ہم کس طرف جارہے ہیں۔؟

128

ہمارے بڑے اکثرکہاکرتے تھے کہ سچ جب تک آتاہے تب تک جھوٹ نے کئی کئی گاؤں اوردیہات اجاڑدیئے ہوتے ہیں مطلب سچ کے آنے یاپہنچنے سے پہلے جھوٹ اپنا کام کر چکا ہوتا ہے۔ ایسا ایک دو نہیں ہزار بلکہ لاکھ بار ہوا ہو گا اور اب بھی روزانہ کی بنیادپراس دنیامیں ہورہاہے۔کسی کویقین نہ آئے تولاہورکے حالیہ واقعہ کوہی دیکھ لیں۔سچ آنے سے پہلے اس واقعہ کے نام پراس ملک میں کیاکچھ نہیں ہوا۔؟ایک جھوٹے اورفرضی واقعے کے نام پرپوری قوم اورملک کو دنیا کے سامنے جس طرح تماشابنایاگیاوہ ہم سب کے سامنے ہے۔اس مصنوعی واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر تو جھوٹ اورکذب کی کوکھ اورفیکٹریوں سے جنم لینے والی پوسٹوں سے ایساتاثردیاگیاکہ جیسے ملک کے تعلیمی اداروں میں بنت حواکی عزت وناموس کی نیلامی کے سوا کچھ ہوتا ہی نہ ہو۔ جھوٹ، فریب، دھوکہ، منافقت اورغلط بیانی یہ توسالوں نہیں صدیوں سے یہاں عام ہے لیکن جدیدسائنس کی ایجادکردہ اس ایک ایک چھٹانک والے موبائل،انٹرنیٹ اور سوشل میڈیانے اس ملک اورمعاشرے میں جھوٹ کے کالے گھوڑے میں جس طرح نئی روح پھونک دی ہے وہ صرف خطرناک نہیں بلکہ انتہائی خطرناک ہے۔ماناکہ موبائل،انٹرنیٹ اورسوشل میڈیاکے ایک دونہیں بہت سے فوائدہیں لیکن معذرت کے ساتھ یہ فوائدان کے لئے ہیں جن کوالف اورب کاکوئی پتہ ہو۔یہ فوائدان لوگوں اورمعاشروں کے لئے ہیں جہاں جہل اور ابوجہل نہیں بلکہ عقل، شعور اور تعلیم کاراج ہو۔ایساملک اورمعاشرہ جہاں اکثریت ہی کاپی پیسٹ اورجاہلوں کی ہووہاں اس موبائل،انٹرنیٹ اورسوشل میڈیاکے فوائدکم اور نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔یہ موبائل،نیٹ اور سوشل میڈیاپلیٹ فارم صرف ہمارے ملک میں نہیں باقی دنیامیں بھی ہیں لیکن یہاں ان کے ذریعے جس طرح چھوٹی چھوٹی اورجھوٹی باتوں، افواہوں و پراپیگنڈوں پرروزانہ قیامت برپاکرکے آسمان سر پر اٹھایاجاتاہے ایساکسی اورملک میں نہیں ہوتا ہو گا۔ جہاں تعزیتی پوسٹوں اورپیغامات پرکمنٹس میں الحمداللہ،سبحان اللہ اورماشاء اللہ لکھاجاتاہواوردل والے لائکس دیئے جاتے ہوں۔جہاں موبائل ونیٹ پر پڑھنے اور شیئر کی جانے والی پوسٹ اور پیغام کا پڑھنے وشیئرکرنے والے کوخودیہ پتہ نہ ہوکہ وہ کیا پڑھ رہا ہے یاکیاشیئرکررہاہے تو ایسے ملک اورایسے معاشرے میں ان سہولیات کے فوائدکم اورنقصانات پھر زیادہ ہی ہوں گے۔ایسے ممالک اورمعاشروں میں موبائل،نیٹ اورسوشل میڈیاسے امن،ترقی اورسکون نہیں پھر تباہی اوربربادی ہی آ سکتی ہے۔ اس ملک اورمعاشرے میں موبائل،نیٹ باالخصوص سوشل میڈیاپرمکمل طور پر ان پڑھ اورپڑھے لکھے جاہلوں کا قبضہ ہے۔فیس بک اور یوٹیوب سمیت کوئی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کھول کردیکھیں توہرطرف جھوٹ، فریب، منافقت، تباہی اوربربادی کا ایک طوفان اٹھتا دکھائی دے گا۔ ایسی افواہیں، جھوٹ اور پراپیگنڈے ان پلیٹ فارم پر چل رہے ہوتے ہیں کہ جسے دیکھ اورسن کرانسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ جوکام زمین پر ہوا ہی نہ ہووہ بھی آپ کوسوشل میڈیاپربریکنگ نیوز، چیخ وپکاراورمرچ مصالحوں سمیت دکھائی دے گا۔ سوشل میڈیاکوملک وملت کے خلاف ہتھیارکے طور پر استعمال کرنے والے اخلاق،شرافت اورشرم وحیا سے دورشیطان کے چیلوں سے ان پلیٹ فارمز پر کوئی محفوظ نہیں۔یہ نہ زندہ انسانوں کوچھوڑتے ہیں اور نہ یہ مرنے والوں کو بخشتے ہیں۔ ہر شریف اورباعزت انسان ان کے نشانے پرہوتاہے۔