قول عمل اور کردار

182

قول ایک دعویٰ ہے، عمل اس دعوے کی تصدیق ہے، اور کردار، عملِ پر استقامت کا صلہ ہے۔ قول ہمارے اعتقاد کو ظاہر کرتا ہے۔ عمل اس اعتقاد سے وابستگی کا اظہار ہے۔ کردار ہمارے اعتقاد کا ایک قابلِ اعتبار تعارف ہے۔
ہمارا قول خواہ کیساہی خوش کن کیوں نہ ہو، جب تک خوش نما عمل سے واصل نہیں ہو جاتا، محض ایک نظری بحث ہے۔ شب و روز کے اوراق پر ثبت ہونے والی اصل چیزعمل ہے۔ قول سنائی دیتا ہے، عمل دکھائی دیتا ہے۔ خوش کن اقوال اَز بر کر لینا، اپنے اقوال کو خوبصورت پیرائے میں پیش کرنا، انہیں خوش الحانی کی لَے دے دینا، کچھ کمال نہیں۔ کمال یہ ہے کہ کسی قول پر کردار کا پہرہ دیا جائے۔ قول کے ساتھ جب عمل کا بندھن قائم ہوجاتا ہے تو وہ قول کتابِ زیست پر رقم ہوجاتا ہے۔ جس قول کے ساتھ عمل کی گواہی شامل ِ حال نہ ہو وہ ایک خبر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر روز ہزار ہا خبریں اخبار کی زینت بنتی ہیں اور اگلے ہی روز ردّی فروشوں کا روزینہ بن جاتی ہیں۔ اخباری خبر کی عمر ایک دن سے زیادہ نہیں ہوتی۔ تاریخ بدلتی ہے تو خبر بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ یوں بھی ہر خبر، خبر دینے والے کی ایک رائے ہوتی ہے۔ ممکن نہیں کہ ہر رائے دینے والا صاحبِ رائے بھی اور اس کی رائے صائب بھی ہو۔ اخبار کا مدیر خبر کا مزاج بناتا ہے۔ تاریخ مؤرخ رقم کرتا ہے۔ عام کو خاص اور خاص کو عام خبر بنانا اْس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

ہم نے تبلیغ کو ایک خبرنامہ بنا دیا ہے۔ ہر مبلغ اپنے مطلب کی خبر براڈ کاسٹ کیے جا رہا ہے۔ اصل خبر کا متلاشی متحیر ہونے کی بجائے متوحش ہو ر ہا ہے۔ اس کا یقین تشکیک میں تبدیل ہو رہا ہے۔ دین کے نام لیواؤں سے اس کی بیزاری اب ایک خبر نہیں رہی …… وہ خبر دینے والوں سے بدظن سا ہوا جاتا ہے۔ خود رو برساتی بوٹیوں کی طرح ہر طرف دین کی باتیں کرنے والے نظر آتے ہیں۔ اگر نظر نہیں آ رہا تو وہ دینی کردار نظر نہیں آ رہا جسے دیکھ کر خبر نظر سے واصل ہو جائے اور ذاتی اور اجتماعی سطح پر ایک قیام کی صورت پیدا ہو جائے۔ مبلغ عزت سے زیادہ شہرت کا طالب نظر آتا ہے۔ اسے ہر متنازع موضوع بھلا معلوم ہوتا کہ اس سے وہ راتوں رات شہرت کے سنگھاسن پر براجمان ہو سکتا ہے۔ اس کی شب و روز کی محنت کا مدعا اس کے سوا کچھ اور معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کسی طرح شہرت کی دنیا میں کبیر، بر وزنِ امیر ہو جائے۔جنہوں نے ٹھہرنا تھا، اور ٹھہر کر بھاگنے والوں کو روکنا تھا، وہ بھی دوڑ میں شامل ہو گئے۔ ایسے میں کون کس سے خطاب کرے؟ کون کسے سمجھائے، کون کس کی بات سمجھے؟ ہمارے مذاکرے، مناظرے بن گئے، اور مناظرے مجادلے کی شکل اختیار کر گئے…… اور مجادلہ بھی بطریق احسن نہ ہو سکا، اس لے مجادلے بھی مقاتلے پر منتج ہو گئے۔
اسلام ایک جائے عمل ہے، اسے ہم نے جائے بحث بنا لیا ہے۔ اس پر فکری اور نظری بحثیں ہماری ذاتی رائے اور تبحر علمی کو تو ضرور ظاہر کرتی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اسلام کا مطلوب فقط قول نہیں، کردار بھی ہے۔ قول ایک لائحہِ عمل ہے۔ قول کا حاصل عمل ہے، اور عمل کا حاصل کردار۔ قول اگر عمل کے راستے سے گزرتا ہوا کردار پرمنتج نہ ہو تو نتیجہ اسلام نہیں نکلتا۔ عین ممکن ہے، ایک شخص ذاتی طور پر کسی مہربانی کے زیرِ اثر اپنی کم عملی کے باوجود نجات حاصل کر لے، لیکن مسلمان بحیثیتِ قوم جب تک اسلامی کردار میں ڈھل کر دینِ اسلام کاعملی نمونہ پیش نہیں کرتے، قوموں کی بستی میں اس پستی سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں۔

عمل کرنا مشکل، عمل پر مداومت اختیار کرنا کہیں مشکل …… اس لیے ہم نے آسانی کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ دراں حالے کہ مشکل سے نکلنے کا راستہ ہمیشہ مشکلات سے ہو کر گزرتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو قول سنانے والی انجمن ستائشِ باہمی کے ستارے بنتے جا رہے ہیں۔

