وہ سیاست دان جو کسی نظریہ یا رائے دہندگان کی مرضی سے قطع نظرہر حکومت کا حصہ بننا چاہتے ہیں اکثر ایسی حرکتیں کر گزرتے ہیں کہ ان کے اپنے اتحادی، انہیں موقع پرست یا بے ایمان ہی قرار دیتے ہیں۔ ایسے افراد کا عموماً کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہوتا اور یہ صرف ذاتی مفاد کے لیے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں اور سماجی استحقاق اور پروٹوکول کی خاطر ایک سیاسی دفتر اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔
ایسے لوگ بدلتی ہوئی سیاسی ہواؤں کی بنیاد پر جوڑ توڑ کرنے میں ماہر ہوتے ہیں، اورکسی بھی ایسی پارٹی یا دھڑے کے ساتھ صف بندی کر لیتے ہیں جس کے کامیاب ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یہ سیاست دان کسی بھی سیاسی ماحول میں گھل مل جانے کی گرگٹ جیسی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے بنیادی عقائد شاذ و نادر ہی طے شدہ ہوتے ہیں۔ اس کے بجائے، وہ اپنے آپ کو مروجہ بیانیے کے مطابق ڈھالتے ہیں، اقتدار میں رہنے کے لیے جتنی بار ضروری ہو بیعت کرتے ہیں۔ ان کے لیے کسی نظریہ یا سیاسی جماعت سے وفاداری ثانوی، یاغیر متعلقہ ہو تی ہے۔ سیاسی بقا کی جستجو میں، یہ افراد اکثر’گندے کھیل‘ میں بھی ملوث ہوتے ہیں جس میں رشوت، کرپشن ، بدعنوانی، ً جھوٹی بیان بازی، میڈیا کا سہارا لے کر حقیقت کے برعکس اپنا امیج پیش کرنا یا یا ذاتی مفادکے لیے ریاستی وسائل کا فائدہ اٹھانا شامل ہیں۔ یہ مخالفین کے خلاف بدبودار مہمات میں مشغول ہو نے کا کریڈٹ بہت فخر سے لیتے ہیں اور بعض اوقات تو مخالفین کی ساکھ کو داغدار کرنے کے لیے جھوٹے یا مبالغہ آمیز دعووں سے بھی باز نہیں رہتے۔اس کے علاوہ اس قسم کے کردار ہوتے تو اول درجے کے ڈرپوک اور بزدل ہیں لیکن تاثر یہ دیتے ہیں کہ ان سے بڑا دلیر سیاستدان تو اس کرہ ارض پر اور کوئی موجود ہی نہیں ہے۔ جھوٹ پکڑا جانے پر شرمندہ ہونے کے بجائے دوسروں کو لچھے دار باتوں میں الجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں بھی ناکام رہیں تو بدتمیزی پر اتر آتے ہیں۔
اس ساری تصویر کشی کے بعد ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ سمیت متعدد سیاسدانوں کے چہرے نظر کے سامنے گھوم جاتے ہیں لیکن میرا فوکس اس وقت جانے مانے کردار شیخ رشید ہیں۔ ملک میں جمہوریت ہو یا ڈکٹیٹر شپ شیخ صاحب کو پارٹیاں اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا چیمپین قرار دیا جائے تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔ ڈکٹیٹر ضیا الحق، میاں نواز شریف، ڈکٹیٹر پرویز مشرف ، شوکت عزیز یا پھر عمران خان شیخ صاحب نے سب کے ساتھ باریاں لگائی ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے آپ کو ایک کمٹڈ، سچا اور اصول پسند سیاستدان گردانتے ہیں۔اس قدر وفاداریاں تبدیل کرنے کی وجہ سے ہونے والے سیاسی نقصان سے بچنے کے لیے اب انہوں نے اپنی ہی ایک سیاسی جماعت بنا ڈالی ہے جس کے قائد بھی یہ خود ہیں اور کارکن بھی خود ہی ہیں۔ ان کی پارٹی کی سیاست بھی صرف قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کی حد تک ہی محدود ہے لیکن اس فیصلے کا انہیں فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب انہیں سیاسی مفاد کی خاطر مختلف پارٹیوں میں دربدر نہیں ہونا پڑتا اور یہ الائینس کے نام پر کسی بھی پارٹی سے گٹھ جوڑ کر لیتے ہیں۔ دلیر اتنے ہیں کہ ان کے خلاف اگر کوئی چھوٹا موٹا مقدمہ بھی درج ہو جائے تو ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے کسی جانور کے سر سے سینگ۔ بقول ان کے اپنے سال 1998 میں (واضح رہے کہ موصوف اس وقت ایک اہم وفاقی وزیر تھے اور وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے) پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے ایٹمی تجربات کے موقع پر یہ خوف کے مارے ملک سے ہی فرار ہو گئے تھے۔ سیاسی پیش گوئیاں کرنے کے بھی بہت شوقین ہیں لیکن ان کی بدقسمتی کہ ان کی اکثر ہی پیش گوئیاں غلط ثابت ہو جاتی ہیں لیکن شیخ صاحب شرمندہ ہونے کے بجائے ایک نئی پیش گوئی داغ دیتے ہیں۔ ایک عرصہ تک اسٹیبلشمنٹ کے خود ساختہ ترجمان بنے رہے لیکن موجودہ رجیم کی جانب سے ان کا ہاتھ زوردار سے جھٹکے جانے کے بعد یہ کچھ محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے لگتے ہیں۔ شائد یہی وجہ تھی کچھ عرصہ تک ان کی جانب سے خاموشی بھی اختیار کی گئی لیکن گزشتہ روز ان کی جانب سے پھر ایک بیان سامنے آ گیا۔ اپنے تازہ ترین بیان میں سابق وفاقی وزیر صاحب فرماتے ہیں کہ،’ گیم شروع ہو چکی ہے، بولیاں لگ رہی ہیں، بکنے اور بکانے والے دونوں موجود ہیں اور دونوں کے درمیان مقابلہ ہے‘۔ مجوزہ آئینی ترمیم کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ فی الحال اس پر وہ کچھ نہیں کہہ سکتے، کلیم اللہ، سمیع اللہ بال چل رہا ہے، سیٹی بجنے والی ہے اور ان کا ٹائم گزر گیا گیٹ نمبر 4 الٹا بھی کھلتا ہے پھر یہ کہیں گے مجھے کیوں نکالا۔ ایس سی اور کانفرنس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ، ’انہوں نے کرفیو میں کانفرنس کی، لوگ کانفرنس کو سیلیبریٹ کرتے ہیں انہوں نے کانفرنس والے دن پابندی لگادی، ہو کا عالم بنادیا، سکولوں اور کالجوں اور دفاتر کو بند رکھا گیا اور لوگوں کا کاروبار تباہ کیا گیا۔ پورے اسلام آباد کو 5 دن بند رکھا گیا‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجوزہ آئینی ترمیم کے بارے میں وہ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے،وہ مولانا فضل الرحمان کو سلیوٹ پیش کرتے ہیں، ان کا مولانا فضل الرحمان کے والد صاحب سے بڑا اچھا تعلق رہا ہے، آج عوام کے درمیان مولانا فضل الرحمان کا بڑا مقام ہے اور وہ بھی عنقریب مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کیلئے جائیں گے۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ شیخ زشید صاحب ہر اس شخصیت کے ساتھ ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ اپنا کوئی دیرینہ تعلق بھی نکال لیتے ہیں جو سیاسی طور پر مستحکم ہو۔ مولانا کے بارے میں ان کا تازہ بیان اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ لیکن مولانا شائد بھول گئے ہوں یا وہ در گزر سے کام لے رہے ہوں لیکن ہمیں بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ یہ عمران خان کے ساتھ خیر سگالی کے طور پر مولانا کے بارے میں کس قسم کی گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ فرط جذبات میں ایک موقع پر تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ،’مولانا فضل الرحمن تم مولانا مفتی محمود کے بیٹے بن کر دکھائو‘۔ بہر کیف شیخ صاحب کو یقینا اندازہ ہو گیا ہو گا کہ نو مئی واقعات کے مقدمات کے سلسلہ میںآئندہ پیشی پر ان پر فردجرم عائد کر دی جائے گی شائد آنے والے دنوں میں انہیں مولانا فضل الرحمن کی سرپرستی کی ضرورت پڑے اسی لیے انہوں نے مولانا کے ہاتھ پر بیت کرنا ہی مناسب خیال کیا ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.