اپنے ویووز،لائکس اورکمنٹس بڑھانے کے چکرمیں یہ اخلاق اورانسانیت کی تمام حدیں پار کر دیتے ہیں۔یہ چندسیکنڈمیں اچھے بھلے شریف اورعزت دارشخص کوبھی دنیاکے سامنے کنجرکے طورپرپیش کر دیتے ہیں۔اپنی واہ واہ کروانے کے لئے یہ زندہ انسانوں کومردہ ثابت کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ایک نہیں کئی بار ایسا ہو چکا ہے کہ شیطان کے یہ چیلے اپنے سوشل میڈیاچینلزسے کسی شخص یا شخصیت کے مرنے کی خبربریکنگ نیوزکے طور پر ایسے چلا دیتے ہیں کہ جیسے یہ ابھی اس کوکلمہ پڑھاکے آئے ہوں۔لیکن سچ اورحقیقت میں وہ شخص زندہ ہوتاہے اور وہی شخص پھر خود کو زندہ ثابت کرنے کے لئے نہ صرف اسی سوشل میڈیا پر دہائیاں دیتاپھرتاہے بلکہ کئی توہاتھ تک جوڑ کر شیطان کے ان چیلوں کی شرسے پناہ مانگتے ہیں۔ سوشل میڈیاپرکاپی پوسٹوں اورجھوٹ کی کثرت نے ملک اور معاشرے کوتباہ کرکے رکھ دیاہے۔آج کے نوجوانوں اورطلبہ کواب یہ تک معلوم نہیں کہ سچ کسے کہتے ہیں اورجھوٹ کیاہے۔؟سوشل میڈیا کو آنکھیں بند کر کے استعمال کرنے کی وجہ سے سچ اور جھوٹ میں فرق تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ پہلے زمانے میں کوئی بات آگے شیئرکرنے یاکسی اورکوبتانے سے پہلے کئی طریقوں سے اس کی تصدیق اورتفتیش کی جاتی تھی پھر بات اگرسچ ہوتی توتب وہ آگے شیئرکی جاتی لیکن اب فیس بک،ٹوئٹراوریوٹیوب سمیت سوشل میڈیاکے دیگر چینلز و پلیٹ فارم پرجوکچھ سامنے آتاہے وہ سچ ہویاجھوٹ۔؟لوگ اس کی تصدیق اورتفتیش کئے بغیراسے دھڑا دھڑ ایسے آگے شیئر کرتے ہیں کہ جیسے یہ کوئی بہت بڑے ثواب کاکام ہو۔جہلاکی انہی حرکتوں نے پوری قوم کوعذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔ معاشرے میں ہرطرف سنسنی اوربے چینی ہے۔ سوشل میڈیااب وہ بے لگام گھوڑابن چکاہے۔جوکسی بھی وقت کسی پر دوڑ کر اسے پاؤں تلے روند سکتا ہے۔ اس سے کوئی چھوٹامحفوظ ہے اورنہ کوئی بڑا۔ اس سے عام بچاہے نہ خاص۔اب تویہ ایک فتنے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ وہ کونساگناہ،جھوٹ،دجل اور فریب ہے جواس میڈیائی گھوڑے کے ذریعے نہیں ہوتا۔قومی لیڈراورمذہبی رہنماء کیا۔؟ملک کی سلامتی اور قومی اداروں تک کو معاف نہیں کیا جاتا۔ منظم سازش اورمنصوبے کے تحت ہرشخصیت اور ادارے کواس پرنشانہ بنایاجاتاہے۔وہ گناہ اورجرائم جو حقیقت میں ہوئے ہی نہ ہوں۔ سوشل میڈیاکے ذریعے وہ بھی دوسروں کے کھاتے اورگلے میں ڈال کر ایسی فضاء قائم کی جاتی ہے کہ لوگ پھراس جھوٹ کو بھی سچ سمجھنے لگتے ہیں۔سوشل میڈیاکے ذریعے اخلاقی اقدارتباہ ہونے کے ساتھ اوربھی بہت سی معاشرتی برائیاں جنم لے چکی ہیں۔وقت آگیاہے کہ سوشل میڈیاکے اس فتنے سے ملک وقوم کوبچانے کے لئے سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔فیس بک، یوٹیوب اورٹک ٹاک سمیت دیگرسوشل میڈیاپلیٹ فارم وچینلزکے ذریعے جس طرح بے حیائی، جھوٹ، فریب، بداخلاقی اور دیگر گناہ، مسائل اور جرائم فروغ پا رہے ہیں یہ اس ملک اورمعاشرے کے لئے زہر قاتل ہیں۔ ان خرافات پراگراب قابونہ پایا گیا تو مستقبل میں تباہی اوربربادی کے اس طوفان کو روکنا ہرگز آسان نہ ہو گا۔ آج کچھ کچھ لوگ اور چندادارے اس کے نشانہ ہوں گے لیکن کل کواس آگ اورطوفان سے کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔اس لئے جتنی جلد اس طوفان کے آگے بندباندھاجائے اتنا ہی اس میںملک وقوم اورمعاشرے کافائدہ اور بچاؤ ہے ورنہ پھرہاتھ ملنے اورہائے ہائے کرنے کے سواکوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔

تبصرے بند ہیں.