یہ جنگ ہے بیلٹ باکس کی

82

معرکہ کوئی بھی ہو جب گھوڑے میدان میں دوڑائے جاتے ہیں تو ایک دو گھوڑے ایسے ہوتے ہیں جن پر تمام داؤ استعمال کرتے ہوئے ایک گھوڑے کی جیت یقینی ہوتی ہے، اب یہ جیت کس گھوڑے کے مقدر میں لکھی جاتی ہے اس کا فیصلہ بھی میدان میں ہی ہوتا ہے۔ لاہور چیمبر کے انتخابات برائے 2024-25ء اب صرف دنوں کے فاصلے پر ہیں۔ 23کو کارپٹ تو 24ستمبر کو ایسوسی ایٹ کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ میدان سج چکا ہے، ریس میں دوڑنے والے گھوڑے اپنی انتخابی مہم شروع کر چکے ہیں۔ تیس سیٹوں پر سب سے بڑا انتخاب دو بڑے گروپس کے درمیان بڑا مقابلہ تگڑا جوڑ ایک طرف پیاف فاؤنڈر اور ایل ایف بی تو دوسری طرف انجم نثار، علی حسام اور پروگریس گروپ آمنے سامنے آ چکے ہیں۔ دونوں گروپس دن رات ووٹرز کے دروازوں پر پہنچ چکے ہیں اور موجیں ہیں۔ ووٹرز کی کل تک جو ان کے ساتھ ہاتھ ملانا گوارا نہیں کرتے تھے آج گلے مل رہے ہیں۔ گلے، شکوے نئے وعدے، نئی امیدیں، نئی آسیں لیے امیدوار ووٹرز کے مرہون منت پر ہیں یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے جبکہ دوسرے رخ کو دیکھا جائے تو دونوں گروپس نے بڑے پاور شوز کئے۔ دونوں نے بڑے پاور شوز کے دعوے کئے اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں پاور شوز میں کتنے ووٹر اور کتنے کھانے والے آئے۔
ذکر اس پروی وش کا اور پھر بیا اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
انتخابات کا ماحول بنتے ہی بہت سے دوست رقیب تو بہت سے رقیب دوست بن گئے۔ بیان بازی، نعرے، دعوے، وعدے امیدواروں کے دوست احباب، سوشل میڈیا پر ایک بڑی جنگ چھیڑے ہوئے ہیں۔ اس انتخابی معرکے میں فیصلہ تو 29ستمبر کی رات کو ہو جائے گا کہ کون بنے گا لاہور چیمبر کا نیا حکمران جو اگلے دو سال تک حکمرانی کرے گا۔ اس دفعہ یوں بھی مقابلہ زوروں کا ہوگا کہ دونوں گروپس نے ساٹھ امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ ان میں سے تیس امیدوار وہ خوش قسمت ہوں گے جن کا انتخاب ایسوسی ایٹ کے اور کارپٹ کلاس کے ووٹر دو دن کے انتخابی پراسیس سے گزر کر کریں گے۔ اس دفعہ لاہور چیمبر میں نئے ممبران بننے سے تین ہزاروں ووٹوں کا اضافہ ہوا ہے یعنی 2000ایسوسی ایٹ تو ایک ہزار کارپٹ کلاس کے ووٹ بنے۔
میرے نزدیک بڑے شوز سے آپ کسی بھی گروپ کی ہار جیت یا یہ اندازہ نہیں لگ سکتے کہ کون بھرے مارجن سے جیتے گا۔ یہ سیاست ہے جس میں بڑے جلسے، ریلیاں اور جلوسوں میں لوگوں کی شرکت تو ہوتی ہے مگر ان کی قسمت کا فیصلہ گھر بیٹھے ووٹر نے کرنا ہے۔ اب ہمارے ہاں ووٹر بھی ان طرح کے ہیں ایک ناراض تو دوسرا جیالا اور تیسرا ووٹر وہ جو بدلے کی سیاست میں کسی کے بھی بیلٹ باکس میں اپنا ووٹ ڈال سکتا ہے لہٰذا دونوں گروپس کو بڑے شوز کی غلط فہموں سے نکل کر ووٹر کو گھر سے نکالنے کی حکمت عملی پر غور و فکر کرنا ہوگا۔ شوز فوٹو شوز ہوتے ہیں۔ کیا پتہ کھانے کی میز پر وکٹری کا نشان بنانے والا آپ کے مخالف کو ووٹ ڈال دے کہ ٹریڈ سیاست میں جس طرح کی آج سیاست اپنے رنگ دکھا رہی ہے یہ رنگ یقینی طور پر انتخابات پر ضرور اثر انداز ہوں گے۔ یہاں ایک اور مسئلہ درپیش ہوگا کہ امیدواروں کی جنگ تو ہے ہی یہاں دونوں گروپس کی قیادتوں کا بھی بڑا امتحان ہوگا اور یہ امتحان اس لیڈرشپ کا بھی ہے جو جیتے گا وہی بڑا لیڈر ہوگا۔ جس کے ساتھ ووٹر امیدیں لئے کھڑا ہے لہٰذا میرے نزدیک دونوں گروپس کے درمیان ہونے والے اس انتخابی معرکے کو آسان نہ لیا جائے اور کوئی اس غلط فہمی کا بھی شکار نہ ہو کہ وہ آسانی کے ساتھ چیمبر کے دروازے کھول کر براجمان ہو جائے گا۔
ووٹر کو گھر سے بیلٹ بکس تک لانے والوں کا سب سے بڑا امتحان ہوگا ورنہ ان کے کے لئے یہ شعر ہی کافی ہے۔
خاموش ہیں لب اور دنیا کو اشکوں کی زباں معلوم نہیں
نکلے تھے کہاں جانے کیلئے پہنچے ہیں کہاں معلوم نہیں
گزشتہ دنوں میں پی بی بی کے چیئرمین ایس ایم تنویر کے ساتھ محو گفتگو تھا بات ہو رہی تھی انتخابی ماحول اور اس پر پڑنے والے اثرات ایس ایم تنویر کا مؤقف تھا کہ میرے نزدیک انتخابات کسی کے بھی ہوں وہاں اخلاقی حدود کا خاص خیال رکھیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے الزامات کی جنگ نہ کریں۔ آپ سب ایک ہیں آپ نے ہار جیت کے بعد پھر ایک جگہ اکٹھے ہونا ہے بجائے ہمیشہ کے لیے دروازے بند کرنے کے ان کو کھلا رکھیں۔ ہم سب کل بھی ایک تھے آج بھی ایک ہیں اور کل بھی ایک ہوں گے تو پھر جھگڑا کس بات کا…
ایس ایم تنویر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ عرض کرتا چلوں کہ اگلے بیس پچیس دنوں میں ٹریڈ سیاست کے ابھی اور رنگ بدلیں گے چہرے ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ میں پرواز کرتے نظر آئیں گے۔ اب بیلٹ بکس پر وہ کامیاب ہوگا جو سترویں سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوگا اور یہاں ستارویں سیٹ لاہور چیمبر کے نئے حکمران کا دروازہ کھولے گی۔

