پنجاب کے صوبائی محتسب کے عہدے پر چار سال خدمات سر انجام دینے کے بعد میجر اعظم سلیمان خان ریٹائر ہوگئے ہیں، اس سے پہلے انہوں نے وفاقی سیکرٹری داخلہ کی حیثیت میں سول سروس سے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی،جس کے بعد انہیں اس پوسٹ پر تعینات کیا گیا تھا، انہیں سول سروس آف پاکستان کا بہترین افسر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، وہ ہزاروں افسروں کے آئیڈیل ہیں، میں نے اپنے صحافتی کیرئیر میں اب تک جو چند شاندار افسر دیکھے ہیں، وہ ان میں سے ایک ہیں۔ مجھے یاد ہے، پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بانی پی ٹی آئی نے انتظامی معاملات چلانے کے حوالے سے جو سب سے بہترین فیصلہ کیا، وہ میجر اعظم سلیمان خان کی بطور چیف سیکرٹری پنجاب تعیناتی تھا، مگر اسے بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ سول بیوروکریسی کے انتہائی محنتی، ہر عہدے اور ہر موقع پر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اس شاندار کیرئر کے حامل افسر کو عہدے سے چند ماہ بعد ہی تبدیل کر دیا گیا، کسی نے کہا کہ وہ پنجاب حکومت کی محلاتی سازشوں کی بھینٹ چڑھ گئے اور کچھ اس تبدیلی کو انوکھے لاڈلے کی ایک ضد اور خواہش کا نتیجہ قرار دیتے رہے۔ میجر اعظم سلیمان جیسے اپ رائٹ افسروں کے ساتھ ایسا ہی ہونا ہوتا ہے، وہ اس وقت پنجاب میں ہونے والی بیڈ گورننس کو گڈ گورننس میں تبدیل کرنا چاہتے تھے جو سیاسی جغادریوں کو پسند نہ آئی، اسے چاہئے تھا سٹیٹس کو برقرار رہنے دیتا، خود بھی موج کرتا اور باقیوں کو بھی کھل کھیلنے دیتا۔ مگر بقول منیر نیازی کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی۔
میجر اعظم، اس ملک کے سسٹم میں اپنا بہت اچھا حصہ ڈالنے کے بعد اب ریٹائر ہو چکے ہیں مگر لوگ اب بھی پوچھتے ہیں، میجر اعظم کا اس وقت جرم کیا تھا؟ اسے کیوں بدلا گیا؟ یہ ملین ڈالر سوال پوچھا جاتا رہے گا اور ہو سکتا ہے کہ اسے سی ایس ایس کے امتحان یا انٹرویو کا حصہ بنا دیا جائے، کہاوت مشہور ہے ”ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات“ مگر اس کہاوت کو اس وقت پنجاب میں غلط ثابت کر دیا گیا، ناقص کارکردگی نہیں اچھی کارکردگی جرم ٹھہری، اعظم سلیمان کو جب پنجاب کے چیف سیکرٹری کا عہدہ سنبھالنے کی پیشکش کی گئی تھی تو انہوں نے واضح طور پر بعض معاملات پر تحفظ کا اظہار کیا تھا، تب انتظامی معاملات کو سیاست سے پاک کرنے کے دعویدار وزیر اعظم نے ان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ آپ کے کام میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہوگی، آپ کھل کر اور میرٹ پر اپنا کام کریں،مگر پنجاب کے سادہ طبیعت کے مالک حکمرانوں کو حکومت اور پنجاب کی نہیں اپنی اچھائی اور بہتری کی ضرورت تھی اور یہ اعظم سلیمان سمجھ ہی نہ سکے۔انہیں اور ان کی کارکردگی کو شروع دن سے اپنے کاموں میں رکاوٹ سمجھا جانے لگا تھا، حالانکہ اعظم سلیمان نے وزیراعظم کی یقین دہانی اور عہدہ سنبھالنے کے بعد پانچ ماہ سے بھی کم میں وہ کر دکھایا جو ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ انہوں نے پنجاب کے انتظامی معاملات کو راہ راست پر لانے کی کامیاب کوشش کی، بیوروکریسی جو نیب کے خوف سے کوئی کام کرنے پر تیار نہ تھی کا اعتماد بحال کیا، وزیر اعظم سے بیوروکریسی کے خلاف صرف اطلاعات پر کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی لی، جس کے بعد افسروں میں کام کرنے کی لگن پیدا ہوئی اور عرصہ دراز سے لٹکتی فائلوں پر کام شروع کر دیا گیا، جن عہدوں پر تعیناتی کیلئے کبھی بولی لگا کرتی تھی ان پر اہل افسر میرٹ پر تعینات کئے اور اس حوالے سے کسی دباؤ کو خاطر میں لائے نہ کوئی بڑی سے بڑی سفارش قبول کی، بااثر افسروں کو من مانی سے روکا،جن افسروں بارے رشوت کے لین دین کی اطلاع تھی ان کو فوری تبدیل کیا۔
