جنگِ عظیم دوم کے بعد سے دنیا مادی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اخلاقی زوال کے گڑھے کی طرف تیزی سے گررہی ہے۔ خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر جانے اور مادہ پرستی کے ہاتھوں انسانیت گناہوں کے زقوم بو کر ظلم و درندگی، عریانی، فحاشی کے جنگلوں میں کھو گئی اقدار سے تہی دامن! حسن البناء پہلے ہی کہہ چکے تھے: مغربی افکار فیل ہو چکے۔ ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم دنیا کے لیے نئی تہذیب پیش کریں جس کے اجزائے ترکیبی روح اور مادے کے امتزاج اور آسمان و زمین کے درمیان ربط سے وجود میں آئے ہوں۔ جو بھی مسائل پیش آئیں انہیں قرآن و سنت او تاریخ سے تلاش کیا جائے! اسلام کا روح پرور نظام غریب اور امیر کے درمیان حق کا رشتہ قائم کرتا ہے، احسان کا نہیں! سربراہ اور ماتحت کے درمیان تعاون کا رشتہ قائم کرتا ہے نہ کہ سربراہی اور برتری کا۔ حاکم اور عوام کے درمیان ذمہ داری کا رشتہ استوار کرتا ہے نہ کہ تسلط اور غلبے کا۔
یہ حیات بخش نظام زندگی اس چھوٹے سے خطے میں پروان چڑھا جسے دنیا میں اب سب سے بڑی کھلی جیل یعنی غزہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اخوت کی لڑی میں پروئے اہل غزہ ہر سطح پر! حکومتی اہلکار، اسپتالوں میں مریضوں پر جان لٹاتے ڈاکٹر، دنیا تک اپنی مظلوم قوم کا احوال پہنچانے کو اپنے گھر، خاندانوں کے تحفظ سے بے پروا صحافی۔ بوڑھا بچہ جوان مرد و زن ناقابل ِیقین صبر و ثبات، ایمان و توکل علی اللہ کی ناقابل ِتسخیر چٹانیں۔ مغربی نئی نسلیں بے مقصدیت اور بے جہت زندگی کے ہاتھوں ویران، حیران و سرگرداں، LGBTQ اور Kin Other The کے عنوان سے کتے، بلیاں بنے، ہیئت بدلنے کی دیوانگی، ابتلا میں تھیں، روحانی خلا میں سکون کی تلاش میں Weeping Therapy کروا رہی تھیں۔ یعنی جاپان تا امریکا پیسے دے کر رونے کے سیشن کرواتے۔ فرضی المناک قصے کہانیاں سن کر زارو قطار روتے۔ روح کی آلودگی، داخلی بے قراری دور کرنے، جذبات کی تسکین کے یہ نفسیاتی ڈھکوسلے مغرب میں مقبول ہو رہے تھے۔
ایسے میں امریکا اور اسرائیل نے مل کر دنیا کی اسٹیج پر غزہ کی خونچکاں داستانیں لا سجائیں۔نوجوان نسل، جین زی (Gen Z) ٹک ٹاک پر ایک نئی دنیا ابھرتی دیکھنے لگی۔ آنکھیں کھولے منہ پھاڑے۔ یہ مغربی نسل والدین کی شفقت سے محروم رُل رُل کر پروان چڑھی تھی۔ اس نے رشتے ناتوں پر جان چھڑکتے بھرے پرے خاندانوں کی کہانیاں دیکھیں۔ جس لڑکی کی تصویر پر فوٹو گرافر کو عالمی ایوارڈ ملا وہ ایک ننھی بچی کی لاش بے قرار محبت سے لبالب
