کھیم کرن کے علاقے میں بھارتی فوج کے کرنل اننت سنگھ نے ساڑھے تین سو فوجیوں سمیت پاکستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ یہ سب بیان کرنے میں مبالغہ آرائی اس لیے نہیں ہوسکتی کہ برطانیہ کے مشہور صحافی والٹر ہاولنگٹن نے کہا: ”بھارتی دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے 170 ٹینک تباہ کر دئیے لیکن وہ دعویٰ کے ثبوت میں کوئی شہادت پیش نہیں کرتے اور نہ ہی غیر ملکی نامہ نگاروں کو محاذ پر 
جانے دیتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستانی جو دعویٰ کرتے ہیں اس کے حق میں ثبوت پیش کرتے ہیں اور اخباری نمائندوں کو محاذ جنگ پہ جانے دیتے ہیں۔“ BBC کے فوجی امور کے ماہر چالس ڈگلس ہیوم نے پاکستانی فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا: ”اگرچہ بھارت کے مقابلے میں پاکستانی فوج کی تعداد بہت کم ہے لیکن وہ بھارت سے بہت بہتر ہے۔ اگر دونوں ملکوں کے جوان کا جوان اور یونٹ کا یونٹ سے مقابلہ کرکے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستانی فوج کی تربیت بہت اچھی ہے۔ مغربی ممالک کی فوجی امداد سے بھارتی فوج کی نفری میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ لیکن اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ اس کی تربیت کا معیار گر گیا ہے۔“ نیویارک ٹائمز کے نمائندہ مقیم دہلی نے اپنے مکتوب میں لکھا: ”اگرچہ بھارت نے اعداد و شمار پیش کرنے میں احتراز کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارتی فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ علاوہ ازیں بھارت کے بے شمار ٹینک، طیارے اور دوسرا فوجی سازو سامان تباہ ہوئے۔“ نمائندہ خصوصی نے مزید لکھا: ”بھارت پاکستان کی جرأت اور معرکہ آرائی سے ششدر رہ گیا ہے اور پھر تنازع پہ عالمی رویہ 
سے سخت دل شکستہ ہوگیا ہے۔“اب ذرا دوسرے ملکوں کی حکومتوں کا ردّ عمل بھی سن لیں۔ ایران کے صدر امیر ہویدا نے انقرہ پہنچ کر اعلان کیا کہ ”پاکستان پر مسلح حملہ کیا گیا ہے اور اسے جارحیت کے مقابلہ کرنے کے لیئے ہر ممکن امداد دینی چاہیے تاکہ وہ مسلح جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکے۔ سعودی عرب نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر واشگاف الفاظ میں بھارت کو متنبہ کیا کہ وہ پاکستان اور کشمیر کے عوام کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرکے عرب ملکوں سے اپنی دوستی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔ اگر بھارت عرب ملکوں سے دوستی قائم رکھنا چاہتا ہے تو کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرے۔ عراقی صدر عبدالسلام عارف نے قاہرہ میں اس وقت کے پاکستانی سفیر سجاد حیدر کو یقین دلایا کہ کاسا بلانکا میں عرب سربراہوں کی جو کانفرنس ہورہی ہے اس میں عراق پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرے گا۔ حکومت چین نے جو شروع دن سے پاکستان کے اصولی مؤقف کی معترف رہی ہے، اس کے اُس وقت کے وزیراعظم چو این لائی نے بھارتی جارحیت کو ناجائز قرار دیا۔۔ اس طرح امن کی کوئی خدمت نہیں کی جاسکتی۔“
صا حبو، یہ تو تھا بیرونی دنیا کا رد عمل جس سے آپ کو بآسانی جنگ کے حالات سے آگاہی مل سکتی ہے۔ اگر پاکستان کی اندرونی صورت حال کی بات کریں تو پاکستانی عوام کا جذبہ اور اپنی فوج کے لیے ہمدردی قابل دید تھی۔ لوگوں نے جنگ کے فنڈ میں دل کھول کر عطیات دیئے۔ شعراء نے بہادری کے گیت لکھے۔ گلوکاروں نے گا کر نوجوانوں کے دل جذبہ شہادت سے سرشار کیے۔ یہی وہ اخوت کی قوت 
تھی جس نے بھارتی سورماؤں کو ناکوں چنے چبوائے اور شکست فاش سے دوچار کیا۔ شہداء کے ورثاء نے غم و ناامیدی کو اپنے پاس پھٹکنے نہ دیا۔ سرگودھا میں پاک فضائیہ کے ہوائی اڈے سے اعلان ہوا کہ فوجیوں کے رات بسر کرنے کے لیے بستروں اور چارپائیوں کی ضرورت ہے، تو ہوائی اڈے کی جانب جانے والی سڑکیں گھوڑا گاڑیوں، گدھا گاڑیوں، ا و ر پٹرول گاڑیوں سے اٹ گئیں۔ اتنی تعداد میں سامان پہنچا کہ فضائیہ کے افسران کو عوام کی منت سماجت کرکے واپس لوٹاناپڑا۔ اور جس قوم میں جذبہ کا یہ عالم ہو تو اسے دنیا کی کوئی طاقت تا قیامت شکست نہیں دے سکتی۔ اس وقت کے ہم سب لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ جنگ جو کھلم کھلا بھارتی جارحیت کا نتیجہ تھی، پاکستان نے ہر محاذ پر جیتی تھی۔مانتا ہوں کہ جنگ عمومی طور ہرگز اچھی چیز نہیں۔ لیکن کیا کہیں گے آپ کسی قوم پہ مسلط کی گئی جنگ کے بارے میں۔ آج جو بقراط میڈیا کے ذریعے یہ پیغام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ستمبر 65ء کی جنگ معمہ ہے، کیوں لڑی گئی؟ ملک کو اس سے مزید پسماندگی کے سوا کیا ملا؟ ان سے دست بستہ نہیں، بلکہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہوں کہ ستمبر 65ء کے سے حالات میں جنگ سے دامن بچانا بزدلی ہی نہیں بے غیرتی کے زمرے میں آتا ہے۔ وہ حالات کیا تھے؟ گو وہ اتنے ڈھکے چھپے بھی نہیں۔ لیکن چونکہ کالم کی طوالت اجازت نہیں دیتی کہ اس پہ تبصرہ کروں۔ انشاء اللہ پھر کبھی سہی۔ البتہ نام نہاد بقراطیوں سے ضرور یہ کہوں گا کہ ستمبر 65ء کی جنگ کے خلاف بولتے ہوئے یہ ضرورغور کرلیں کہ ان کا پیغام کہیں بھارتی پروپیگنڈے کا حصہ تو نہیں؟

تبصرے بند ہیں.