اسے بدقسمتی نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ ہمارے ہاں بڑھتے ہوئے پولرائزڈ سیاسی منظر نامے میں، آزادی اظہار اور سول ڈسکورس کو برقرار رکھنے کے درمیان توازن بری طرح بگڑ رہا ہے۔ جمہوریت میں، اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے گالی گلوچ، بدسلوکی اور دھمکی آمیز زبان کا استعمال اور حکومت کی جانب سے سخت ردعمل جدید سیاسی طرزعمل کی خصوصیت بن چکا ہے۔
ویسے تو ہمارا ملک دھائیوں سے ایک ’نازک موڑ ‘ سے گزر رہا ہے اور گزرتا ہی چلا جا رہا ہے ۔ سیاسی عمل کا یہ حال ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی اگر آج اقتدار میں ہے تو کل اپوزیشن میں ہوتی ہے لیکن مجال ہے کہ حکومت میں موجود جماعتیں اس بات کا خیال رکھیں کہ کل کو انہیں بھی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا پڑ سکتا ہے اور اپوزیشن والے اس حقیقت کا خیال کریں کہ کل کو وہ حکومت میں ہوں گے تو اس وقت کے اپوزیشن والے ان کا اسی طرح ناک میں دم کر رہے ہوں گے، توکیوں نہ آج ہی اچھی روایات قائم کر کے کل کی جمہوری صورتحال کو صحتمند بنانے کی کوشش کی جائے؟ اس صورتحال میں کیا ہی اچھا ہو کہ تمام سیاسی پارٹیاں مل کر ایک ایسا لائحہ عمل اختیار کریں کہ ملک کم از کم اس’ نازک موڑ‘ سے تو آگے نکل ہی جائے۔
اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے تو یہ کہ وہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کو چیلنج بھی کریں اور برسراقتدار پارٹی یا اتحاد کو جوابدہ ٹھہرانے کی کوشش بھی ضرور کریں لیکن کسی بھی قسم کے منفی ہتھکنڈوں اور سازشوں سے اجتناب برتیں۔،ہم نے دیکھا ہے ایک سیاسی پارٹی جو ماضی میں مرکز اورتین صوبوں میں اپنی حکومت قائم کر چکی ہے اور اس وقت بھی ایک صوبہ میں ان کی حکومت قائم ہے کی مرکزی قیادت سیاسی درجہ حرارت کو کسی بھی طور کم نہیں ہونے دینا چاہتی اور وہ ہر صورت میں اسے بڑھائے رکھنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے وہ اپنے اظہار خیال میں اشتعال انگیزی ، دھمکیوں اور گالی گلوچ کا سہارا لیتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ ان زبانی حملوں میں ایک طرف تو اخلاقیات کی دھجیاں بکھیری جا تی ہیں تو دوسری طرف سیاسی مخالفت کی آڑ میں جمہوریت کی جڑیں بھی کھوکھلی کی جا رہی ہیں۔ مزید یہ کہ سیاسی جلسوں اور مباحثوں میں سیاسی معاملات پر بات کرنے کے بجائے ذاتی معاملات اور لوگوں کی شکل و صورت اور جسمانی خدوخال پر بات کی جاتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ ان تمام حرکات کا مقصد عوام میں خوف، بداعتمادی اور غصہ پیدا کرکے حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہو لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس قسم کے طرزعمل کے نتیجہ میں شائد کچھ وقتی فائدہ تو حاصل کیا جا سکے لیکن اس سے ملک کے جمہوری نظام کو شدید نقصان پہنچے گا۔ عوام کو بھی اب اس قسم کے کرداروں کو پہچان لیناچاہیے اور نا صرف ان کی سیاسی پیروی ترک کر دینی چاہیے بلکہ ان کا سوشل بائیکاٹ بھی کرنا چاہیے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بے لگام سوشل میڈیا نے سیاست میں بدتمیزی، دھمکیوں اور اخلاقی گراوٹ کو بڑھاوا دیا ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ اس قسم کا رویہ اختیار کرنے والے سیاستدان آج مقبولیت میں کافی آگے ہیں۔ جیسے جیسے سیاسی جماعتیں نظریاتی طور پر زیادہ تقسیم ہوتی جا رہی ہیں، امن اور تعمیری بات چیت کی خواہش کم ہوتی جا رہی ہے اور دھمکیاں، الزام تراشیاں اور گالی گلوچ پارٹی میں مقبولیت اور حمایت حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے۔
