ٹیکس چوروںکے نام

98

ہمارے کاروباری اور صنعتی طبقہ اس وقت تاجر دوست سکیم کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور میں ان کے ساتھ ہوں۔ یہ درست ہے کہ اس میں آمدن کے ذرائع کے تعین کے لئے غیر حقیقی اور مشکل طریقہ کار دئیے گئے ہیں جیسے کسی علاقے میں کسی دکان یا دفتر کی جگہ۔ یہ امر درست ہے کہ کسی بھی کاروبار یا دفتر کی جگہ سے اس کی حقیقی آمدن کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ مال روڈ پر ایک جیسی دکانوں میں بیٹھے دو کاروباری حضرات میں سے ممکن ہے ایک روزانہ کا لاکھ کما رہا ہو اور دوسرا محض دس ہزار۔ ہمارے تاجردوستوں کی یہ بات بھی درست ہے کہ پہلے ہی مرحلے میں گرفتاریوں اور کاروبار کو بند کرنے کے اختیارات بھی نامناسب ہیں۔ اس سے پہلے کئی دوسرے مرحلے ہو سکتے ہیں جیسے کچھ نوٹسز، کچھ جرمانے۔ تیسری یہ بات بھی درست ہے کہ جو بھی فیصلے ہونے چاہئیں وہ مشاورت سے ہونے چاہئیں اور مجھے کہنا ہے کہ اس سلسلے میں نعیم میر اور ان کے ساتھی تاجروں کو زیادہ متحرک کردار ادا کرنا چاہئے تاہم یہ بات غلط ہے اگر کئی تاجر سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کاشف چوہدری سے اجمل بلوچ تک سب کو اپنے کاروباروں کو اہمیت دینی چاہئے، سیاست دوسری ترجیح ہونی چاہئے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ تاجر دوست سکیم میں موجود مشکلات کی وجہ سے یہ ہڑتال کامیاب ہوئی ورنہ جماعت اسلامی الٹی ہو کے سیدھی بھی ہوجائے تو وہ ہڑتال نہیں کروا سکتی کیونکہ اس کا تاجر ونگ بہت کمزور ہے۔ کاشف چوہدری بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ تنظیم تاجران کی کامیابی، جماعت اسلامی کی مرہون منت نہیں ہے۔ اس پورے پیرا گراف کا پیغام صرف اور صر ف یہ ہے کہ کاروبار کو سیاست سے الگ رکھا جائے ۔

میں نے بہت سارے تاجرو ںکو سنا ہے خاص طور پرخالد پرویز بٹ، جن کی ساری عمر ہی تاجر سیاست میں گزر گئی ہے۔ وہ مجھے بتا رہے تھے کہ انہوں نے پرویز مشرف ، آصف زرداری، نواز شریف، عمران خان سمیت ہر دور میں ہڑتال کی ہے تو میں نے انہیں ہنستے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ہر دور میں ہی ٹیکس کے مخالف رہے ہیں۔ جب میں جماعت اسلامی پنجاب کے جنرل سیکرٹری نصر اللہ گورایہ سے پوچھ رہا تھا کہ آپ کہتے ہیں کہ سرکاری ملازمین پر ٹیکس کا بوجھ کم کیا جائے تو کیا ایک لاکھ روپے پر اڑھائی ہزار روپے ٹیکس زیادہ ہے، محض اڑھائی فیصد، تو بتا بھی رہا تھا کہ ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے دس فیصد پر بھی نہیں ہیں جبکہ مہذب اور جدید ریاستیں اس وقت تیس سے چالیس فیصد پر پہنچی ہوئی ہیں۔ مجھے اپنا استنبول کا وزٹ یاد آ گیا۔ وہاںا ٓباد پاکستانیوں نے مجھے بتایا کہ اسی اور نوے کی دہائی تک استنبول میں آدمی کے قد سے بھی اوپر تک کوڑے کے ڈھیر ہوتے تھے مگر اس کے بعد نجم الدین اربکان سے طیب اردگان تک، سب سے ٹیکس لگائے اور سسٹم بہتر بنایا۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ شریف فیملی اس سسٹم کو بنانے اور چلانے کی اہلیت رکھتی ہے اوراس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس وسائل ہوں۔ یہ وسائل قرضوں سے لانے ہیں یا ٹیکس سے، فیصلہ قوم نے کرنا ہے۔ ہم اس وقت پچیس کروڑ کی قوم ہیں اور ہمارے ٹیکس فائلرز کی تعداد صرف 35ہزار ہے،ا ن میں سے ایک تہائی ملازمین ہیں جن کا ٹیکس حکومت تنخواہ لیتے ہی کاٹ لیتی ہے۔ دوسرے ان میں ایک تہائی زیرو پر فائلنگ کرتے ہیں یعنی کسی ضرورت کے تحت فائلر بنناہے ورنہ وہ ڈائریکٹ ٹیکس ایک روپے کا بھی نہیں دیتے اور ان میں سے صرف ایک تہائی باقاعدہ ٹیکس دینے والے ہیں۔