بھری، سینے سے چمٹانے والی ماں نہیں، خالہ کی تصویر تھی! دوسری کلپ جس نے انسانی محبت کے بہتے زمزمے بے مروت بے حسی کے جنگلوں میں ویران پھرتی نسلوں کو دکھائے، وہ خالد نبھان، فلسطینی نانا تھا جو میری زندگی میری جان (روح الروح) کہہ کر ہیرے جواہر سی نواسی کی لاش گود میں لیے دنیا کو دکھا رہا تھا! اسرائیل اور امریکا کی مشترکہ پیش کش، بھری دنیا کے بیچ انسانی لاشیں لا لا کر ڈھیر کرنے والے۔ رہتی بستی ہری بھری آبادیوں پر کارپٹ بمباری کرتے وحوش۔ مغربی نوجوان مرد و زن ماں باپ کے محبت بھرے لمس سے محروم، پیاسی کٹی پھٹی شخصیتوں کو ایک محور مل گیا، سرا ہاتھ آگیا، محبتوں سے لہلہاتی مہکتی آبادیاں اب جو یوں تباہ کی جاتی دیکھیں، نوجوان ذہین و فطین طلبہ دیوانے ہو کر اٹھ بیٹھے۔ پھول سے معصوم بچوں کی لاشیں، معزز پاکیزہ حاملہ ماؤں کا رلنا، دربدری، خوراک سے، گھر بار خاندانوں سے محرومی! وہ بیج جو بے نور سینوں میں بظاہر مردہ پڑا تھا، غزہ کے خون سے آبیاری پاکر مغرب میں پھوٹا پھلا پھولا۔
فلسطینی جھنڈا پارلیمنٹوں، یونیورسٹیوں، گھر گھر لہرانے لگا۔ انسانیت کی تجدیدِ زندگی اب یہاں سے ہوگی، فرانس (شان رسالتؐ میں گستاخی کے مرتکب ہم سب چارلی ہیں کا بھاری جلوس نکالنے والے!) کے چھوٹے بڑے سبھی شہروں میں فلسطین کے لیے مارچ کا سونامی پھوٹ پڑا۔ یہ فرنچ بیکری ہے جو دھڑا دھڑ فلسطینی جھنڈے والے کیک بنا کر بیچ رہی ہے اور یہ رقم غزہ کے بچوں کے لیے مختص کر دی ہے۔فرانسیسی غضب ناک ہو کر لگاتار مظاہروں میں ہیں۔ پولیس کے حملے برداشت کرتے بے خوف! فرانسیسی ممبر پارلیمنٹ نے سیشن کے دوران فلسطینی جھنڈا لہرادیا، یہ کہہ کر کہ سمندر پار ہمارے ہی جیسے انسانوں کا ذبح عام ہو رہا ہے، فرانس خود اس میں شریک ہے۔ پارلیمنٹ میں اس سے ہم آواز ہونے کو تالیاں بجیں مگر اسپیکر نے سٹپٹا کر سیشن ختم کر دیا، 15 دن کے لیے اسے معطل کر دیا۔ سبیسٹن ڈیلوگو طلبہ کی ریلی میں جاپہنچا، قتل عام کی شدید مذمت کی، نوجوانوں سے زبردست پذیرائی وصول کی۔ یہ ایک اور طرح کے انقلاب فرانس کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ یورپ تشویش اور دنیا حیرت بھری نظروں سے تک رہی ہے۔ تقریباً 20 ہزار کے قبولِ اسلام کی خبریں مزید ہیں! دنیا دونوں اطراف کو بچشم سر دیکھ رہی ہے۔ ایک گوری خاتون یہ جملہ دہرائے چلے جارہی ہے دیوانہ وار کہ ”ننھے بچے نے پیمپر پہن رکھا تھا مگر اس کا سر نہ تھا“ چلّا چلّا کر دنیا کا ضمیر جگانے کی کوشش کرتی ہے۔ دوسری جانب الاقصی بریگیڈ نے تلکرم میں نشانے پر لیا گیا اسرائیلی افسر آخری لمحے صرف اس لیے چھوڑ دیا کہ اسرئیلی بچے وہاں نظر آگئے! ان کی زد میں آنے کے خدشے سے صرف اسرائیلی کی رائفل اور ہینڈ گن اٹھا کر نکل آئے! دنیا جانچ رہی ہے۔ فلسطینی جنگ کی شدت میں بھی دشمن کے عورتوں بچوں کا احترام و لحاظ رکھتے ہیں۔