چیف سیکرٹری پنجاب کے طور پر اعظم سلیمان کا جرم یہ بھی تھا کہ وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کی راہ میں حائل تھے، اعظم سلیمان وزیر اعظم کا انتخاب بنے مگر ان کے پنجاب والوں کیلئے قابل قبول نہ ٹھہرے، حالانکہ اعظم سلیمان نے دستیاب افسروں میں سے ہی اہل دیانتدار افسروں کی ٹیم منتخب کر کے صوبہ کے انتظامی معاملات کو کامیابی سے چلا لیا تھا سیاسی لوگوں کو عزت دی گئی مگران کا انتظامیہ سے عمل دخل ختم کر دیا گیا،جس کی وجہ سے اعظم سلیمان سے اختیارات کی کھینچا تانی شروع کر دی گئی۔ حیرت کی بات ہے کہ راتوں رات ایسا کیا ہوا کہ محنتی اور پسندیدہ اعظم سلیمان اچانک ناپسندیدہ ٹھہرے جبکہ مقتدر حلقے اور تمام ادارے بھی اعظم سلیمان کی کارکردگی سے خوش تھے، کورونا کی وباء کے دوران جبکہ ساری قوم خوف دہشت میں مبتلا تھی، انتظامی افسر اور ڈاکٹر صاحبان کورونا کی ڈیوٹی دینے کو تیار نہ تھے مگر اعظم سلیمان نے ان کو حوصلہ دیا، ان کیلئے حفاظتی لباس، ماسک، گلووز، وینٹی لیٹر، سینی ٹائزر کی فراہمی یقینی بنائی اور بغیر حفا ظتی سازو سامان کے سرکاری افسروں کو کورونا ڈیوٹی دینے پر آمادہ کیا جس کے نتیجے میں وباء کو تیزی سے پھیلنے سے روکا،صلہ ملا تبدیلی، اس یدھ میں پنجاب سرکار نے ثابت کیا کہ کہ وہ وفاق کی پالیسیوں کے خلاف اپنے کسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، میجر اعظم سے پہلے انتہائی شریف النفس اور وضع دار چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر بھی پنجاب حکومت کے ساتھ نہ چل سکے تھے۔
میجر اعظم چیف سیکرٹری سندھ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ پنجاب رہنے کے علاوہ پنجاب کے تمام بڑے محکموں کے سیکرٹری بھی رہے، انہیں پنجاب کے مختلف ڈویژنوں میں کمشنر اور اضلاع میں ڈی سی او اور ڈپٹی کمشنر رہنے کا تجربہ بھی حاصل تھا، یہ کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب کے حالات کے حوالے سے وہ بہترین افسر تھے، انہیں پنجاب کے انتظا می معاملات اور امن و امان کی صورتحال کو اچھے انداز میں کنٹرول کرنے کا ملکہ حاصل تھا۔پنجاب میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ کی حیثیت سے انہوں نے پاک فوج اور دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی روک تھام کیلئے مثالی اور دلیرانہ اقدامات اٹھائے، اپنی محنت، دیانت، ذہانت اور بر وقت فیصلوں کی وجہ سے پہچانے جانے والے وہ ایک سخت گیر افسر تھے جنہیں پنجاب کے حوالے سے کام کرنے کا وسیع تجربہ حاصل تھا، ان کے سامنے پنجاب کے انتظامی اور امن و امان کے حوالے سے شائد ہی کوئی مسئلہ چھپا ہوتا تھا۔ان کی انتظامی صلاحیتیں اس وقت کھل کر سامنے آئیں جب انہیں ڈپٹی کمشنر قصور مقرر کیا گیا جہاں انہوں نے بہترین ترقیاتی اورانتظامی اقدامات اٹھائے۔بعد ازاں وہ ڈپٹی سیکرٹری پولیس (ہوم) اور ایڈیشنل سیکرٹری جیل خانہ جات (ہوم)، ڈائرکٹر انٹی کرپشن لاہور، ڈی سی او فیصل آباد، کمشنر لاہور، سیکرٹری فوڈ، سیکرٹری جنگلات، سیکرٹری اریگیشن، سیکرٹری مواصلات و تعمیرات، سیکرٹری ہوم اور پھر ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم رہے۔ میجر اعظم کے دور میں پولیس اور سول محکموں کے درمیان مثالی تعلقات تھے۔ انہیں بے شمار اعلیٰ ملکی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، مجھے نہیں معلوم کہ ان کاآئندہ پروگرام کیا ہے مگر ضرورت ہے کہ اب بھی حکومت ان کے تجربے سے فائدہ اٹھائے، یہ اس ملک کا اثاثہ ہیں ان سے راہنمائی لیتے رہنا چاہیے۔
تبصرے بند ہیں.