بھوک آداب کے سانچوں میں؟

16

پون صدی سے زائد عرصہ بیت گیا، سمندر کے کنارے آباد شہر کراچی میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ اس طرح دریائے راوی کے کنارے بسنے والے شہر لاہور سے بارشوں کے پانی کو نکالنے کا معاملہ بھی جوں کا توں ہے۔ سمندر بپھر جائے تو خطرے کے سائرن بجا دیئے جاتے ہیں، بادل بپھر جائیں تو کوئی سائرن نہیں بجتا، بارش کی تین روزہ جھڑی بذات خود خطرے کا سائرن سمجھ لی جاتی ہے۔ سابق وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے پانی کی بات نہیں کی یوں جب سے اب تک پانی کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، شدید بارشوں میں پنجاب کے مختلف شہروں میں پانی گھروں میں داخل ہو کر سب کی ایک ہی انداز میں مزاج پرسی کرتا ہے، اب اسے امیروں کی بستی اور غریبوں کی بستی کی تمیز ختم ہو گئی ہے۔
موہنجو ڈارو اور ہڑپہ کی تہذیب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے اس زمانے میں نکاسی آب کا بہترین انتظام تھا، بارش کا پانی کہیں نہ رکتا تھا۔ اس دور میں رہنے والے اس نظام پر فخر کرتے ہوں گے۔ ان کی خوش قسمتی اس دور میں شاپر نہیں تھا، ہوتا تو سارا فخر اور تمام اکڑ نکل جاتی۔ میونسپل کارپوریشن اور کینٹ بورڈ بھی نہیں تھے، دونوں محکمے ہوتے بھی تو ان کے گٹر بند ہوتے، نالے شاپروں، پھلوں اور سبزیوں کے چھلکوں سے بھرے ہوتے۔
ساٹھ کی دہائی میں کراچی میں ٹینکر مافیا تو کیا کوئی بھی مافیا نہ تھا۔ غریبوں کی بستیوں میں ہر گلی کی نکڑ پر ایک نل لگا ہوتا تھا، گلی کے باسی بعد از دوپہر اپنی بالٹیاں ڈول لائن میں لگا جاتے، بعد از سہ پہر نل میں پانی یوں آتا جیسے نئی نویلی دلہن ماں کے گھر جانے کی ضد کرتے ہوئے رو کر دکھاتی ہے۔ ہر گھر کے حصے میں پانی کی ایک بالٹی آتی تھی۔ دوسری باری آنے سے پہلے پانی بند ہو جاتا، پینے کے پانی کیلئے متبادل انتظام کا سہارا لینا پڑتا تھا۔
پانی مشکیزوں میں بھر کر سپلائی کیا جاتا تھا، سستا زمانہ تھا ایک مشکیزہ پانی دو آنے کا ہوا کرتا تھا، ریڑھی پر رکھے چار مشکیزے آٹھ آنے میں دستیاب ہوتے تھے جو پورے گھرانے کے لیے کافی ہوتے تھے۔ اس زمانے میں گھریلو سامان سے لدی ریڑھیاں بھی گلیوں میں نظر آتی تھیں۔ خواتین اور بچوں کی ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہوتی۔ ہر مال آٹھ آنے میں مل جاتا، خواتین اور بچوں کی شاپنگ دو سے تین روپے میں ہو جاتی تھی، وقت کے ساتھ ساتھ ہماری کرنسی اپنی قدر کھوتی رہی اب تو اسے ’’کھوتی کرنسی‘‘ کہا جاتا ہے جو چیز کبھی آٹھ آنے میں مل جاتی تھی اب پچاس یا سو روپے میں ملتی ہے۔ ہر شہر میں دکانیں سٹور کھل رہے ہیں جہاں ’’ہر مال سو روپے میں‘‘ دستیاب ہوتا ہے۔ گورے سمجھتے ہوں گے ہم نے یہ آئیڈیا ان سے لیا وہاں ڈالر سٹور نظر آتے ہیں جہاں ہر مال ایک ڈالر میں ملتا ہے۔ برطانیہ میں ون پائونڈ سٹور ہیں جہاں ایک پائونڈ میں ضرورت کی چیز مل جاتی ہے۔ ’’ون پائونڈ فش‘‘ کافی مشہور ہے۔
