مریم نواز کی وزارت اعلیٰ کا مستقبل

30

26 فروری 2024ء کو میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا تو انہیں پاکستان کی 77سالہ تاریخ میں کسی بھی صوبہ کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ مریم نواز کی خوش قسمتی کہ انہوں نے پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہو کر پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ کی حکمران بن گئیں۔ مریم نواز کی وزارت اعلیٰ کے چار ماہ مکمل ہو چکے ہیں اور ان 120 دنوں میں انہوں نے متعدد نئی اصلاحات متعارف کروانے کے علاوہ عوامی فلاح وبہبودکے بہت سے کام کیے ہیں۔مردوں کے اس معاشرے میں عورتوں کی نصف سے زیادہ آبادی کی نمائندگی کرنا اعزاز تو ہے مگر مردوں کی اکثریت پر مشتمل کابینہ، اسمبلی اور سیکرٹریز کو چلانا ان کیلئے ایک چیلنج ہوگا۔ مریم نواز کی سیاسی تربیت ان کے والد نے کی ہے جو تین بار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم اور دو بار صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ جب سے وہ وزیراعلیٰ بنی ہیں، انتہائی متحرک ہیں اور ایسا ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ شریف خاندان کے سیاسی مستقبل کا انحصار اب مریم نواز کی حکومتی کارکردگی پر ہے۔ اگر تو وہ حکومتی امور کو احسن انداز میں نبھا کر تحریک انصاف کا سحر توڑ نے میں کامیاب ہو گئیں تو ان کا بھی مستقبل ہے اور ان کے خاندان کا بھی۔ تاہم اگر وہ کارکردگی نہ دکھا سکیں تو ن لیگ کا حشر بھی پنجاب میں پیپلز پارٹی جیسا ہوسکتا ہے۔

شریف خاندان مشرقی روایات کا حامل خاندان سمجھا جاتا ہے جس کی خواتین باپردہ اور مشرقی اقدار کی حامل ہیں اور جہاں بڑوں کا ادب و احترام ضروری خیال کیا جاتا ہے۔12 اکتوبر 1999ء تک عملی سیاست سے دور رہنے والی شریف خاندان کی خواتین میں سے کلثوم نواز اُس وقت سیاسی افق پر نمودار ہوئیں جب ان کے شوہر اور معزول وزیر اعظم نواز شریف کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب کلثوم نواز سیاست میں متحرک ہوئیں تاہم نواز شریف اور ان کے خاندان کے ارکان کی جلاوطنی کے ساتھ کلثوم نواز کو بھی جلاوطن کر دیا گیا۔2007ء میں میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی کے بعد ان کی اہلیہ نے 2008ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ120 سے کاغذات جمع کرائے تاہم بعد میں انہوں نے کاغذات نامزدگی واپس لیے۔ کلثوم نواز نے لاہور میں کچھ انتخابی حلقوں میں ہونے والے جلسوں سے خطاب بھی کیا تاہم پھر وہ دوبارہ سیاسی منظر نامہ سے غائب ہو گئیں۔ اس وقت شریف خاندان کی اگلی نسل میں سے مریم نواز واحد خاتون ہیں جو عملی سیاست کر رہی ہیں۔ مریم نواز نے 2011ء میں عملی سیاست کا آغاز کیا، شروع میں وہ لاہور میں سماجی نوعیت کی تقریبات میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوتی رہیں۔شریف فیملی کا مشرقی بیک گراؤنڈ جاننے والے سیاسی حلقوں اور مسلم لیگ نون کے کارکنوں کیلئے مریم نواز کی سیاست میں دلچسپی اور سیاست میں قدم رکھنا کافی حد تک حیرت کا باعث تھا۔

