ساہڈے کولوں کی لبھناں جے؟

32

بٹ صاحب آپ نے اپنے پچھلے کالم میں ہندوستان اور امریکہ سے میچ ہارنے پر ہمارا ”توا“ لگانے کی ناکام کوشش کی تھی، کل ہم نے کینیڈا کی ٹیم کو شکست دے کر ثابت کر دیا آپ کا ”توا“ بالکل غلط تھا، اگر ہمیں اجازت دی گئی ورلڈ کپ بھی ہم جیت لیں گے، ”اجازت“ کی بات اس لئے کی کہ ورلڈ کپ جیتنے والے بعد میں ایسے مسائل کھڑے کر دیتے ہیں جن سے نمٹنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے، امریکہ اور انڈیا سے میچ ہارنے پر آپ نے اپنے پچھلے کالم میں اپنے مخصوص گھٹیا انداز میں ہمیں شرم دلانے کی جو ناکام کوشش کی تھی ہم اْس کی شدید مذمت کرتے ہیں، ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں آپ ہمیں شرم دلانے کی جتنی مرضی ناکام کوشش کر لیں اپنے ”قومی مزاج“ کے مطابق ہمیں کبھی شرم نہیں آئے گی، پاکستان میں کون ہے جسے اپنی شکستوں اور حماقتوں پر کبھی کوئی شرم آئی ہو؟ سب سے پہلے آپ اپنی مثال سامنے رکھ لیں، آپ اپنے کالموں میں اور مختلف ٹی وی شوز پر اللہ جانے کس کس کے کہنے پر کیا کیا لکھ اور بول دیتے ہیں، آپ کئی طاقتور واٹس ایپ گروپوں سے جڑے ہوئے ہیں، وہاں سے جو ہدایات ملتی ہیں آپ حرف بہ حرف وہی لکھ اور بول دیتے ہیں اور شکر ادا کرتے ہیں آپ کو محنت نہیں کرنی پڑتی، بنا بنایا مواد مل جاتا ہے، پورا سچ لکھنے اور بولنے کی اول تو آپ کو توفیق ہی نہیں ہوتی، اس کے لئے ہلکی پھلکی کوئی کوشش کبھی آپ کر بھی لیں وہ اس لئے ناکام ہوجاتی ہے اس کا کوئی تجربہ ہی آپ کے پاس نہیں ہے، چودھری پرویز الٰہی نے صحافی کالونی بنائی، چلیں مستحق صحافیوں کو اس میں پلاٹ ضرور ملنے چاہئیں تھے، مگر آپ جیسے کچھ مشٹنڈے صحافی جن کے کئی کئی بنگلے تھے، جو کئی حکومتوں سے پہلے بھی پلاٹ لے چْکے تھے، جن کے کروڑوں اربوں کے بینک بیلنس تھے، آپ کو پلاٹ لیتے ہوئے کوئی شرم آئی تھی؟ ملک ریاض کی طرف سے بار بار آپ کی برادری کے کچھ خواتین و حضرات کو ملنے والی رقموں اور پلاٹوں کی تفصیلات سوشل میڈیا پر پھینک دی جاتی ہیں، کیا اْن میں سے کسی نے کبھی کْھل کر اس کی تردید یا تصدیق کی؟ یا ”تحقیقاتی صحافت“ کے ماہرین نے اس کی کوئی چھان بین کی ان فہرستوں میں کس کا نام درست کس کا غلط ہے؟ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کے کہیں اگلی کوئی حکومت یا ملک ریاض ایک بار پھر آپ کو پلاٹ یا لفافے کی پیشکش کرے آپ انکار کر دیں گے؟ آپ اقتدار کے ایوانوں سے لفافے لے کر نکلتے ہی رقم گننا شروع کر دیتے ہیں، یہ بھی نہیں دیکھتے کوئی آپ کو دیکھ رہا ہے، بندہ گاڑی میں بیٹھ کر لفافہ کھول لیتا ہے رقم گن لیتا ہے، اتنی بے صبری دکھاتے ہوئے آپ کو کبھی شرم آئی ہے جو ہمیں چند میچ ہار کے آئے گی؟ آپ اور آپ کے بے شمار دوستوں نے اپنے ذاتی و مالی مفادات کی خاطر کئی اخبارات اور چینل بدلے کیا دوسری طرف اپنے جیسے جماعتیں بدلنے والے سیاستدانوں کو لوٹا قرار دیتے ہوئے آپ کو کوئی شرم آئی جو ہمیں آئے گی؟ ایک غلیظ سسٹم کے آپ بھی اْسی طرح بین فشری ہیں جس طرح ہم ہیں، اس غلیظ سسٹم کی تبدیلی کی جھوٹی خواہشیں ظاہر کرنے پر آپ کو کبھی شرم آئی جو ہمیں آئے گی؟ آپ اور آپ کی برادری کے کچھ لوگ سرکار سے بے شمار مراعات لیتے ہیں، سرکاری عہدے لیتے ہیں، پھر ان عہدوں سے فارغ ہونے کے بعد سرکار کو گالیاں بھی دیتے ہیں، کیا آپ کو کبھی شرم آئی جو ہمیں آئے گی؟