ساری دنیا جانتی ہے کہ بھارت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ بھارت کی طرف سے اقلیتوں کے خلاف خاص طور پر غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بہت تشویش ہے۔ مودی سرکار مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث ہے اور اس سلسلے میں ریاست گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا حوالہ کافی ہے جو بھارتی حکومت کی ملی بھگت سے ہوا۔
اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیخلاف زہریلا بیانیہ اور ان کیخلاف کارروائیوں کی پشت پناہی موجودہ بی جے پی و آر ایس ایس حکومت کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ بھارتی ناظم الامور کو یاد ہانی کرائی گئی کہ ہندوتوا شخصیات بشمول حکمران اراکان پارلیمان کے تشدد کو ہوا دینے کا نتیجہ فروری 2020 میں نئی دلی میں مسلم کش فسادات کی صورت میں نکلا تھا۔
ماہر انسانی حقوق ڈاکٹر الیاس کا کہنا ہے کہ بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار اپنی آبادی کو دبا رہا ہے۔ بھارت مسلمانوں کے انسانی اور آئینی حقوق سے انکار کر رہا ہے۔ مسلمانوں پر ظلم ان کی معاشی صورتحال کو بدترکر رہی ہے۔ دہلی فسادات میں پولیس نے سیکڑوں بے گناہ مسلمانوں کو حراست میں لیا۔ بھارت میں صورتحال اب بھی سنگین ہے۔ بھارتی پولیس انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ مسلمانوں پر ظلم سے سماجی اور اقتصادی حالت خراب ہو رہی ہے۔ گائے کا گوشت فروخت کرنے کے جھوٹے الزامات پر ہندو ہجوم مسلمانوں پر تشدد کرتا ہے۔ امریکہ اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت سے مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکومت کے انتقامی اقدامات کے باعث وہاں اپنے دفاتر بند کر دیئے ہیں۔ امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی بھارت کو تشویشناک ممالک میں شامل کرنے کی سفارش کر چکا ہے۔
بھارتی حکمران بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کو جینے کا حق دینے کو تیار نہیں۔ ان کی مذہبی آزادی کو سلب کیا جا رہا ہے۔ انہیں مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بدترین سلوک پر اس سے قبل بھی بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے وقتاً فوقتاً آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ اس تلخ حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ نریندر مودی کے دوبارہ برسراقتدار آنے سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک ایسا طوفان اٹھایا گیا ہے جس کی ایک معمولی جھلک دہلی میں بڑے پیمانے پر سرکاری سرپرستی میں نہتے مسلمانوں کے دوہری شہریت کے متعصبانہ قانون کے خلاف احتجاج پر ہونے والے قتل عام کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس قتل ِ عام کے دوران بعض مسلمانوں کو صرف جے شری رام نہ کہنے پر زندہ جلا دیا گیا تھا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بھارت میں انسانیت کے خلاف جرائم منظم انداز میں جاری ہیں۔ ان مظالم کا مقصد مسلمانوں کو سماجی اور معاشی طور پر مفلوج بنا کر ان سے ان کی شناخت کے تمام ذرائع مثلاً زبان، تعلیم اور ثقافت چھیننا ہے۔
1925 سے بھارت میں انتہا پسندی ابتدا ہوئی اسی سال آر ایس ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ) کی بنیاد رکھی گئی اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں صرف ہندوؤں کا حق ہے۔ ہندوستان میں تہذیب، ثقافت، لباس، رسم و رواج سب کچھ ہندو دھرم کے تناظر میں ہونا چاہئے۔ جو بھی ہندو اپنا دھرم چھوڑ کو مسیحت یا اسلام قبول کر چکا ہے اُس کو گھر واپس لایا جائے گا۔ اس تحریک کو شہرت اس وقت ملی جب 30 جنوری 1948 کو اسی تنظیم کے کچھ ارکان نے مہاتما گاندھی کے سیکولر بھارت کو مسترد کر کے گاندھی کو قتل کر دیا۔ گاندھی کے قتل کے جرم میں نتھو رام گوڈسے کو سزائے موت ہوئی۔ گوڈسے کا تعلق آر ایس ایس سے تھا۔ اس واقعے کے بعد آر ایس ایس پر پاپندی لگ گئی لیکن آر ایس ایس کے نظریات نے بہت سی انتہا پسند تنظیموں کو جنم دیا جن میں وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل، راشٹریہ سیوک سنگھ، ہندو سویام سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی قابل ذکر ہیں۔
نریندر مودی کی حکومت نے قومی و ریاستی سطح پر ایسے قوانین کا اجرا کیا ہے، جن سے انتہا پسندی کو تقویت مل رہی ہے۔ جیسا کہ مویشیوں کی تجارت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ تاج محل ’’بھارت کی تہذیب و ثقافت‘‘ کی نمائندگی نہیں کرتا، کیوں کہ یہ سترھویں صدی میں ایک مسلمان بادشاہ نے اپنی بیوی کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ بعض اقلیتی اور سیکولر طبقے خوفزدہ ہیں کہ بھارت کی سالمیت خطرے میں ہے۔
مودی کی اس انتہا پسندی پر عدم توجہی کی ایک وجہ وہ دباؤ ہے جو ان پر اس بنیاد پرست ہندو تنظیم کی جانب سے ہے جس سے وہ خود تعلق رکھتے ہیں۔ مذہبی ہندو انتہا پسندوں نے پچھلی دہائیوں میں سیکولر طبقے کے خلاف جدوجہد کے ذریعے اپنے آپ کو مستحکم کیا اور انہوں نے مودی کی انتخابی مہم میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اب وہ اپنا حصہ لینا چاہتے ہیں۔
مودی حکومت کے چند سال میں مذہبی تفریق اس قدر بڑھ چکی ہے جو پہلے کبھی نہ تھی۔ دنیا بھر کے امن پسند ممالک، تنظیمیں اور دانشور اس بات کا بھر ملا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی صرف اس خطے کیلئے خطرہ نہیں بلکہ اگر اس دہشت گردی اور انتہا پسندی کو نہ روکا گیا تو دنیا کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ دنیا بھر میں تو انتہا پسند جماعتوں پر پاپندی لگا کر امن کیلئے کوششیں ہو رہی ہیں لیکن بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی انتہا پسند جماعت بر سر اقتدار ہے اور اسی جماعت کے رہنما جنہیں گجرات کے قصائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ بھارت کے وزیر اعظم ہیں۔
تبصرے بند ہیں.