28 اکتوبر 1973ء کو لاہور میں پیدا ہونیوالی مریم نواز نے انگریزی ادب میں پنجاب یونیورسٹی سے ڈگری لی۔ 1999ء میں نوازشریف حکومت برطرف ہوئی تو مریم نواز پر بھی مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، چارماہ تک گھر میں نظر بندی کے بعد انہیں خاندان کے ہمراہ سعودی عرب جلاوطن کر دیا گیا۔ مریم نواز نے 2012ء میں خاندان کے رفاہی ونگ میں کام کا آغاز کیا۔ مریم نواز کو پاکستان مسلم لیگ(ن) نے عام انتخابات 2013 کے دوران لاہور کی انتخابی مہم کا منتظم مقرر کیا جہاں ان کی کارکردگی شاندار رہی۔ انتخابات کے بعد 22 نومبر 2013ء کو انہیں وزیراعظم یوتھ پروگرام کا انچارج مقرر کیا گیا تاہم انہوں نے 13 نومبر 2014ء کو استعفیٰ دے دیا۔ مریم نواز کی سیاسی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں 2017ء میں دنیا کی 11 بااثر خواتین میں شامل کیا گیا۔ پانامہ پیپرز کے فیصلے کے بعد مریم نواز نے جارحانہ سیاست اپنائی، مریم نواز سڑکوں پر نکلیں تو کراؤڈ پلر کہلائیں، سیاسی مخالفین کو بڑی جرأت و بیباکی سے للکارا، مریم نواز والد کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہوئیں اور سیاسی جانشین کی حقدار ٹھہریں۔ مریم نواز جب جیل میں تھیں تو انہوں نے بی کلاس کی سہولتیں لینے سے انکار کیا اور عام قیدیوں کی طرح قید کاٹی۔ مریم نواز نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر مزاحمت کے بیانیہ سے پیچھے نہ ہٹیں۔مریم نواز نے والدہ کلثوم نواز کی غیر موجودگی میں لاہور سے ان کا ضمنی الیکشن بھی جیتا، ملک بھر میں ریلیاں نکالیں اور جلسوں میں حکمرانوں کو للکارتی رہیں۔ نوجوانوں کو لیپ ٹاپس اور سکالر شپس دینے کے پیچھے بھی مریم نواز کی سوچ ہی کارفرما تھی، پارٹی کو نوجوانوں میں مقبول بنانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔2018 ء کے انتخابات میں انہیں قومی اور صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا مگر اس سے قبل ایون فیلڈ ریفرنس میں 7 سال سزا سنا دی گئی، مریم نواز کو 10 سال کیلئے نااہل بھی قرار دیا گیا اور وہ الیکشن نہ لڑ سکیں۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے مریم نواز کی صلاحیتوں اور لیڈرشپ کے اعتراف میں انہیں پارٹی کا چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر مقرر کیا۔انہوں نے2024ء کا انتخابی محاذ بھی دبنگ انداز میں سنبھالا، مخالفین ان کے تیکھے بیانات سے پریشان ہوئے اور انہوں نے اپنے جارحانہ اندازِ بیان سے مسلم لیگ(ن) کو پنجاب اورمرکز میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والی جماعت بنایا۔مریم نواز جارحانہ سیاست کی علمبردار، لہجہ بھرپوراور سیاسی حکمت عملی بھی شاندار ہے۔تحریک انصاف کے دور حکومت میں جب لیگی قیادت جیلوں میں تھی تو مریم نواز نے پارٹی کی انتخابی سیاست کا محاذ خوب سنبھالا اور اپنی جماعت میں نئی روح پھونک دی۔ ضمنی انتخابات کا میدان لگا تو مریم نواز کی قیادت کے باعث ہی پنجاب کے تمام قومی و صوبائی حلقوں میں ن لیگ کو کامیابی ملی۔ یہی نہیں خیبر پختونخوا میں بھی ن لیگ نے بعض حلقوں میں میدان مارا۔ عوام میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ تحریک انصاف کی سیاست کا توڑ اگرکوئی کر سکتا ہے تو وہ مریم نواز ہیں کیونکہ مخالفین ان سے خائف ونالاں ہی رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی وزارت اعلیٰ کے پہلے چار ماہ میں اپنی انتظامی صلاحیتوں کا بھی لوہا منوالیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل میں وہ اسی شاندار کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھ پائیں گی، اس کیلئے چند ماہ اور انتظار کرنا پڑے گا۔

تبصرے بند ہیں.