سونامی ایک عذاب

22

تحریک انصاف کا ’’سونامی‘‘ نام رکھنے والے نے بھی کیا کمال کا نام رکھا، سونامی کے جس سمندر عذاب اور نہر کذاب میں پہلے سادہ لوح عوام کو غوطے دیئے جاتے تھے آج عذاب و کذاب کے اسی نہر و سمندر میں خود پی ٹی آئی والے بھی غوطوں پر غوطے کھانے پر مجبور ہیں۔ یہ سونامی ہی تو ہے جس نے پارٹی چیئرمین سمیت سب کھلاڑیوں کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ قیدی نمبر آٹھ سو چار تو اسی سونامی میں بہہ کر اڈیالہ جیل پہنچے۔کہنے والے کہتے ہیں کہ سونامی کی رفتار اگر اسی طرح جاری رہی تو وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سمیت کئی اور کھلاڑی بھی اڈیالہ میں اپنے کپتان کے پڑوسی بن جائیں گے۔ اڈیالہ میں قید عمران خان کی گرفتاری پر تحریک انصاف کے بہت سارے نادان کارکن سیاسی مخالفین کو موردالزام ٹھہرا کر بُرا بھلا کہہ رہے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ کپتان کے قیدی نمبر آٹھ سو چار بننے میں جتنا ہاتھ اور کردار خود کپتان اور ان کے سینئر کھلاڑیوں کا ہے اتنا کسی اور کا نہیں۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کو باہر سے کسی دشمن اور مخالف کی ضرورت نہیں۔ ویسے خان کے دل میں جیل سے نکلنا ہے یا نہیں پر خان کے جان نثاروں کے دل میں خان کا جیل سے باہر نکلنا بالکل بھی نہیں۔ تب ہی تو یہ چلتے پھرتے زبان سے آگ برسا رہے ہیں۔ ریڈ لائن کا باجا لیکر پہلے یہ کہتے رہے کہ کوئی کپتان کو ہاتھ لگا کر دکھائے، جب ہاتھ لگا تو پھر کہا۔ ہمارے لیڈر کو کوئی پکڑ کر دکھائے اور جب خان کو پکڑ لیا گیا تو پھر کہا کوئی ہمارے صاحب کو جیل میں ڈال کر دکھائے۔ اب جلسوں اور جلوسوں میں کہا جا رہا ہے کہ کوئی ہمارے خان کو پندرہ دن سے زیادہ جیل میں رکھ کر دکھائے۔ وہی پرانی بڑھکیں، وہی روایتی و عادتی گالم گلوچ۔ معلوم نہیں یہ مخلوق آخر چاہتی کیا ہے۔؟ ان کی انہی حرکات و سکنات کو دیکھ کر اکثر لوگوں کو چادر والے میراثی کا وہ واقعہ یاد آنے لگتا ہے۔ کہتے ہیں ایک میراثی نے سردیوں کیلئے کہیں نئی گرم چادر لی اور کندھے پہ رکھ کر گائوں کی چوپال میں جا بیٹھا۔ گاؤں کے نمبردار نے چادر دیکھی تو اپنے بیٹے کی بارات میں استعمال کرنے کے لیے مانگ لی۔ میراثی نے خوشی خوشی سے چادر نمبردار کو دے دی۔ نمبردار کے بیٹے کی بارات گائوں سے نکلی تو چادر دلہے کے کندھے پر تھی۔ بارات کو دیکھ کہ ایک شخص نے پوچھا بارات کس کی ہے؟ میراثی جھٹ سے بولا۔ بارات نمبردار کی ہے پر چادر میری ہے۔ چودھری کے لوگوں نے میراثی کی دھلائی کر دی کہ یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی؟ بارات تھوڑی اور آگے گئی تو سامنے آتے ایک اور شخص نے پوچھا بارات کس کی ہے؟ میراثی جلدی سے بولا بارات نمبردار کی ہے اور چادر بھی انہی کی ہے۔ ایک دفعہ پھر پھینٹی پڑی کہ تو نے تو اس طرح بول کر لوگوں کو چادر کے بارے میں جان بوجھ کر شک میں ڈال دیا۔ اب جو تیسری مرتبہ راستے میں پھر کسی نے پوچھا کہ اتنی شاندار بارات کس کی ہے؟ تو میراثی نے پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بڑا شاندار جواب دیا کہ بارات تو نمبرداروں کی ہے لیکن چادر کا مجھے بالکل بھی نہیں پتہ کہ کن کی ہے۔ میراثی کو پھر مار پڑی کہ اس معاملے میں آئندہ منہ کھولنے کی ضرورت نہیں۔ بارات پھر چل پڑی کچھ دور جا کے ایک بزرگ کھڑے تھے۔ انہوں نے بھی پوچھ ہی لیا کہ بارات کس کی ہے؟ میراثی سسکتے ہوئے بولا مجھے بارات کا پتہ ہے اور نہ ہی چادر کا۔ لگتا ہے اس میراثی کی طرح کپتان کے یہ کھلاڑی بھی عادت سے کچھ زیادہ ہی مجبور ہیں۔ جس طرح کے حالات سے یہ گزرے ان حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ اپنی زبانیں بند رکھتے مگر افسوس یہ تو اس میراثی سے بھی دو نہیں پورے سو قدم آگے نکل رہے ہیں۔ سیاسی معاملات دھونس، دھمکیوں اور گالم گلوچ سے حل نہیں ہوتے۔ سیاست میں فقط گالیاں اور دھمکیاں نہیں دی جاتیں بلکہ اپنی سنانے کے ساتھ دوسروں کی بھی سننا اور ماننا پڑتی ہے پھر اگر پاس پورے ایک صوبے کی حکومت بھی ہو تو ایسے میں ذمہ داریاں ڈبل سے بھی ٹرپل ہو جایا کرتی ہیں۔ ہم تو پڑھتے اور سنتے تھے کہ وزیراعلیٰ کسی ایک پارٹی یا گروپ کا نہیں ہوتا بلکہ وزیراعظم کی طرح وزیراعلیٰ بھی سب کا ہوتا ہے۔ اے این پی کے دور حکومت میں جب امیر حیدر خان ہوتی خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ تھے یار دوست مذاقاً کہاکرتے تھے کہ لوگوں کا وزیراعلیٰ ہوتا ہے اور ہمارا ہوتی ہے۔ یقین جانیں وہ ہوتی اس ’’ہوتا‘‘ والے سے ہزار نہیں بلکہ لاکھ درجے بہتر تھے۔ گفتگو میں نرمی، الفاظ میں مٹھاس اور شخصیت میں عاجزی کے ساتھ عوام اور صوبے کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ بھی وہ ساتھ لائے تھے۔ بلا کسی شک و شبہ کے ہوتی نے اپنے دور میں کئی تاریخی اور ریکارڈ کام کیے۔ وہ کبھی صرف عوامی نیشنل پارٹی کے وزیراعلیٰ بن کر آتش فشاں نہیں بنے۔ آج خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ صرف پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ بن کر اپنے ساتھ کپتان کے پاؤں پر بھی کلہاڑی مار رہے ہیں۔ ایک صوبے کی حکومت یہ کوئی معمولی شے نہیں۔ پی ٹی آئی والے چاہتے تو اس حکومت سے اپنے بند راستے کھولنے کے ساتھ اور بھی بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے۔ جس طرح ماضی قریب میں دو صوبوں کے اندر بنی بنائی حکومتیں ختم کر کے غلطی کی گئی تھی اسی طرح خیبر پختونخوا میں ایک بار پھر اپنی حکومت اور طاقت کو جان بوجھ کر ضائع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جیسے کپتان ہیں ویسے ہی تکبر، غرور، ضد، انا اور ہٹ دھرمی سے لیس کھلاڑی انہیں ملے ہیں۔ موقع، مناسبت اور حالات کو کوئی نہیں دیکھتا۔ سب منہ سے آگ پھینک رہے ہیں۔ ایک دو بھی اگر آگ پھینکنے کے بجائے آگ بجھانے اور معاملات سلجھانے والے ہوتے تو پی ٹی آئی والے آج دربدر نہ ہوتے۔ سونامی نے پہلے ملک اور قوم کا بیڑا پار کیا، اب سونامی کپتان اور اس کے کھلاڑیوں کا بیڑا پار کرنے میں لگا ہوا ہے۔ کپتان اور کھلاڑی اگر اسی راستے کے مسافر رہے تو پھر ان کی زبانوں سے آگ نکلنے کے ساتھ قید و بند، پکڑ دھکڑ اور لاٹھی چارج سمیت دیگر بلائیں و ادائیں بھی ان کا اسی طرح پیچھا کریں گی۔ سونامی کے ہوتے ہوئے یہ لاکھ بھی چاہیں تب بھی یہ حالات کی بدبختی اور اپنی بدقسمتی سے جان چھڑا نہیں پائیں گے۔ اس لیے کپتان اور کھلاڑیوں کو سیاسی مخالفین سے پہلے اس ’’سونامی‘‘ سے جان چھڑانا چاہیے جس سونامی نے کپتان اور کھلاڑیوں کو اس اندھیرے تک پہنچا دیا ہے۔

تبصرے بند ہیں.