، جس طرح آپ کی برادری میں بے شمار اچھے لوگ ہیں ہماری ٹیم میں بھی ہیں، چنانچہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہئے، یقین کریں ہم تو اس خوف سے بھی اپنی کارکردگی بہتر نہیں بناتے کہ پاکستان میں بے شمار ادارے اپنی کارکردگی بہتر نہیں بنا رہے، ان حالات میں وہ ادارے کہیں مائینڈہی نہ کر جائیں کہ یہ کون ہوتے اپنی کارکردگی بہتر بنا کر ہم سے زیادہ اپنے نمبر بنانے والے؟ سو اپنے ان اداروں کے حسد اور انتقام سے بچنے کے لئے بھی بعض اوقات جان بوجھ کر نااہلیوں کے مظاہرے ہمیں کرنے پڑ جاتے ہیں، کہنے کا مقصد یہ ہے ہم سے زیادہ بڑی بڑی شخصیات اور پی سی بی سے زیادہ بڑے بڑے ادارے اپنی مسلسل بداعمالیوں پر شرمندہ ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو ہمیں کیا ضرورت ہے خوامخواہ اپنے ضمیروں کو جگانے کی ناکام کوشش کرکے اپنا قیمتی وقت ہم ضائع کریں؟ ہمارے کچھ ججوں، جرنیلوں، جرنلسٹوں اور بے شمار افسروں  نے اس ملک کو ناکام بنانے کی کئی کامیاب کوششیں کیں، ان سے کسی نے کوئی حساب لیا جو ہم سے حساب لینے کی کوئی جرأت کرے گا؟ ویسے بھی جس ملک میں انتہائی ان پڑھ جاہل شخص وزیر تعلیم بن سکتا ہو، انتہائی جرائم پیشہ شخص وزیر قانون بن سکتا ہو، انتہائی بیمار شخص وزیر صحت بن سکتا ہو، وہاں سفارش پر قومی کرکٹ ٹیم میں کچھ ایسے کھلاڑی کیوں شامل نہیں ہوسکتے جو چھکے چوکے مارنے کے بجائے اور ہی کچھ مارنے کے ماہر ہوتے ہیں؟ کہتے ہیں پیپلز پارٹی کے دور میں ایسے شخص کو ہائی کورٹ کا جج بنا دیا گیا تھا جو جج بننے کے بعد ہائی کورٹ کا پتہ پوچھ رہا تھا، شاید آپ نے ہی اپنے ایک کالم میں لکھا تھا” ایک بار افغانستان کے ایک وزیر صاحب پاکستان کے دورے پر تشریف لائے، وزارت خارجہ کے ایک سینئر افسر نے پاکستان کے وزیراعظم سے ان کا تعارف کروایا کہ یہ افغانستان کے وزیر ریلوے ہیں، پاکستانی وزیراعظم  نے حیرانی سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے ان سے پوچھا ”افغانستان میں تو ریلوے ہی نہیں ہے آپ وزیر ریلوے کیسے ہوگئے؟“، وہ بولے ”جیسے آپ کے ہاں وزیر قانون ہوتے ہیں“، آپ کیا سمجھتے ہیں امریکہ اور انڈیا سے میچ ہارنے کے بعد ہم چپ کر کے بیٹھ جائیں گے؟ ہمیں انڈیا امریکہ اور پاکستان کی کئی کمپنیاں ماڈلنگ کی آفر کر رہی ہیں، اس فیلڈ میں سخت محنت کرنے کے بعد جو تھوڑا بہت وقت ہمارے پاس بچے گا اس میں کرکٹ کی پریکٹس کر کے آئندہ کم از کم بھارت سے میچ جیتنے کی ہم پوری کوشش کریں گے کیونکہ بھارت کے ساتھ اب ہم صرف کرکٹ کی حد تک ہی مقابلہ کرنے کے خواہشمند رہ گئے ہیں، اور کسی شعبے میں ہم اْس سے آگے نکلنا ہی نہیں چاہتے، اس حوالے سے قوم نے ہماری اہلیت جانچے بغیر ساری ذمہ داری ہی پر ڈال کے بڑی زیادتی کی ہے،ہم تو کسی اگلی شکست کے لئے بھی ذہنی طور پر اس لئے تیار ہیں کہ چلیں اسی بہانے آپ جیسے ”حاسد صحافیوں“ کو ہم پر تنقید کرنے کا موقع مل جائے گا کیونکہ سیاستدانوں کی طرح ہم بھی ”سافٹ ٹارگٹ“ ہیں، آپ نے لکھا ”کرکٹ ٹیم نے ہندوستان سے میچ ہار کے ہمارا دل توڑا ہے“، ہم  نے تو صرف دل توڑا ہے جنہوں نے ملک توڑا، جنہوں نے آئین توڑے، ان کا کیا بگاڑ لیا آپ نے؟ اور آخری بات یہ کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں انڈیا اور امریکہ سے میچز ہارنے یا ورلڈ کپ سے باہر ہونے کے بعد پاکستان واپسی پر ہماری کوئی عزت نہیں ہوگی یا ہمارے ساتھ کوئی سیلفیاں وغیرہ نہیں بنائے گا یہ آپ کی بھول ہے، پاکستان میں اب لوگ کسی کی اہلیت یا کارکردگی کی وجہ سے اس کی عزت نہیں کرتے اْس کی گھٹیا شہرت کی وجہ سے کرتے ہیں یقین نہ آئے تو چاہت فتح علی خان سے پوچھ کر ہماری جان چھوڑیں، اور کسی ایسے موضوع پر کالم لکھیں جس کا کوئی لفافہ شفافہ آپ کو مل جائے، ساہڈے کولوں کی لبھناں جے؟

تبصرے بند ہیں.