بعض نفسیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ سیاسی عمل میں جارحانہ رویوں کی پذیرائی کی ایک بڑی وجہ عوام کی سیاسی عمل سے مایوسی بھی ہے۔ اگر ماہرین کہتے ہیں تو یقینا یہ اندازہ درست بھی ہو گا۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیوں کی بھی ناکامی ہے اور انہیں ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اس صورتحال سے نمنٹنے کے لیے کسی مشترکہ لائحہ عمل پر غور کرنا چاہیے۔
ایک طرف تو اپوزیشن میں موجود سیاسی پارٹیوں کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے تودوسری طرف حکومتی ردعمل میں بھی کوئی سیاسی پختگی نظر نہیں آتی۔ وہ اختلاف رائے کو دبانے کے لیے جارحانہ حکمت عملی اپنا رہے ہیں ۔ یہ ردعمل قانونی کریک ڈاؤن سے لے کر ریاستی مشینری کے بے جا استعمال تک ہے۔اس کے علاوہ حکومت حزب اختلاف کی شخصیات کو بغاوت، ہتک عزت یا تشدد پر اکسانے جیسے الزامات میں گرفتار کر کے انہیں خاموش کرنے کے لیے قانونی نظام کا استعمال کر رہی ہے۔
اگرچہ یہ کارروائیاں اکثر نظم و نسق کو برقرار رکھنے اور قومی سلامتی کے تحفظ کے بہانے جائز قرار دی جاتی ہیں، لیکن یہ جمہوری اصولوں، جیسے کہ آزادی اظہار اور پرامن اجتماع کے حق کو مجروح کر رہی ہیں۔ چونکہ ایسی صورتحال میں شیطان اور اس کے چیلے بھی پوری طرح سے متحرک ہوتے ہیں اور کسی بھی صورتحال کا بھر پور انداز میں فائدہ اٹھانے کے انتظار میں رہتے ہیںاس لیے ایسی صورتحال میں اس بات کا خطرہ بھی موجود رہتا ہے کہ ریاست کی طرف سے طاقت کا استعمال اپوزیشن کی تحریکوں میں بنیاد پرستی کا باعث نہ بن جائے۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے گالی گلوچ کا بڑھتا ہوا رجحان اورجواب میں حکومت کا طاقت کا بے دریغ استعمال جمہوریت اور سول گورننس کے استحکام کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں فریق معاملہ کی سنگینی کو سمجھیں اور تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کریں۔حزب اختلاف کی جماعتوں کو چاہیے کہ مضبوط اختلاف تو ضرور کریں اور قومی اہمیت کے معاملات پر تگڑے طریقے سے آواز بھی بلند کریں لیکن باہمی احترام اور قانون کی پاسداری کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں۔ جب کہ حکومت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ آمرانہ ہتھکنڈوں کا سہارا لیے بغیر قانون کی حکمرانی کو برقرار اور جمہوری نظام کو رواں دواں رکھنے کی کوشش کرے۔ ہاں البتہ کوئی کسی بھی سیاسی لیڈر یا سرکاری اہلکارکے ملکی مفاد کے خلاف کارروائیوں کا حصہ بننے یا ملک دشمن عناصر کے ساتھ رابطہ رکھنے کے ٹھوس شواہد موجود ہوں تو اس بات سے قطع نظر کہ عوام میں اس کی یا اس کی پارٹی کی کتنی مقبولیت ہے یا وہ کتنا بڑا افسر ہے یا رہ چکا ہے اسے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ بلاشبہ سیاسی اختلاف کا مطلب ذاتی دشمنی ، جبر یا ملک دشمنی نہیں ہے لہٰذا ناصرف تمام تر سیاسی قیادت بلکہ عوام کو بھی اس قسم کے رویوں کو ترک کر کے جمہوری اقدار کے تحفظ اور سیاسی تنازعات کے پرامن حل کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.