افسوس کی بات ہے کہ بھارتی آبادی کے 14 فیصد مسلمانوں کی لوک سبھا میں نمائندگی 5 فیصد سے بھی کم ہے۔بھارت میں حالیہ عام انتخابات کے دوران 78 مسلمان امیدوار وں میں سے صرف 24 مسلمان اراکین پارلیمنٹ کامیاب ہوئے۔ جن نشستوں پر مسلمان امیدوار کامیاب ہوئے ان میں سے 14 ایسی نشستیں ہیں جہاں مسلم کمیونٹی اکثریت میں ہے۔کامیاب ہونیوالے تمام مسلمان امیدواروں کی وابستگی اپوزیشن اتحاد،انڈیا سے ہے۔ 2019 کے انتخابات میں 26 مسلمان امیدوار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔
گزشتہ ایک دہائی سے بھارت پر قابض مودی سرکار نے بھارت کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی مسلمانوں کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ مودی سرکار نے بھارت میں مسلمانوں کی نمائندگی اور سیاسی طاقت کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے، اسکے علاوہ سرکاری نوکریوں اور سول سروسز کے اعلی امتحانوں میں ہر سال مسلمان امیدواروں کے اکثریت جان بوجھ کر کم رکھی جاتی ہے۔بھارتی سول سروسز میں گزشتہ سال محض 6 مسلمان امیدوار منتخب ہوئے۔
مسلمان بھارت میں 200 ملین کی آبادی رکھتے ہیں جبکہ نام نہاد جمہوریت کی دعویدار مودی سرکار نے مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو بھی سبوتاژ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ حال ہی میں مودی نے انتخابی مہم کے دوران اپنی تقریروں میں مسلم مخالف بیان بازی کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کیلئے بڑھا چڑھا کر پیش کیا، 2014 سے قبل بی جے پی میں جو مسلم نمائندگی موجود تھی وہ مودی کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ختم ہو کر رہ گئی۔ بھارت اب ایسی ریاست بن چکا ہے جان بوجھ کر مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، مسلمانوں کی بھارت میں نمائندگی کو مٹانے میں مودی سرکار کا یہ مقصد پنہاں ہے کہ وہ تعلیم، نوکریوں، صحت اور دوسری تمام بنیادی سہولیات کا مطالبہ کرنے سے قاصر ہو جائیں۔
بھارت کی 14 فیصد سے زائد آبادی پر مشتمل مسلمانوں کی بی جے پی کے دور حکومت میں نمائندگی پانچ فیصد سے بھی کم ہو گئی ہے۔ مسلمان خواندگی، آمدنی اور تعلیم تک رسائی میں ہندوؤں، عیسائیوں اور ہندوستان کی نچلی ذاتوں سے پیچھے ہیں، مودی سرکار کے بغض کا یہ عالم ہے کہ وہ کسی قیمت پر بھی بھارتی مسلمانوں کی کامیابی نہیں دیکھ سکتی، بی جے پی نے ہر لحاظ سے بھارتی سرزمین مسلمانوں کے لیے تنگ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
تعداد کے تناظر میں دیکھا جائے توکیا کوئی جماعت مسلمانوں سے منہ موڑ سکتی ہے؟ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ تو چاہتی ہیں مگر ان کو ٹکٹ دینے کے نام پر خاموش ہو جاتی ہیں۔ بھارت کی ساری سیاسی پارٹیاں خود کو سیکولر کہتی ہیں مگر جب سیکولر ازم کا عملی مظاہرہ کرنے کا وقت آتا ہے تو کٹر ہندو بن جاتی ہیں۔ کانگریس تو سیکولر ازم کی سب سے بڑی دعویدار ہے۔ مسلمانوں سے ظاہراً ہمدردی بھی رکھتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ملک کی واحد جماعت ہے جسے مسلمانوں کے مفادات کی پرواہ ہے لیکن دوسری طرف پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی کانگریس کو بھی پسند نہیں۔ سیکولرازم کے تمام تر دعوؤں کے باوجود کانگریس، راشٹر وادی کانگریس، بہوجن سماج پارٹی، لوک جن شکتی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل جیسی جماعتیں مسلمانوں کو سیاسی تحفظات دیے جانے کے مطالبہ پر اندھی، بہری، گونگی ہوجاتی ہیں۔ مسلمانوں سے ووٹ لینے کیلئے ان کو ڈرایا جاتا ہے، دھمکایا جاتا ہے، فرقہ پرستی کا خوف دلایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ہمیں ووٹ نہ دیا تو پورا بھارت گجرات بن جائے گا۔
بی جے پی کا حال تو سب جانتے ہیں۔مودی دور حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ شائد اب تک کی تمام حکومتوں میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھنے جانے والے سلوک سے بھی ابتر تھا۔ یہ بھارتی مسلمانوں کی بدقسمتی ہی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ان کو بحیثیت ممبر پارلیمنٹ دیکھنے کو تیار نہیں۔ ساری سیکولر جماعتیں اس بات پر عمل کررہی ہیں کہ مسلمانوں کی پارلیمنٹ و اسمبلی میں سے نمائندگی کو کم سے کم کیا جائے تاکہ مسلمانوں کو دل خوش وعدوں کے ذریعہ آئندہ برسوں تک بہلایا جائے اور ان کے ووٹوں پر حکمرانی کی جائے۔
بھارتی مسلمان نے ووٹ دیتے ہوئے کبھی نہیں سوچا کہ امیدوار ہندو ہے یا مسلمان۔ کبھی فرقہ وارانہ نظر سے امیدوار کو نہیں دیکھا۔ صرف سیکولر ازم کے جھانسے میں آکر ووٹ دیا اور خود اپنا نقصان کرتا چلا گیا۔کیا یہ بات بھارت کے سیکولرازم کے منافقانہ اور ڈھونگ ہونے کا ثبوت نہیں کہ بھارت کی کسی بھی قومی علاقائی سیکولر جماعت کے مسلم امیدوار کو ہندو ووٹ نہیں ملتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور سماجی طور پر مسلمان بھارت کے نچلے درجے کے شہری ہیں۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ مسلمانوں نے بھارت میں کبھی اپنی اہمیت کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ انہیں اپنی حالت بدلنے کا خیال ہی نہیں آتا۔ اگر کبھی بھولے بھٹکے ایسا خیال آ بھی جائے تو نام نہاد مسلم قیادت کے منہ پر اس خوف سے تالے لگ جاتے ہیں کہ اگر ایسی کوئی بات کہہ دی جائے تو ان پر فرقہ پرستی کا الزام لگ جائے گا۔ فرقہ پرست تو یہ سیکولر ہندو جماعتیں ہیں۔بھارتی پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی تیزی سے کیوں گھٹ رہی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ’را‘ بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بھارت کا ایک دانشور طبقہ اسی لیے سیاست میں مسلمانوں کے لئے تحفظات کا مطالبہ کررہا ہے کہ اس طرح پارلیمنٹ و اسمبلی میں ان کی نمائندگی ہوسکے۔ بہر حال اگر بھارتی مسلمانوں کو اپنا سیاسی قد بڑھانا ہے تو متحدہو کر انتخاب لڑنا ہوگا اور زیادہ سے زیادہ اپنے مسلم ممبرز پارلیمنٹ میں بھیجنے ہوں گے تاکہ لوک سبھا میں مسلمانوں کے حق میں کوئی تو آواز بلند ہو۔
تبصرے بند ہیں.