پامال حرمتِ انساں

160

معیشت کی ڈوبتی ابھرتی نبضیں بچانے کو شنگھائی تعاون تنظیم کے سر براہی اجلاس کی میزبانی حکومت کے لیے نہایت اہم اور ایک چیلنج رہا۔ اس موقع پر مثالی امن و امان قائم رہنا حد درجہ ناگزیر تھا۔ تحریکِ انصاف کی الٹ بازیاں ہر مہمان کی آمد پرسر پر تلوار لٹکائے رکھتی ہیں۔ پاکستان کے بدخواہوں کاجمہوریت کے پردے میںکھلی چھٹی دیے رکھنے کا ڈنڈا ہمیں دھمکاتا ہے۔ ساری تو جہات سیکورٹی کی بے حد و حساب تعیناتی پر مرکوز رہیں۔ یہ اضافی بوجھ ملک دشمنی ہے۔ 2014ء کے دھرنے میں چینی صدرکے دورے کی منسوخی کا تجربہ کافی تھا۔ یہ اچھل کود تو ہونی ہی تھی۔ ضرورت ہے کہ دارالحکومت کے علاوہ ایک دار الاحتجاج بنا دیا جائے۔ جہاں جی بھر کر احتجاج، مظاہرے، دھینگا مشتی، ڈی جے، چیختی چنگھاڑتی تقاریر کی جا سکیں، ہائیڈ پارک کی طرح۔ جڑواں شہروں کے تعلیمی ادارے، دفاتر، تجارت رواں دواں رہیں۔ مہمان آجا سکیں۔ جینا، مرنا، کاروبار، ہسپتال آسانی سے چل پائیں۔ جمہوریت پھل پھول سکے۔جن وانس آجا سکیں! آئے دن دار الحکومت مفلوج کرنے کی یہ روایت حد درجے ناقابل قبول ہے۔
یہ اکٹھ خطے کے ممالک کا تھا۔ جنوبی،وسطی ایشیا، ہمسایوں مابین افغانستان کی عدم موجودگی نیک شگون نہیں۔ ہمیں علاقائی تجارت، صوبائی قومی امن و امان، طویل مابین سرحد کی بنا پر احتیاط، حکمت و دانائی سے معاملات چلانے کی ضرورت ہے۔ بھارت جیسے بدخواہ کے ساتھ حالات سنوارنے کے لیے ہم سبھی کچھ برداشت کرتے رہتے ہیں۔( باوجودیکہ مودی بھارت میںمسلمانوں کے وجود کے درپے ہے،مزید پاکستان میں ’را ‘کی کارگزاریاں!) ہمسائے بدلنا ممکن نہیں۔ ازبکستان، چین اور متحدہ عرب امارات نے افغان سفراء کی اسناد قبول کی ہیں۔ دنیا انھیں اپنے درمیان جگہ دے رہی ہے۔ امریکہ پوری دنیا کی فوجیں، بشمول پاکستانی تعاون دو دہائی جنگ لڑتا رہا۔ بالآخر اتنی بڑی سپر پاور مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہی راستہ بنا پائی۔ یہ نہ بھولیں کہ امریکہ دوستی میں ہم اتحادی بن کر افغانستان کے خلاف جنگ میں ہر طرح شریک رہے۔ امریکی انخلا کے بعد امریکی فوج کے مددگار افغان بڑی تعداد میں ہمارے ہاں مہمان ہیں۔ یہ اب پاکستان میں رچے بسے عمران خان کے لیے نعرے لگاتے ، اسے مضبوط کر رہے ہیں۔ امریکی ڈکٹیشن سے نکل کر ہمیں افغانستان پر اپنی پالیسی، اپنے حالات کے مطابق خود بنانے کی ضرورت ہے۔ کڑوے کسیلے بیانات امریکہ کو توراضی کر دیں گے مگر ہمارے شایاں نہیں۔ سرحد کے آرپار تحمل اور بھائی چارہ دونوںممالک کی ضرورت ہے۔