میں جب اپنی سڑکوںپر دوڑتی گاڑیوںکو دیکھتاہوں۔ علامہ اقبال ٹاؤن سے فیصل ٹاؤن، بحریہ سے لیک سٹی اور ڈیفنس تک بنے ہوئے بنگلے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ہم ٹیکس چوروں کی قوم بن کے کیوں رہ گئے ہیں، ہمارے ضمیر مردہ کیوں ہیں۔میں ایف بی آر کو بھی دیکھتا ہوں تو اس کی ٹیکس جمع کرنے کی صلاحیت نچلی سطح پر بہت کمزور نظر آتی ہے اور دوسرے اس میں کرپشن کی بہت زیادہ شکایات ہیں۔ وہ الٹے سیدھے فارمولے لاتا رہتا ہے تاکہ سیاسی حکمرانوں کو کسی نہ کسی طبقے سے لڑائے رکھے۔ مجھے حکومت سے کہنا ہے کہ وہ نہ تاجردوست سکیم لائے اور نہ ہی کوئی پروفیشنل ٹیکس قسم کی شے۔ وہ بہت سادگی کے ساتھ صرف اور صرف انکم ٹیکس لگائے یعنی ہر وہ شخص جو شناختی کارڈ رکھتا ہے اوراس کے ساتھ بینک اکاونٹ بھی تو وہ فائلر ہے۔ حکومت پچاس ہزار سے اوپر کی ہر کیش ٹرانزیکشن پر پابندی لگادے ، اسے غیر قانونی قرار دے دے چاہے وہ تنخواہ کے لئے ہو یا کسی دوسرے معاوضے کے طور پر۔ مجھے ان سکیموں کی ہی مخالفت نہیں کرنی بلکہ اسے مزید سادہ کرتے ہوئے کہنا ہے کہ فائلر اور نان فائلر کی اصطلاح ہی ختم کر دی جائے کہ صرف وہی شخص کسی کاروباری معاہدے کے لئے اشٹام خرید سکتا ہے جو اپنے ذرائع آمدن کو ڈیکلئیر کرے یعنی اگر کسی کی آمدن ہی نہیں تو اسے بارہ سو یا تین ہزار کا اشٹام خریدنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ وہی شخص گاڑی رجسٹرڈ اور مکان، پلاٹ ، دکان رجسٹری کروا سکتا ہے، وہی شخص کمرشل ہی نہیں بلکہ گھریلو بجلی کا کنکشن لگوا سکتا ہے، وہی شخص پاسپورٹ بنوا سکتا ہے جس کے ذرائع آمدن ڈیکلئیرڈ ہیں۔اس ڈیکلئیریشن کو بھی آسان کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بندہ بینک اکاونٹ کھلوانے جائے تو وہاں کا افسر اس کا ڈیکلئیریشن شامل کر دے یا کوئی شخص کسی جگہ نوکری کرتا ہے تو اس کا دفتر اسے ظاہر کر دے ، اسی طرح بازار میں لڑکوں، لڑکیوں کو تھوڑی بہت تربیت کے ساتھ لاگ ان دے دئیے جائیں اور وہ سو، دوسو روپے لے کر آئی ڈی کے مطابق آپ کی پروفائل پر کسی بھی جائیداد کی خریدار ی یا فروخت کا ایڈیشن کر سکیں۔ اس سے آپ روزگار بھی جنریٹ کریں گے۔

معاملہ بہت سادہ ہے کہ ہر بندہ جو کماتا ہے اس پر ٹیکس ادا کرے۔ وہ اپنی آمدن کے ذرائع خود ڈیکلئیر کرے جیسے مہذب ریاستوں میں ٹیکسی ڈرائیور تک فائلر اور ٹیکس دہندہ ہوتے ہیں۔اگر کسی کی آمدن پچاس ہزار ماہانہ سے کم ہے تو وہ اس کا ڈیکلریشن دے دے اور اس امر کے لئے تیار رہے کہ کسی وقت اس کی چیکنگ اور آڈٹ ہو سکتا ہے۔ آج کی دنیامیں یہ ممکن نہیں رہا کہ ٹیکس کے بغیر ریاست کو چلایا جا سکے ۔سچی بات یہ ہے کہ ساڑھے چار لاکھ روپے تنخواہ 77ہزار500 کا ٹیکس ہے لیکن میرے علاقے کا نان چنے بیچنے والا روزا نہ پندرہ ہزار کماتا ہے مگر ایک روپیہ انکم ٹیکس نہیں دیتا۔ میراسوال یہ ہے کہ ا س چنے والے کے مقابلے میں تنخواہ دار ڈبل ٹیکس کیوں دے۔ پہلے تنخواہ پر بھی اور اسکے بعد بجلی، پٹرول اور ٹوتھ پیسٹ خریدتے ہوئے بھی۔پچاس ہزار ماہانہ سے زائد کمانے والا ہر نان فائلر ٹیکس چور ہے چاہے اسے حافظ نعیم الرحمان اور مولانا فضل الرحمان کی بجائے امام کعبہ کی ہی حمایت کیوں نہ حاصل ہو۔

تبصرے بند ہیں.