بدمستی خیل

46

ہم”نک دا کوکا“ فتح ہونے کا جشن منا رہے تھے کہ قومی اسمبلی کے رْکن ثناء اللہ مستی خیل نے ہمارا سارا مزا کر کرا کر دیا، ان کا نام”مستی خیل“ کے بجائے ”بدمستی خیل“ ہونا چاہئے، یہ المیہ ہے معاشرہ بداخلاقی اور بدزبانی کے بدترین مقام پر اس احساس سے مکمل طور پر بالاتر ہو کر کھڑا ہے کہ زبان واحد جسمانی عضو ہے جس میں ہڈی اس لئے نہیں ہوتی اللہ کو زبان کی نرمی بہت پسند ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں زبان کی نرمی کے بجائے زبان کی بے شرمی لوگوں کو اتنی پسند ہے بولتے اور بکتے ہوئے اب کوئی یہ سوچتا ہی نہیں اس کے کتنے برے اثرات پوری سوسائٹی پر مرتب ہوں گے؟ اللہ جانے ہمارے سیاستدانوں اور ارکان پارلیمینٹ نے اور کتنی غلاظتیں یہاں پھیلانی ہیں؟ ایسے ایسے بے شرم ارکان پارلیمینٹ موجود ہیں ان کا بس چلے ایوان میں اپنے مخالفوں کو گالیاں دیتے دیتے اچانک اپنے کپڑے اتار کے ایک دوسرے پر پھینکنا شروع کر دیں، دوپٹے اتارنے کا عمل تو شروع ہو ہی چکا ہے، ویسے مستی خیل نے جن ”جسمانی جڑواں اعضاء“ کے اٹھانے کی بات کی وہ ان کے منہ میں بہت اچھے لگ رہے تھے، یوں محسوس ہو رہا تھا اپنا پْورا سیٹ ہی اْتار کے اپنے منہ میں انہوں نے رکھ لیا ہوا ہے، بدمستی خیل نے فرمایا”وہ عوام کے ووٹ لے کر اسمبلی میں آئے ہیں“، انہوں نے ظاہر کر دیا وہ کس قسم کے عوام کے ووٹ لے کر اسمبلی میں آئے ہیں، میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہا ہوں بجائے اس کے ہمارے عوام بدمستی خیل کی بدزبانی پر لعنت بھیجیں اسے باقاعدہ انجوائے کیا جا رہا ہے، ان کا اٹھانے والا ”وڈیو کلپ“ مختلف واٹس ایپ گروپوں میں ایسے وائرل ہو رہا ہے جیسے اس سے بیماروں کو شفا ملنی ہے، ایک نوے سالہ بابے نے یہ کلپ مجھے بھیج کر گزارش کی”میں اسے زیادہ سے زیادہ فارورڈ کر کے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کروں“، میں نے عرض کیا ”بابا جی آپ کی تو ٹانگیں بھی لٹکی ہوئی ہیں، قبر میں، آپ تو کچھ شرم کریں“، قومی اسمبلی میں ایک بدمست ہاتھی کی بدزبانی کا یہ واقعہ پہلا ہے نہ آخری ہے، یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا کیونکہ ہمارے کچھ ارکان اسمبلی اگر اس طرح کی بدزبانی یا بے شرمی نہیں کریں گے اْن کے شجرہ نصب کا پتہ کیسے چلے گا؟ اعلیٰ اخلاقی اقدار کے مالک ایک بہت ہی عظیم و نفیس بزرگ سیاستدان حاجی افضل چن صاحب کا زیادہ وقت اب کینیڈا میں گزرتا ہے، میں اگلے ہفتے کینیڈا جا کر سب سے پہلے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے گزارش کروں گا پاکستان میں ایسی اکیڈمی یا ادارہ بنائیں جو سیاستدانوں بالخصوص نوجوان سیاستدانوں کی تربیت اور کردار سازی کرے، میرا جی چاہتا ہے میں نوابزادہ نصر اللہ خان، ملک معراج خالد، ڈاکٹر مبشر حسن، محمد حنیف رامے اور مخدوم حسن محمود کی قبروں پر جا کر یہ کلام پڑہوں ”اج آکھاں وارث شاہ نوں کتھوں قبراں وچوں بول، تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول“، یہ سب ہماری سیاست کے ”وارث شاہ“ ہی تھے، اب سارے ”مظہر شاہ“ ہیں جنہیں سوائے بڑھکیں لگانے کے اور کوئی کام ہی نہیں ہے، ایک اور گریس فل سیاستدان میاں چنوں کے اسلم بودلہ تھے، مرحوم وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں سیاست میں آنے سے پہلے اْن کے ”منشی“ تھے، وہ شریف برادران کی تابعداری میں آنے کے بعد اسلم بودلہ کی سیاسی مخالفت کرتے ہوئے اکثر یہ بھول جاتے تھے وہ ان کے منشی رہے ہوئے ہیں، وہ جس محفل میں بیٹھتے اسلم بودلہ کے خلاف بولتے، ایک روز اسلم بودلہ کسی تقریب میں مجھے مل گئے، میں نے ان سے پوچھا ”سر وائیں صاحب کو آپ سے کیا مسئلہ ہے وہ آپ کے بارے میں اکثر بہت فضول گفتگو کرتے ہیں؟، میرا خیال تھا اس سوال کے جواب میں بودلہ صاحب بھی وائیں صاحب کے بارے میں ویسی ہی گفتگو کریں گے جیسی وائیں صاحب اکثر اْن کے خلاف کرتے ہیں، مگر ہوا یہ کہ میری بات سن کر بودلہ صاحب مْسکرائے اور میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کے بولے”برخودار کبھی وہ ہمارے مہربان تھے آج کل نامہربان ہیں“، اس سے زیادہ ایک لفظ اْنہوں نے نہیں کہا، سیاست کے یہ سب ہیرو اور ہیرے ہم کھو چکے ہیں، اب ہمارے پاس صرف کچرہ ہے جس کی بو سے ہمارا دم اس لئے نہیں گھٹتا ہم ”چوڑوں“ کو گندگی سے کیا بو آئے گی؟ نوابزادہ نصر اللہ خان کا کوئی مخالف سیاستدان ان کے خلاف بات کرتا وہ اس کے جواب میں کوئی شعر سنا دیتے، ملک معراج خالد کا کوئی مخالف سیاستدان ان کے خلاف بات کرتا وہ اس کے پاس چلے جاتے یا فون پر اْس سے کہتے او جھلیا میں تیرا مقابلہ نئیں کر سکدا“، بھٹو کے زمانے میں وزیراعلیٰ پنجاب حنیف رامے اور گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر کی آپس میں نہیں بنتی تھی، کھر صاحب کے کردار سے کون واقف نہیں؟ ایک بار اْنہوں نے کسی فورم پر حنیف رامے کے بارے میں کوئی سخت بات کہہ دی، حنیف رامے پائے کے ایک مصور بھی تھے، اگلے ہی روز انہوں نے ایک خوبصورت پینٹنگ بنا کے کھر صاحب کے گھر بھجوا دی، مخدوم حسن محمود صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے، ایک بار وہ اسمبلی میں تقریر کر رہے تھے کسی حکومتی رکن نے انہیں ٹوک دیا، انہوں نے فوراً تقریر ختم کر دی اور فرمایا ”میں اپنی بات جاری نہیں رکھ سکتا“ اس حکومتی رکن اسمبلی نے مخدوم حسن محمود کی نشست پر جا کر ان سے معافی مانگ لی، مخدوم صاحب نے انہیں گلے سے تو لگا لیا مگر دوبارہ تقریر کرنے پر راضی نہ ہوئے، اب اپنے کسی سیاستدان یا رکن پارلیمنٹ سے ہم یہ توقع کر سکتے ہیں ایسی محبت، رواداری یا شرم و حیا کا وہ مظاہرہ کرے گا؟ پارلیمنٹ سمیت ہمارے بے شمار ادارے بے شرمیوں اور بے حیائیوں کے ایسے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں جہاں محبت رواداری اور حیا کی کوئی قدر ہی نہیں ہے، بدمستی خیل نے بدزبانی کر کے معافی مانگ لی، ایک جیسے بے شرم اور بے حیا لوگ ایک دوسرے کو معاف کرتے رہے ہیں کرتے رہیں گے، مگر اپنی زبان سے جو گہری ضرب بدمستی خیل نے ہماری تھوڑی سی بچ جانے والی اخلاقیات پر لگائی ہے اس کا ازالہ شاید کسی صورت میں نہیں کیا جا سکے گا، بدمستی خیل مجھے صرف ایک بات بتا دیں اگر ان کی بیٹی یا بیٹے نے پوچھ لیا ”ابو جی آپ نے اسمبلی میں کیا اٹھانے کی بات کی تھی؟“ وہ کیا جواب دیں گے؟ سوائے اس کے وہ ان کے سامنے نعرہ لگا دیں۔

کون بچائے گا پاکستان
عمران خان عمران خان

تبصرے بند ہیں.