عالمی یوم حجاب فلسطین کی با حجاب مجاہدات کے نام

34

صدارتی تمغہ ٔ حسن کارکردگی غزہ کی ایک ماں اپنے شہیدبیٹے اور بیٹی کی نعش سے لپٹی ہوئی ہے۔ان کا پورا جسم سیاہ عبائے سے ڈھکا ہوا ہے۔ اسکارف اوڑھنے سے سر کے بال بھی نظر نہیں آ رہے۔آنکھوں سے آنسو رواں اور زبان پر الحمدللہ اور اللہ اکبر کے الفاظ ہیں۔ایک ماں کے لئے اپنے جگر گوشوں کی دائمی جدائی آسان نہیں ہوتی۔غزہ کی ساری مائیں‘بہنیں اور بیٹیاں ایسی ہی نظر آ رہی ہیں۔وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے گھر کے شہدا ء کو سفر آخرت پر روانہ کر رہی ہیں۔ اس مشکل وقت میں بھی یہ خواتین اورنوجوان لڑکیاں عبائے میں با حجاب نظر آتی ہیں۔سخت اور مشکل ترین حالات میں بھی ان حوصلہ مند اور بہادر خواتین نے حیا اور پاک دامنی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔7اکتوبر2023ء سے غزہ پر اسرائیل کی وحشت ناک بربریت اور دہشت گردی جاری ہے جس میں لاکھوں افراد بے گھر‘ہزاروں شہید اور معذور ہو چکے ہیں۔ہزاروں مائیں اپنے جگر گوشوں کو اپنے ہاتھوں کفن میں لپیٹ چکی ہیں۔آج دنیا بھر میں عالمی یوم حجاب منایا جا رہا ہے ۔آج کا دن فلسطین کی بہادربا حجاب مجاہدات کے نام ہے جو اس مشکل وقت میںبھی مسلمان خواتین کے لئے حیا کا عملی نمونہ بنی ہوئی ہیں۔جو اسرائیل کے ظلم ‘ سفاکیت اور بدترین انسانی المیے کا شکار ہیں ۔اسرائیل کی دہشت گردی نے فلسطینی مسلمانوں کا ایمان مزید مضبوط کر دیاہے۔ وہ بہادری اورقوت ایمانی سے اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کا مقابلہ کررہی ہیں۔ان حالات میں بھی انہوں نے حیا کا دامن تھاما ہوا ہے جو مسلمان خواتین کے لئے قابل تقلید ہے۔
لاہور میں منعقدہ ایک انٹرنیشنل وومین کانفرنس میں مختلف اسلامی ممالک کی رہنما خواتین سے ملاقات کرنے کا موقع ملا۔کانفرنس میںفلسطین کی خواتین کی رہنما عفت الجابری بھی شریک تھیں۔انہوں نے عبایا اور اسکارف پہنا ہوا تھا۔ کانفرنس سے خطاب کے دوران انہوں نے فلسطین پر اسرائیل کے جبری قبضے‘فلسطین کی صورتحال اور خواتین کی مشکلات اورجدوجہد بیان کی ۔ راقم الحروف سے گفتگو کے دوران عفت الجابری نے بتایا کہ یہودیو ں کے مظالم کے باعث مسلمان فلسطینی خواتین بہت مشکلات اور مسائل کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں حجاب اوڑھنے والی خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔حجاب کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ۔ اس سے خواتین محفوط ہو جاتی ہیں ۔حجاب ترقی کرنے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ انہوں نے کہا کہ ا س وقت فلسطین سمیت دنیا بھر میں باپردہ مسلمان خواتین انجینئرنگ‘ میڈیکل اور میڈیا سمیت اہم شعبوں میں بہت اعتماد کے ساتھ نمایاں کام کر رہی ہیں۔ حجاب مسلمان خاتون کی اصل خوبصورتی ہے ۔گفتگو کے دوران وہ فلسطین کی آزادی کے لئے بہت پر امید نظر آئیں۔ان کا کہنا تھا کہ فلسطین انشا اللہ ضرور آزاد ہو گا۔