نئے انقلاب کی بنیاد نوجوانوں نے رکھ دی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا کریہہ چہرہ بے نقاب ہو چکا۔ خون آشام، مغربی ڈریکولا نما حکمرانوں کے دانتوں میں پھنسی انسانی گوشت کی بوٹیوں کے ریشے اور ہونٹوں سے ٹپکتا خون دنیا دیکھ کر متنفر ہے۔ تبدیلی آرہی ہے۔ ہم فرسودہ نظام کے اسیر ہیں۔ مسلم دنیا منہ تک رہی ہے ہونق بنی! بین الاقوامی سطح پر بھی حکمرانوں اور علماء کی خاموشی حیران کن ہے۔ جو بات مسلم عوام نہیں کر سکتے، وہ امریکی نو مسلم بول اٹھا۔ ایمان لا کر ہمارا کچا چٹھا کھول دیا۔ کہتا ہے: تمہیں مسلمان ہونے کا دعویٰ ہے؟ اللہ کی طرف سے ایک مقصد ہے جو تمہیں پکار رہا ہے۔ تمہارے پاس فوجیں ہیں مگر تم اٹھ نہیں رہے۔ سورۃ التوبۃ میں یہ سب موجود ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کو کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ تم نہ اٹھو گے تو اللہ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اٹھائے گا اور تم اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (38-39)
نو مسلم کہتا ہے: تم سعودی! اب تم مسلمان نہیں رہے، قریش ہو گئے ہو از سر نو! روزانہ سینکڑوں مسلمان جانیں دے رہے ہیں اور تم صرف زمزم بوتلوں میں بھرتے، حج پیکیج بیچتے ہو، یوں گویا سب کچھ نارمل ہے؟ یہ شرمناک اور انتہائی ناگوار ہے۔ وہ ہرمسلم ملک کو آخرت کے دن اور جواب دہی سے ڈراتا ہے، بددعا دیتا ہے کہ جو خاموش امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بمباریوں کا نشانہ بنتے دیکھ رہا ہے۔ تمہاری فوجوں کے لیے انہیں بچاتے ہوئے مٹ جانا شہید ہوجانا بہتر تھا بہ نسبت اس کے جو تم اب کر رہے ہو، اذیت ناک افسوس ناک! قربانیاں دیتے فلسطینی امت محمدؐ ہیں۔ نہ کہ تم فوجیں لیے بے مصرف کھڑے!
آزاد دنیا کے باسی یہ سب کہہ کر بھی جی سکتے ہیں۔ ہم برطانوی استعمار کے آج بھی ریموٹ کنٹرولڈ غلام ہیں۔ گورے جاتے ہوئے وڈیروں، چاپلوسوں، داداگیروں کو مناصب، حکومتیں تھما کر قوم کو ان کی جاگیر، کمی کمین، مزارعے بنا گئے تھے۔ دیکھ لیجیے کہ پیرس میں مظاہرین میکڈونلڈ کا ’ڈی‘ قدموں تلے روند رہے اور اس کی کھڑکیوں پر بائیکاٹ کا حکم نامہ اسپرے کر رہے ہیں۔ کیوں؟ میکڈونلڈ نے اسرائیلی قاتل فوجیوں کو مفت کھانے فراہم کیے تھے جبکہ ہمارے یہاں یہ ’ڈی‘ بڑا مقدس ہے، PSL میں دمکتا ہے۔ ڈی چوک البتہ بہت احتیاط طلب ہے! جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں! وہاں ’سیو غزہ‘ دھرنا چل رہا ہے۔
تبصرے بند ہیں.