یورپ کے ساتھ ساتھ اب مڈل ایسٹ ممالک میں بھی یہ رجحان مقبول ہو رہا ہے۔ بڑے بڑے شاپنگ مالز میں ’’ہر مال دس درہم میں‘‘ دستیاب ہے۔ اسی سوچ کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک سمندر پار بسنے والے پاکستانی نے کراچی میں ایک بہت بڑا سٹور کھولنے کا سوچا، کئی ماہ تک اس کی تیاریاں کی جاتی رہیں، ایسی جگہ کا انتخاب کیا گیا جہاں صارفین آسانی سے پہنچ سکیں، افتتاح کی تاریخ دے دی گئی اور اس کی خوب پبلسٹی کی گئی۔ افتتاح کا وقت سہ پہر تین بجے تھا لیکن لوگوں کی ایک بڑی تعداد دو بجے پہنچ گئی اور لائنوں میں لگ گئی۔ سکیورٹی کا عملہ لائنیں درست کراتا رہا ان سے تلخ جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا لیکن وہ ڈنڈے کے زور پر اپنا کام کرتے رہے۔ تین بجے تک ہزاروں افراد جمع ہو چکے تھے، قطاریں ٹوٹ چکی تھیں۔ بس ایک اژدھام تھا جو کسی کے کنٹرول میں نہ تھا، وقت تین بجے سے کچھ اوپر ہوگیا، شاید مارکیٹنگ سٹاف کی حکمت عملی تھی کہ کچھ اور لوگ پہنچ جائیں تاکہ معاملہ کھڑکی توڑ ہفتہ نظر آئے، ساڑھے تین بجے تو وہاں موجود پسینے میں شرابور لوگوں کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا، بزرگوں کے ساتھ نوجوانوں، بچوں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد بے حال تھی۔ موسمی حبس نے ان کا مزید برا حال کر دیا۔ کچھ نوجوانوں نے سٹور کے داخلی دروازے پر ہاتھ ڈالا۔ شیشے کے دروازے کے دوسری طرف سکیورٹی گارڈ کھڑے تھے، باہر شور بڑھا تو ایک سکیورٹی گارڈ نے ہجوم کو تسلی دینے کیلئے تھوڑا سا دروازہ کھولا وہ کہہ رہا تھا بس صرف چند منٹ اور اس کا جواب کسی نے نہ سنا۔ ہزاروں افراد کا ایک ریلہ آیا اور اپنے زور میں ہر رکاوٹ کو ساتھ لے گیا، شیشے کے تمام دروازے ٹوٹ گئے، سکیورٹی سٹاف نے انہیں روکنے کی کوشش کی نوبت مار کٹائی تک آ پہنچی، درجن بھر سکیورٹی اہلکار ہزاروں کے مجمع کے سامنے نہ ٹھہر سکے، وہ پسپا ہو گئے اب سٹور کی ہر چیز لوگوں کے رحم و کرم پر تھی لوگ چیزوں پر یوں جھپٹے جیسے گدھ مردار پر جھپٹتے ہیں جس کے ہاتھ جو لگا اس نے اٹھایا اور چلتا بنا۔ دس منٹ میں سٹور کی الماریاں خالی ہو چکی تھیں۔ اس کار خیر میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کرتی نظر آئیں۔ الماریاں، کمپیوٹر، ریک اور ہینگر الٹا دیئے گئے۔ سکیورٹی کیمرے سامان آرائش غرضیکہ کوئی شئے سلامت نہ رہی، تمام انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے، سٹور مکمل طور پر لوٹ لیا گیا جہاں ہر مال سو پچاس روپے میں ملنا تھا وہاں ہر مال، مال مفت سمجھ کر لوٹ لیا گیا۔ افتتاحی تقریب کی کوریج کیلئے آئے افراد کسی نہ کسی طرح ان مناظر کو کیمروں سے محفوظ کرتے رہے جو آج سوشل میڈیا کی زینت بنے ہیں۔ ہڑبونگ میں کچھ عورتیں بچے قدموں تلے آ کر زخمی بھی ہوئے لیکن مال غنیمت ساتھ لے جانے کی خوشی میں کسی کو کسی درد نے نہ ستایا، مہنگائی اور بجلی کے اضافی بلوں کے ستائے لوگ اپنے درد لئے سستے سٹوروں کا رخ کرتے ہیں لیکن وہاں بھی اب لوٹ مار کا کلچر جڑ پکڑ چکا ہے شاید اسی صورتحال کے سبب عوام نے سوچا آج وہ ایک سٹور کو لوٹ لیں تو یہ جرم نہ ہوگا، مہنگائی نے جو تباہی مچائی ہے اس سے بہت پہلے ایک تباہی آئی تھی جس میں ’’ایک کے ساتھ ایک مفت‘‘ کی پیشکش کی جاتی تھی، اب ہماری ’’کھوتی کرنسی‘‘ میں اتنی جان نہیں رہی کہ عام آدمی اپنی ضرورت کی کوئی ایک چیز بھی خرید سکے۔ پس اب ایک سٹور کے لٹنے پر بات ختم نہیں ہوگی، آٹے کے ٹرک لوٹنے کے واقعات تو عرصہ دراز سے ہو رہے ہیں۔ کہنے والے تو پون صدی پہلے کہہ گئے تھے۔ مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے۔ بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی۔

تبصرے بند ہیں.