سید ریاض حسین شاہ صاحب ادارہ تعلیمات اسلامیہ کے سربراہ اور معروف علمی و روحانی شخصیت ہیں۔ انکی حکمت و دانائی سے لبریز گفتگو اور علوم و معارف سے بھرپور تلقین و ارشاد سے بہرہ یاب ہونے کیلئے اتفاق مسجد ماڈل ٹاؤن لاہورمیں عوام و خواص کا انبوہ کثیر اُمڈ آتا ہے۔ شاہ صاحب نے ایک مرتبہ اس جملے کی وضاحت وسعت و گہرائی کیساتھ ارشاد فرمائی تھی کہ”حق بہ حق دار رسید“ کا مطلب کیا ہوتا ہے، کسی بھی معاملے اور حوالے سے اس مثبت عمل کے فوائد و برکات کیا ہوتے ہیں۔ یہ شرعی اور سماجی دونوں حوالوں سے قرین انصاف ہے کہ جس کا کام ہو اسی سے لیا جائے اور جس کا حق ہو اسی کو دیا جائے تو ہی کامیابی حاصل ہو تی ہے۔ بہر حال مجھے ذاتی طور پر کئی مرتبہ اس جملے کی صداقت، حقانیت اور اہمیت کو جانچنے کا موقع ملا۔ گذشتہ روز محکمہ اوقاف پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل مذہبی امور ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کو ایک مرتبہ پھر بجا طور پر سیکرٹری اوقاف پنجاب تعینات کئے جانے کی خبر سنی تو فوراً فی البدیہہ میرے منہ سے نکلا ”حق بحق دار رسید“۔ میں نہیں جانتا کہ انکے پیش رو کون صاحب تھے تاہم پنجاب کے ثقافتی مراکز و مزارات کے ساتھ غیر معمولی دلچسپی رکھنے کے باعث اتنا ضرور جانتا ہوں کہ گذشتہ نگران دور میں ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے بطور سیکرٹری اوقاف یہ ثابت کر دیا تھا کہ کسی بھی محکمے کا انتظامی سربراہ کیسا ہونا چاہئے۔کسی محکمے کا سربراہ ہونا اور بات ہے اور اپنے محکمے کا سربراہ ہونا واقعی اور بات ہے کیونکہ اپنائیت اور اپنا پن کام کے شوق اور لگن کو دوچند کر دیتے ہیں۔ میری کوشش ہو گی کہ میری تحریر مبالغہ اور غلو سے پاک ہو کیونکہ مبالغہ آرائی سے بات کا حسن جاتا رہتا ہے۔ پنجاب کی نگران حکومت نے بہت سے منصوبوں کی تیز رفتار تکمیل کیساتھ ایک انتہائی قابل تحسین کام یہ کیا تھا کہ پنجاب کے مزارات کی اپ گریڈیشن اور انہیں کارآمد بنانے کا آغاز کیا۔ یہ ایک ایسا نیا کام تھا کہ شائد اس سے پہلے کبھی بھی اس طرف اتنی ترجیحی توجہ نہیں دی گئی تھی۔ اب چونکہ مریم نواز شریف کی قیادت میں پنجاب میں ایک ایسے دور کا آغاز ہوا ہے جس میں عزم و ہمت کیساتھ ساتھ جوش و جذبہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ پہلے 100دن کی کارگزاری متعدد فلاحی و ترقیاتی منصوبوں سے معمور ہے جبکہ متعدد محکموں کی جانب سے فلاح عامہ کے کئی ایک منصوبے زیر تکمیل ہیں۔ تعلیم، صحت، صفائی،خوراک و زراعت سمیت تقریباً تمام محکموں میں دن رات کام بھی ہو رہا ہے، نظر بھی آرہا ہے، اور بڑھایا بھی جا رہا ہے۔ ایسے میں حکومت پنجاب کی طرف سے محکمہ اوقاف و مذہبی امور کی طرف نظر التفات کرنا اور ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کو دوبارہ سے سیکرٹری و چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف تعینات کئے جانے کا انتہائی مستحسن فیصلہ یقینی طور پر قابل ستائش ہے۔ میری دانست میں یہ شعبہ بھی فلاح عامہ اور عوامی مفاد کا ہے۔ اگر لاہور کی بات کی جائے تو یاد رہے لاہور کو عرف عام میں داتا کی نگری کہا جاتا ہے۔ شہر لاہور میں داخل ہوتے ہی حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کا مزار پُرانوار ہر آنے والے کا استقبال کُھلی بانہوں سے کرتا ہے یہ لاکھوں لوگوں کا مرجع اور مسکن ہے۔ یہ خانقاہ اور دربار سے بڑھ کر ایک پورا کمپلیکس ہے جہاں اسلام و روحانیت کی حقیقی روح کے عین مطابق ایک بڑی جامع مسجد، دینی و عصری علوم کا مرکزدارلعلوم، وقیع لائبریری، عوام و خواص کیلئے 24/7 مفت کھانے کا اہتمام، تربیتی مجالس و تقریبات کیلئے ہال اور پنڈال کے علاوہ پارکنگ وغیرہ کا وسیع و عریض انتظام ہے۔ مزار کے احاطے کی توسیع سمیت جدید حسن تعمیر سے مزین بہت بڑے منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا جو اب یقینا سرعت سے تکمیل کی جانب گامزن ہو گا۔ اسی طرح لاہور ہی میں مزار بی بی پاکدامن کی تعمیر و توسیع کا منصوبہ عشروں سے التوا کی کھٹائی میں پڑا ہوا تھا اس کی تکمیل کا سہرا بھی کسی نہ کسی طوراسی ٹیم کے سر ہے۔ لاہور کی تاریخ و ثقافت کا ایک اہم جزحضرت میاں میرؒ کا مزاربھی ہے اس کی اپ گریڈیشن اس کے تاریخی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے کی جا رہی ہے۔ سب سے اہم ٹاسک بادشاہی مسجد میں تبرکات گیلری کی تعمیر نو اوراس کو جدت کے تمام تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے عوامی دلچسپی پیدا کرنا ہے۔ ان تمام منصوبوں کے علا وہ ملتان، پاکپتن، قصور اور راولپنڈی سمیت بہت سی جگہوں پر تعمیر و ترقی کا سلسلہ پھر سے جاری و ساری ہو گا۔ جہاں تک تعلق ہے محکمہ اوقاف کی مجموعی کارگزاری اور اس کی افادیت کاتو اس ضمن میں سب سے اہم کام بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی کافروغ ہے۔ اس منفردامر پر توجہ دیکر حکومت پنجاب امن و امان جیسے اہم ترین مسئلے کے حل کیلئے محکمہ اوقاف کی معاونت حاصل کر سکتی ہے۔ابھی جب میں یہ سطور لکھ رہاہوں پنجاب حکومت کی کابینہ کمیٹی سر جوڑ کر بیٹھی ہے کہ آئندہ چند دنوں بعد ماہِ محرم الحرام کا آغاز ہونے کو ہے اورمن و امان قائم رکھنے کی خاطر صوبے کی ساری ایڈمنسٹریشن کوکس طرح مستعد رکھا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں پولیس، سول انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار بنیادی نوعیت کا ہو گا لیکن تکنیکی بنیادوں پر یہ بات سمجھنے والی ہے کہ تمام مسالک ومذہبی گروہوں کو محکمہ اوقاف و مذہبی امور کے ذریعے سرکاری طور پر ہی ایک میز پہ لایا جا سکتا ہے اور اسکی اثر پذیری کو درست طریقے سے بر محل استعمال کیا جاسکتا ہے۔علما و مشائخ کے ساتھ ذاتی روابط اور باہمی احترام پر مبنی قریبی مراسم بھی طاہر بخاری صاحب کا خاصا ہیں جن کا براہِ راست فائدہ انکے محکمے کو ہی ہو گا۔ حکومت پنجاب بہت سے محاذوں پر بیک وقت مصروف عمل ہے جبکہ ملک کی مجموعی صورتحال کے پیش نظر مرکزی حکومت آپریشن عزم استحکام کا مصمم ارادہ بھی کئے ہوئے ہے ایسے میں صوفیا کے درس محبت و امن کے پرچار کے ذریعے سے حکومت اپنی بہت سی توانائی کو صرف ہونے سے بچا سکتی ہے ساتھ ہی ساتھ صوبہ کی عوام کو مضبوط فلاحی و روادارانہ ماحول بھی مہیا کیا جاسکتا ہے۔ امید واثق ہے کہ محکمہ اوقاف و مذہبی امور پنجاب حکومت کو اس حوالے سے بہترین پرفارمنس دے گا۔ علاوہ ازیں وقف ارضیات اور کمرشل اثاثہ جات کے ذریعے محکمہ کی خود مختار مالی حیثیت کو مزید مستحکم کرنے کی خاطر سیکرٹری اوقاف نے اپنے پچھلے دور میں بھی بہت کام کیا تھا۔ اس پر بھی انکی ستائش لازم ٹھہرتی ہے۔
تبصرے بند ہیں.