حجاب کا عالمی دن ہر سال 4ستمبر کو منایا جاتا ہے۔11دسمبر2003ء میںفرانس میں حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ ایک کمیٹی ایک سرکاری قانون میں فرانس کے تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں مسلمان طالبات کے اسکارف اوڑھنے پر پابندی لگا دی۔قانون میں کہا گیا کہ تعلیمی اداروں میں کسی طالب علم کو کوئی دینی علامت لے کر آنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔فرانسیسی حکومت کے اس قانون میں اسلام میں عورت کے لئے پردے کی فرضیت کو نظر انداز کر کے اسے بے پردگی کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی گئی ۔حجاب پر پابندی کا یہ قانون نافذ ہونے کے بعد اس پر تمام دنیا کے مسلمانوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ۔2004 ء میں لندن کے مئیر لونگ اسٹون نے لندن میں مسلمانوں کی تنظیم ’’اسمبلی فار دی پروٹیکشن آف حجاب‘‘ کے زیر اہتمام پوری دنیا سے مسلمان علما ء اور اسلامی تحریکوں کے سربراہوں کی ایک کانفرنس منعقد کی جس میں فرانسیسی حکومت کی جانب سے حجاب پر پابندی اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کے خلاف متحدہ اور منظم جدو جہد کرنے اور ہر سال 4 ستمبر کو عالمی یوم حجاب منانے کا فیصلہ کیا گیا ۔جس کا مقصد خواتین میں حجاب کا شعور پیدا کرنا اور مغربی معاشرے میں حجاب کے خلاف بنائے گئے قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کرنا تھا۔2004ء سے ہر سال 4ستمبر کو عالمی یوم حجاب بھر پور طریقے سے منایا جاتا ہے۔اس موقع پر منعقدہ تقریبات میںحجاب کی اہمیت اورافادیت بیان کی جاتی ہے۔خواتین ایک دوسرے کو حجاب کے تحائف دیتی ہیں۔یوم حجاب منا کر مسلمان خواتین اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں پردے کے احکامات دے کر عورت کو محفوظ کر دیا ہے۔حجاب مسلمان خاتون کی عزت ،وقار، حفاظت اور اس کے شرم و حیا کی پہچان ہے۔دنیا بھر میں حجاب کرنے والی مسلمان خواتین میں فلسطین کی وہ خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے انتہائی مشکل حالات میں بھی با حجاب رہ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ حجاب اللہ تعالیٰ کا حکم اوربحیثیت مسلمان عورت ان کی پہچان ہے۔
غاصب صہیونیوں کے خلاف مزاحمت میں فلسطینی با حجاب خواتین کا کردار سب سے زیادہ واضح ہے۔انہوں نے خود کو نمونے کے طور پر پیش کیا ہے۔ فلسطین کی آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے جنہوں نے باحجاب ہو کر سیاسی‘ دفاعی اور ثقافتی میدانوں میں نمایاںکردار ادا کیا ہے۔انشا اللہ وہ یہ کردار ادا کرتی رہیں گی۔
اسرائیلی حکومت گزشتہ 75 سالوں سے غزہ میں خواتین اور بچوں کے قتل عام اور فلسطینیوں کی جبری ہجرت کے جرم میں ملوث ہے۔ غزہ کئی سالوں سے انتہائی شدید محاصرے میں ہے جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے۔ غزہ کی مجموعی آبادی 22 لاکھ ہے جس میں سے 49 فیصد خواتین پر مشتمل ہے ۔ان خواتین میں سے اکثریت جوان لڑکیوں اوربچیوں کی ہے ۔ اقوام متحدہ کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں حاملہ خواتین صہیونی حملوں کے دوران شہید یا زخمی ہوگئی ہیں۔غزہ کے مظلوم بچے اور خواتین بھی بے دردی سے نشانہ بنائے جارہے ہیں۔پناہ گزیں کیمپوں ‘ اسپتالوںاور اسکولوں پر بھی صیہونی افواج کی گولہ باری جاری ہے۔اس مشکل ترین صورتحال کے باوجود غزہ میں بے گھر ہونے والی خواتین کا ایک گروہ جنگ سے متاثر ہونے والوں کے لئے کھانا پکاکر خدمت انجام دے رہا ہے۔فلاحی خدمات انجام دینے والی یہ خواتین با حجاب ہیں۔بعض خواتین کئی سالوں سے مسجد اقصیٰ کے دفاع میں مشغول ہیں۔قرآن اور دنیوی علوم پڑھانے والی یہ خواتین مسجد اقصیٰ میں حاضری دیتے ہوئے قرآن کا درس دیتی ہیں۔ آج دنیا بھر میں حجاب کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔اس موقع پر ہمیں ان فلسطینی خواتین کو نہیں بھولنا چاہیے جوتقریباً گیارہ ماہ سے بدترین اسرائیلی مظالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انسانوں پر انسانوں کے اس بدترین تاریخی ظلم پر عالمی اداروں اور مسلم امہ کی خاموشی کئی سوالات کھڑے کررہی ہے۔آج کا دن مسلمان خواتین کے لئے حجاب کی اہمیت و ضرورت کا احیا کرنے کا دن ہے۔اس موقع پر منعقد ہونے والے پروگراموں میں غزہ اور پورے فلسطین کی مشکل میں گھری ہوئی مسلمان خواتین بہنوںکے لئے خصوصی دعائیں کرنے ‘اسرائیل کا سیاسی و معاشی بائیکاٹ کرنے اور ان خواتین کی مالی مدد کرنے کا عملی عہد کرنا چاہئے۔

تبصرے بند ہیں.