اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے کا المناک واقعہ

20

اگلے روز ایک انتہائی غیر انسانی حرکت سوشل میڈیا پہ گردش کرتی نظر آئی، کہ فصل میں گھسنے پر وڈیرے نے اونٹنی کی ٹانگ کاٹ لی، جانوروں کے حقوق کی تنظیموں سے لے کر عام عوام تک سب نے اس بہیمانہ فعل کی پرزور مذمت کی۔ دیکھا جائے تو ایسا مکروہ فعل ایک بیمار ذہنیت کا شخص ہی سرانجام دے سکتا ہے۔ گویا آپ ایک جاندار کو تمام عمر کے لیے ایک ایسے کرب سے گزار رہے ہو جس کی تکلیف کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ اور اس کا جرم کیا ہے؟ انسانوں کی بنائی ایک حد کو پار کرنا؟۔ اور یہ تو ایک بے زبان جانور کا قصہ ہے، ہم من حیث القوم انسانی رویوں میں اس سے زیادہ شدت پسند نہ ہوں تو کم بھی نہیں ہوں گے۔ آپ کے اور میرے سامنے انگنت ہوش ربا واقعات رونما ہوئے کہ انسانیت ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جائے، بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم چند روز ایسی انہونی بات کو محسوس کرتے ہیں، اس کے حوالے سے پوسٹ لگاتے ہیں اور اسے بھول جاتے ہیں، جب تلک اس حادثے میں سنسنی ہو وہ ہماری محافل میں زیرِ بحث رہتا ہے اور پھر قصہِ پارینہ ہو جاتا ہے۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

میرے حافظہ میں انسانیت کی تذلیل کا اس نوعیت کا جو سب سے پہلا حادثہ ہے وہ سیالکوٹ کا ہے، مجھے نہیں یاد میری عمر تب کیا تھی، مجھے نہیں یاد ان دو بھائیوں کا قصور کیا تھا، یاد ہے تو فقط اتنا کہ ایک ویڈیو میرے موبائل میں آئی تھی، جس میں ایک جنونی گروہ دو بچوں کو ہر اس شے سے مار رہا تھا جس سے مارنے کا تصور بھی کیا جا سکتا ہو، ایک جھنڈ کا جھنڈ تھا جس میں دو معصوم گھرے تھے، بڑا بھائی چھوٹے کو بچانے کے لیے اس پر لیٹ گیا اور انہیں اس وقت تک مارا گیا جب تک وہ بے سدھ نہ ہو گئے، مٹی اور ریت میں لتھڑے ان کے وجود سے بہتا لہو اللہ کی زمین کو سیراب کرتا رہا اور اشرف المخلوقات کا ایک جنونی جھْنڈ ان نیم مردہ بے جان لڑکوں کو لاتیں مارتا رہا۔ مجھے آج بھی یاد ہے میری ماں وہ ویڈیو نہیں دیکھ پائی تھی، پلو میں منہ چھپا کر زار زار روئی تھی، آج بیٹھ کر سوچ رہی ہوں ان لڑکوں کی ماں تو شاید مر ہی گئی ہوگی۔

جیسے جیسے عمرِ رواں بیتتی گئی، ایسے واقعات میں تواتر آتا گیا۔ کبھی کف اڑاتے نعرے لگاتے درندے کسی پوری بستی کو جلا گئے، تو کبھی آج سے قریب آٹھ سال قبل جہلم میں ایک مسجد دھو کر پاک کر کے اس میں جماعت لگا کر کھڑے ہو گئے۔ کبھی عیسائیوں کے گھر توڑ دیئے، بچیوں کے جہیز لوٹ لیے تو کبھی کسی غریب کے گھر کے ملبے پہ سینہ چوڑا کر کے کھڑے ہو گئے کہ ہم نے ناموسِ رسالت میں آج بڑا کارنامہ سرانجام دے دیا۔ دوسری طرف کبھی کسی نے کسی خاتون کو بیچ بازار برہنہ کر دیا اور عزت کے نام پہ مختاراں مائی کی عصمت دری کی تو کبھی کسی بدقماش نے طاقت کے بل پہ کیمرے کے سامنے ایک نہتے جوڑے کو بے آبرو کر چھوڑا، اللہ کا عرش اس سمے ہل گیا جب ایک جنونی شخص نے ایک معصوم لڑکی کی گردن ہی دھڑ سے الگ کر ڈالی……یہ وہ واقعات ہیں جو روح کو جھنجھوڑ ڈالتے ہیں وگرنہ آئے روز ہم اپنے ارد گرد ہی غیر انسانی رویوں کو دیکھنے یا شاید کر گزرنے کے عادی ہیں۔ معزز قارئین سے دست بستہ گزارش ہے کہ اپنے گریبان میں جھانکیے۔۔ آپ میں سے کتنے ہیں جو اپنے اہل و عیال کی خوشی غمی اور ضروریات کا خیال رکھتے ہیں؟ پرانے وقتوں میں خون کے رشتے ہوا کرتے تھے اب تو رشتوں کا خون ہوا کرتا ہے۔

آپ میں سے کتنے ہیں جو کبھی کسی راہگیر یا کسی سکیورٹی گارڈ کو ایک ٹھنڈا گلاس پانی پلا کر راضی ہیں؟ آپ میں سے کتنے ہیں جو لوگوں کو ان کے جائز حقوق بھی دینے کو تیار ہیں؟ آپ میں سے کتنے ہیں جو اس موسم میں پرندوں کے لیے پانی بھر کر رکھتے ہیں؟ آپ میں سے کتنے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں؟ یہ سوال کیے بنا کہ تم ہٹے کٹے ہو کماتے کیوں نہیں؟ یا تم جا کر ان پیسوں سے نشے کرو گے؟ کبھی مالک نے پوچھا کہ تمہاری اوقات تو نہیں تھی جتنا میں نے بخش دیا؟ ہم یتیم کا حصہ کھا کر اونچی کوٹھی بنا کر“ھذا من فضل ربی”کی تختی تو بصدِ شوق لگائیں گے، ہم پورے علاقے میں دھوم مچانے کے لیے سات لاکھ کی قربانی تو بسم اللہ پڑھ کے کریں گے لیکن ہم پڑوس میں جہیز کی وجہ سے بیٹھی غریب کی بیٹی کے بالوں میں اترتی چاندی نہیں دیکھیں گے، ہم دلوں میں بغض کینہ عناد بھر کے جائے نماز پہ جا کھڑے ہوں گے، ہم جعلی دوائیاں بیچ کر کعبے کے چکر کاٹیں گے، خود شیطان چکرا گیا ہے کہ یہ کس چکر میں ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں انسان کہنا انسانیت کی تذلیل ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہم سب بے حس، گھمنڈی، خود سر اور خود غرض ہیں۔ ہم میں کوئی ایک ایسا نہیں جو خود کو رحم دل یا کم از کم نرم دل کہہ سکے۔ آئیے اپنا محاسبہ خود کیجیے، اپنے آپ سے سوال کیجیے کہ اگر آپ کے پاس اس وڈیرے جتنی طاقت اور اختیار ہوتا تو کیا آپ کا رویہ بھی اس اونٹنی کے ساتھ ویسا ہی ہوتا؟ کہ ایک اونٹ کی صرف ٹانگ ہی تو کاٹی ہے۔ اگر جواب مثبت ہے تو مت تکلف کیجیے بکرا گرانے کا یا فیس بک پر پوسٹ کرنے کا، اپنے من کا کالک صاف کیجیے صاحب! مبارک ہو ہم مردہ قوم ہیں۔

تبصرے بند ہیں.