اور آخری بات…!میرے ذرائع کے مطابق لاہور چیمبر کا انتخاب اب لاہوری تاجر برادری کی دسترس سے نکل کر قومی سیاست کا حصہ بن چکا ہے۔ کہیں دباؤ، کہیں منت ترلا تو کہیں بند دریچوں میں ہونے والی میٹنگز میں ووٹرز کے ساتھ معاملات طے کئے جا رہے ہیں۔ ابھی تو ووٹر کسی کو ناراض نہیں کر رہا۔ اندر کے بھید تو خدا ہی جانے مگر میرے طوطے نے اطلاع دی ہے کہ…
یہ مسجد ہے، وہ بت خانہ یہ مانو چاہے وہ مانو
مقصد تو دل کو سمجھانا، چاہے یہ مانو، چاہے وہ مانو
دل کو سمجھانے والے ہوا کے رخ کی طرف جانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ بڑا انتخابی ماحول بن چکا ہے، 60ای سی ممبران کو رول نمبرز جاری ہو چکے ہیں، بڑا امتحان شروع ہو چکا ہے۔ پہلا پرچہ 23ستمبر کو ہوگا اور رات کو نتائج آنے کے بعد 24ستمر کو ووٹر 23ستمبر کی رات کو ہونے والی ہوا کے رخ کی طرف جانے کا فیصلہ کرے گی۔ باقی رہے نام اللہ کا…!

تبصرے بند ہیں.