بین الاقوامی تعلقات میں اس بات کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ دوسری قوم کے معاملات میں کب اورکس حد تک مداخلت کرنی چاہیے یا کی جا سکتی ہے۔ ان معاملات میں قیدیوں کے ساتھ سلوک اور ہینڈلنگ پر رائے زنی خاص طور پر ایک نازک مسئلہ ہے۔ خودمختاری کا اصول، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج ہے اور یہ حکم دیتا ہے کہ ہر ریاست کو بیرونی مداخلت کے بغیر اپنے اندرونی معاملات چلانے کا مکمل حق حاصل ہے۔ تاہم، پاکستان کی جانب کچھ حالیہ رجحانات اور واقعات، بالخصوص ایک قیدی سے متعلق معاملات، اس بنیادی اصول کو نظر انداز کرنے کی طرف ایک پریشان کن رویہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
کہا تو یہ جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ ان لابسٹ فرموں کے زیر اثر ہو رہا ہے کہ جن کی خدمات مذکورہ قیدی نے اپنی سیاسی پارٹی کے ذریعے حاصل کر رکھی ہیں۔ لیکن جو بھی ہو کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے حوالہ سے کوئی نہ کوئی ضابطہ اخلاق تو ضرور طے ہونا چاہیے۔ اگرچہ کچھ نہ کچھ اخلاقی اور قانونی پابندیاں تو اس راہ میں رکاوٹ ہیں لیکن اس کے باوجود بعض ممالک (اب تو اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ) کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات بالخصوص ایک قیدی سے متعلق مداخلت کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ مذکورہ قیدی کو جیل میں رکھنے کی مذمت اور جیل میں اس کے ساتھ مبینہ بدسلوکی پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
چند روز پہلے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ایوان نمائندگان نے (بقول ان کے اپنے) پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت کرنے کے حوالہ سے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں پاکستان کے 8 فروری کے عام انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں کے دعووں کی غیر جانبدارانہ تحقیقات پر زور دیا گیاہے۔ قرارداد کے حق میں 368 اراکین نے ووٹ دیا جبکہ اس کی مخالفت میں ٖصرف سات ووٹ آئے۔
26 جون کوامریکی ایوان نمائندگان کی جانب سے پاس کی گئی قرارداد کے چند ہی روز بعد اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کو بھی خیال آیا کہ مالی اور اخلاقی کرپشن کے الزامات کے تحت پاکستان کی اڈیالہ جیل میں قید ایک شخص کے ساتھ تو بہت زیادتی ہو رہی ہے اور اسے جیل میں رکھنا تو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ لہذا انہوں نے بھی اپنی ہی بتائی ہوئی صورتحال کے پیش نظر مذکورہ قیدی کو جیل میں رکھنے کی مذمت کر ڈالی۔ دو روزقبل جاری ہونے والی ایک رائے میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کا کہنا تھا کہ ’مناسب یہ ہوگا کہ مسٹر خان کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق اس کے ساتھ باقی معاملات کئے جائیں‘۔ ورکنگ گروپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ، ’ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کا مقصد اسے سیاسی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے سے نااہل قرار دینا تھا‘۔
ورکنگ گروپ یہاں تک نہیں رکا بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ 2024 کے عام انتخابات سے قبل عمران خان کی پارٹی کے ارکان کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی ریلیوں میں خلل ڈالا گیا۔ اس نے یہ بھی الزام لگایا کہ ”انتخابات کے دن وسیع پیمانے پر دھوکہ دہی کی گئی اور درجنوں پارلیمانی نشستوں کو چرا لیا گیا۔ ورکنگ گروپ کا بیان پڑھنے کے بعدذہن میں پہلا تاثر تویہ ابھرتا ہے کہ یہ کسی بین الااقومی ادارے کا نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے کسی سرگرم کارکن کا بیان ہے۔ اگر ایسا نہیں تو کم از کم یہ تو ضرور ہے کہ کسی نے انہیں ایک بیان لکھ کر دے دیا ہو اور انہوں نے لفظ بالفظ وہ پڑھ دیا ہو۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پاکستان میں ہزاروں لوگ سیاسی معاملات کے علاوہ چوری، ڈکیتی، فراڈ اور اخلاقی جرائم کی پاداش میں جیلوں میں بند ہیں۔جانے کیوں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کو ان کے معاملا میں بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی؟۔ اس کے علاوہ سیاسی عمل میں ابھی کچھ ہی سال پہلے نواز لیگ میں پوری طرح توڑ پھوڑ کر کے ق لیگ قائم کر دی گئی اور پیپلز پارٹی کے اند ر پارلیمنٹیرین گروپ قائم کر دیا گیا، وقت کے وزیر اعظم کو قاتل اور ہائی جیکر قرار دیا گیا اور ہتھکڑیاں لگا کر جلاوطن کیا گیا، جیلوں میں ٹھونسا گیا اور پاکستان تحریک انصاف نامی سیاسی جماعت کو حکومت میں لانے کے لیے ہر جائز اور ناجائز طریقہ استعمال کیا گیا لیکن جانے اس وقت یہ بین الااقوامی ادارے کیوں خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے۔
امریکی ایوان نمائندگان اور اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے جو بھی بیان بازی کی ہو لیکن پاکستان کی قوم اور یہاں کی حکومت کو اس مسئلہ کی سنگینی کو سمجھنا چاہیے اور اس بات کی گہرائی سے تحقیقات ہونی چاہیں کہ آخر ان لوگوں کو ایک ایسی جماعت اور اس کے لیڈر سے اتنی ہمدردی کیوں ہے کہ جو ماضی میں سول نافرمانی کی کالیں دیتے رہے، قومی اداروں پر حملہ آور ہوئے، حکومت کی آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کو ناکام بنانے کے لیے خط بازی کرتے رہے اور قومی دفاع سے متعلق اداروں کے اعلیٰ ترین افسران کو غدار اور جانے کیا کیا کہتے رہے؟۔
میرا خیال ہے کہ یہ بہت ہی سنگین نوعیت کا مسئلہ ہے لیکن ہماری حکومت کی جانب سے اس پر مناسب ردعمل نہیں آیا۔اگرچہ کچھ وفاقی وزرا نے اس سلسلہ میں پریس کانفرنس کی ہے، کچھ بیانات بھی جاری کئے گئے ہیں، قومی اور پنجاب اسمبلی سے قراردادیں بھی منظور کروائی گئی ہیں لیکن شائد ہونا تواس سے بہت زیادہ چاہیے تھا۔ اس مسئلہ کا سفارتی سطح پر بھی بھر پور ردعمل سامنے آنا چاہیے اور امریکہ اور اقوام متحدہ کو سخت قسم کے خطوط لکھے جانے کے علاوہ دوست ممالک کو بھی نہ صرف اس مسئلہ پر اعتماد میں لیا جانا چاہیے بلکہ ان سے سفارتی حمائت کی درخواست بھی کی جانی چاہیے۔
واضح رہے کہ اگر آج پاکستان کی طرف سے بھرپور ردعمل سامنے نہ آیا تو کل پاکستان میں موجود سیاستدانوں کا لبادہ اوڑھے کچھ کرداروں کے علاوہ غیر ممالک اور ادارے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لیے مزید تگڑے ہو جائیں گے اور خدا نخواستہ ایسی صورتحال بن گئی تو پھر حالات کو قابو کرنا مشکل تر ہو جائے گا۔
تبصرے بند ہیں.