کبھی کبھی عوام الناس پر اچانک کوئی انکشاف ہو جاتا ہے۔ ملک مسلسل معاشی کمزوری کا شکار ہے۔ہمارے ٹیکس کہاں استعمال ہوتے ہیں؟ سرکاری ہسپتال خدمتی عملے کی شدید کمی کا شکار۔ غسل خانے گندگی سے اٹے پڑے۔ واشنگ پاؤڈر، صابن کہاں سے آئے، ملک غریب ہے۔ یونیورسٹیاں، کچرے سے بھرے ڈبوں کا کثافتی کثافت اور کثافتی ثقافت کے مراکز ہیں۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریٹائر منٹ پر 20 لاکھ سے دیے جانے والے ڈنر سے انکار کیا تو پتہ چلا کہ جج صاحبان کے ہمیشہ دو ڈنر ہوتے ہیں ریٹائرمنٹ پر۔ایک سپریم کورٹ، دوسرا بار کونسل کی طرف سے (ہمارے ٹیکسوں سے) ۔ پیرس اولمپکس میں میڈل جیتنے والے پر بھی بے شمار ڈنر لنچ منائے گئے ۔ پوری افسران،وزرا کی باراتوں نے اس کے بہانے قوم کا پیسہ اڑایاتھا۔
ہم اپنی دنیا میں کھانے پینے میں کھوئے گئے۔ ادھر اسرائیل 59 مسلم ممالک کی خاموش بے حسی پر پورے اطمینان سے غزہ کی تکے بوٹیاں کر رہا ہے۔ الاقصیٰ ہسپتال پر ساتویں مرتبہ حملے میں بے گھر فلسطینیوں سے بھرا ٹینٹ شعلوں کی نذر ہو گیا۔ درجنوں بری طرح جل گئے۔ 70 زخمیوں میں سے 25 کو دوسرے ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔
شمالی غمزہ اسی حال میں ہے۔ ایک زخمی لڑ کا وہیل چیئر پر کفن اوڑھے بیٹھا دنیا سے کہ رہا ہے کہ 25 دن سے یہاں خوراک، پانی، دوا کچھ بھی نہیں آیا۔ ہم نے دنیا سے مایوس ہو کر کفن پہن لیے۔ اگلی زندگی اس سے بہتر ہے۔ پوری انسانیت میں سے کوئی بچا نے والا نہیں۔ ہم عزت سے ( بھوکے) مر جائیں گے۔ غزہ نہیں چھوڑیں گے۔ ایک اور نوجوان اسی علاقے سے کہتا ہے (اپنی صورتحال بتا کر)’ کچھ تو کرو۔ ایک جملہ کہہ دو، ایک ہیش ٹیگ ، ایک وڈیو چھوٹی سی ، ہم یہاں ختم ہو رہے ہیں‘۔ ادھر اسرائیلی وزیر خزانہ بیذلیل (Bezalel) کا غم یہ ہے کہ بڑی طاقتیں اسرائیل کوغزہ کی پوری آبادی ختم کرنے کی اجازت نہ دیں گی اگر چہ وہ اخلاقاً کتنا ہی قرینِ انصاف کیوں نہ ہو! ہمارے یرغمال واپس نہ ملیں تو بھی ہمیں 20 لاکھ کو بھوک سے مار دینے کی اجازت نہ ملے گی۔ دیکھا آپ نے ان کا تکبر؟ حالا نکہ امریکہ اور مغرب نے قتلِ عام کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔یعنی آپ سوچیں 1200 اسرائیلیوں کے بدلے 3,35,000 کا قتل؟ (اب تک مضحکہ خیزحد تک کم تعداد دنیا کو بتائی گئی ،41 ہزار فلسطینی بشمول 16 ہزار بچے!) ایڈنبرا یونیورسٹی کی تازہ پبلک ہیلتھ رپورٹ یہ ہے کہ اسرائیلی قتلِ عام کی اموات 3 لاکھ 35 ہزار 5 سو ہو چکی ہیں۔ گارڈین میں سری دھر نے لکھا ہے کہ اموات اس سے زیادہ ہو سکتی ہیں۔ ’ٹروتھ آؤٹ‘ میں شارون زانگ نے لکھا، صرف اس ہفتے اسرائیل نے کم از کم 902 خاندان مکمل ختم کر دیے ہیں۔17اکتوبر کوحماس کے سربراہ یحییٰ سنوار اسرائیلی فوج سے رفح میں دست بدست لڑتے ہوئے مجاہدانہ ، قائدانہ شان کے ساتھ شہید ہو گئے ۔اور یہ پہلے تو نہیں! ہر ایسی شہادت نے فلسطینی تحریکِ مزاحمت کو مضبوط تر کیا ہے۔ فلسطینی محبوب قائدکی شہادت پرنازاں اور پر عزم ہیں۔
یو این جنرل اسمبلی میں ملائیشیا کے وزیرِ خارجہ نے امریکہ کے ویٹو پاور کے استعمال پر شدید تنقید کی تھی۔ 79 واں سالانہ اجلاس مگر دنیا آج بھی محفوظ نہیں ہے۔ انسانیت کے خلاف جرائم کے ایسے موقع پر، کہ غزہ میں قتلِ عام رو کا نہ جاسکا، ویٹو کا استعمال ختم کیا جائے۔ یورپین یونین کے پولینڈ کے ممبر پارلیمنٹ بران نے اسرائیل کو دہشت گرد ملک قرار دیا جسے آپ قتل کا لائسنس دینا چاہتے ہیں۔ ’آپ سب وہ ہیں جو اسرائیل کی مذمت نہیں کر سکتے۔ جس ملک کو چاہیں ’اینٹی سیمیٹک‘ کہہ کر اس پر یہودیوں کو بمباری کا لائسنس دے دیں۔‘ تاہم اللہ کی بے آواز لاٹھی امریکہ پر برستی رہی ہے۔ اب بھی شدید طوفان سے 50 ارب ڈالر کا نقصان فلوریڈا و دیگر کئی ریاستوں میں ہوا۔ گارڈین میں یونیورسٹی آف میامی کاگراف بتاتا ہے کہ خلیج میکسیکو بہت اونچے درجے کی تپش سٹور کر رہی تھی جس سے طوفان غیر معمولی شدت اور قوت پکڑ رہے ہیں۔ فالتو گرمائش جیٹ فیول کی سی تاثیر رکھتی ہے طوفان (Hurricane) کے لیے۔ جس سے یہ فوری بڑے طوفانوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ 8 اکتوبر 2024 ء کی رپورٹ ہے۔ یعنی 7 اکتوبر 2023ء کے بعد اسرائیلی ایک سال قتل و غارتگری ،بمباریوں میں برسائی درندگی کی تپش! طوفان کی رفتار 200 میل فی گھنٹہ تھی۔ 4 میٹر بلند سیلابی پانی۔ شدید بارشیں، جابجا گھروں کی چھتیں اڑ گئیں۔ جنریٹر تباہ، شعلے ہی شعلے، 40 لاکھ بجلی کے بغیر، گھپ اندھیرا، غزہ جیسا گھروں کا ملبہ۔ لاکھوں لوگ گھروں کی از سرنو تعمیر میں کمر توڑ قیمت ادا کریں گے۔ غیر متوقع طور پر یہ طوفان اتنا خوفناک ہو گیا۔ گرے ہوئے درخت، ٹوٹی سڑکوں پر بجلی کی گری تاریں۔ جنگی بگولوں کے سے حامل اثرات کا طوفان! فلوریڈا جنت نظیر علاقہ، سیاحتی مرکز تھا۔ شاید امت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بے حس بیٹھی تھی۔ رب تعالیٰ کی قدرت نے غزہ کے مظلوموں کا انتقام عالمی چوہدری سے کسی درجے میں لیا۔ ہم تو کہتے ہی تھے: ربِّ انی مغلوب فانتصر۔
عذابِ وقت ہے تہذیب آہن و بارود
کہ جس کے قدموں میں پامال حرمتِ انساں

تبصرے بند ہیں.