دینی حوالے سے تین کردار اہم ہیں۔ اگر ہم فقط ان تین کرداروں کا مطالعہ کر لیں تو خود احتسابی آسان ہوجاتی ہے۔ ایک کردار کا نام مسلمان ہے، دوسرے کو مومن کہتے ہیں اور تیسرے کردار کو منافق کا نام دیا گیا ہے۔ مسلمان کردار کی پہلی تعریف یہ ہے کہ وہ دوسروں کے لیے بے ضرر ہوتا ہے۔ حدیثِ پاک میں واضح طور پر فرما دیا گیا ہے کہ وہ شخص مسلمان نہیں، جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ نہیں۔ یہ مسلمان کی بنیادی تعریف ہے، حیرت ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں یہ تعریف کیوں نہیں پڑھائی جاتی۔ہماری تبلیغی تگ و دَو فقط اسلامی اعتقادات بتانے پر مرکوز ہوتی ہے، اسلامی کردار کے بارے کون بتائے گا؟ ہم اس پر غور کیوں نہیں کرتے کہ اگر ہم اپنے بھائی بندوں کے لیے کسی آزار کا باعث ہیں تو ہم مسلمان کی بنیادی تعریف پر پورا نہیں اتر رہے۔ ایک رشوت خور آدمی اپنے منصب کو مخلوقِ خدا کے لیے باعثِ آزار بنا دیتا ہے…… وہ کس منہ سے خود کو مسلمان کہتا ہے۔ اسی طرح ایک ملاوٹ کرنے والا، خواہ لفظوں میں ملاوٹ کرے یا اشیائے خور و نوش میں، مخلوقِ خدا کے لیے ضرر رساں بن جاتا ہے۔ اگر وہ ملاوٹ کرنے سے توبہ نہیں کرتا تو کم اَز کم خود کو مسلمان کہلوانے سے توبہ کرے۔ایک مبلغ اگر اپنے ہی قول اور فعل میں فرق دور نہیں کر سکتا تو اسے مبلغ بننے سے توبہ کرنی چاہیے۔

دوسرا کردار مومن کا ہے۔ وہ چیز جو کسی سے مومنانہ کردار چھین لیتی ہے، وعدہ خلافی ہے۔ رسولِ کریمؐ کا ارشادِ گرامی ہے: ”وہ شخص مومن نہیں جس میں ایفائے عہد نہیں، اور اس شخص کا کوئی دین نہیں جس میں امانت کی پاسداری نہیں“۔ ہم کسی کا دین دار ہونے کا تعین اس کے لباس کی تراش خراش سے کرتے ہیں۔ کردار کا میزان نصب کرنا ہم بھول چکے ہیں۔ ظاہر پرستی کا یہی انجام تھا۔ اب یہاں ہمیں ایک لمحے کے لیے رک کر اپنا جائزہ لینا چاہیے…… ہم کس فراخ دلی سے لوگوں کے ساتھ وعدے کرتے ہیں اور پھر کس سنگ دلی سے وفا کرنا بھول جاتے ہیں …… ہم لوگوں سے پیسے لیتے ہیں اس وعدے کے ساتھ کہ اس مال کے عوض انہیں یہ سہولتیں دیں گے، لیکن وقت آنے پر ہم پیسے سے میسر آنے والی تمام سہولتیں خود سمیٹ لیتے ہیں اور لوگوں کو دین کا پیغام سنا دیتے ہیں۔ ہم خود لالچ میں لت پت ہو جاتے ہیں اور اپنے گاہکوں کو صبر کی تلقین کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں یہ وعدہ خلافی ہماری پہچان بن جاتی ہے، نتیجہ یہ کہ دینی پلیٹ فارم کھڑے ہو کر ہم دین ہی کی بدنامی کا باعث بن جاتے ہیں۔

تیسرا کردار منافقانہ ہے۔ منافق کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے اور جھگڑا کرے تو گالم گلوچ پر اْتر آئے۔ مفہومِ حدیثِ مبارکہ میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر کسی میں اِن چاروں باتوں میں سے کوئی ایک بھی موجود ہے تو وہ منافق ہے۔

چاہیے کہ ہم ان تینوں کرداروں کا مطالعہ ہر روز کریں اور خود سے سوال کریں کہ ہم کس کردار کے قریب ہیں اور کس کردار سے کس قدر دْور ہیں۔ دوری اور نزدیکی، قرب اور بعد …… بمطابق کردار ہے، نہ کہ بمطابق قیل و قال!!

اسلام مجموعہ اقوال نہیں، مجموعہ افکار و کردار ہے۔ کردارمیں لغزش بالعموم کسی فکری لغزش کانتیجہ ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے فکر کا بھی جائزہ لینا ہے۔اسلامی فکر ہم تک اپنی اصل حالت میں کیوں نہ پہنچ سکی؟ نک سک سے عین درست اسلامی فکر……موقع پرست ملوکیت، فرقہ پرست ملّایت اور ظاہر پرست عوامیت کے ہاتھوں یرغمال تو نہیں بنا دی گئی!! ہمیں اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہے۔ہماری اصل کلمہِ توحید ہے۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر قیام کافی و شافی ہے۔ اسلامی کردار …… دراصل کردارِ محمدیؐ ہے۔

تبصرے بند ہیں.