دنیا نے سب سے زیادہ ترقی دو کاموں میں کی ہے۔ ایک تو عام سی شکل صورت کو دوچار گھنٹوں کے لیے حسین و جمیل کرکے پیش کر دیا جاتا ہے اور اچانک دیکھنے والا حیران تو ہوتا ہی ہے، بعد میں پریشان ہوتا ہے ہمیشہ کے لیے۔ جو پاؤڈر جو کریم اور لوازمات پہلے سو دو سو چار سو میں مل جاتے تھے اب وہ لاکھوں میں چلے گئے پھر بھی عورتوں کو گلہ ہے…… ”سچا پیار نہیں ملا“……؟
دوسری ترقی انسان نے جھوٹ بولنے میں کی ہے…… جی آپ نے کیا فرمایا…… ”یہ بھی پہلے جیسی ہی صورتحال ہے۔ یعنی جو ہے وہ نظر نہیں آتا۔ جو نہیں ہے وہ بنا کے پیش کر دیا جاتا ہے۔ آپ حیرت زدہ ہوں گے یہ میں نے کون سے دو موضوعات چن لئے ہیں؟ اصل میں بکرا عید کی آمد ہے اور میں بچوں کے اصرار پر کوشش میں ہوں کہ بکرا خریدنے خود بکرامنڈی جاؤں اور چالاکی سے لاکھ والا بکرا…… ستر ہزار میں لے آؤں۔ جی……جی آپ نے کیا فرمایا۔ ادھر جو بکروں کا سوداگر آیا ہے وہ بھی اسی سوچ میں ہے کہ چالیس ہزار والا بکرا لاکھ میں بیچ دوں …… گاہک کو اندھا کر دو۔ چاہے راستے میں ڈاکو پڑ جائیں۔ ہماری پچھلی گلی علامہ اقبال ٹاؤن لاہور سے دو دن پہلے حاجی صاحب سے اس وقت چار ڈاکو وہ بکرے گن پوائنٹ پر چھین کر لے گئے جو حاجی صاحب نے سال پہلے خریدے، محبت سے پالے، جوان کئے اور محبت سے انہیں چکر لگوانے نکلے تھے۔ وہ بکرے کہاں خوشی خوشی قربان ہوں گے اللہ ہی جانتا ہے۔ حاجی صاحب نے تو ہمیں پیغام بھیجا ہے۔ محسن میاں اگر قربانی کرو تو دوچار کلو گوشت ہمیں بھی چکھا دینا۔ اب تو نئے بکرے خریدنے کی سکت نہیں بکرا لیں کہ جون کا بجلی کا بل دیں؟ توبہ توبہ…… یہ دن بھی ہم نے دیکھنا تھے۔
لو پھر سنو…… پچھلے سال ہم بکرامنڈی گئے، چھترا لینے شام کا وقت تھا ہم نے بڑا صحت مند چھترا خریدا اور پہنچ گئے گھر۔ گھر آ کے پتہ چلا کہ یہ تو بھیڑ ہے چھترا نہیں۔ اب ہم شرمندہ…… ہم باپ بیٹے نے فیصلہ کیا کہ کل عید ہے جیسے تیسے رات گزاریں۔ صبح قصائی سے ساز باز کرکے بھیڑ ہی قربان کر دیں گے۔ سائیں کہتا تھا بھیڑ کا گوشت؟
یہ جو بکروں کے تاجر آتے ہیں، سادہ سے لوگ لگتے ہیں۔ دیہات سے آئے معلوم ہوتے ہیں لیکن یہ اپنے کام میں ماہر ہوتے ہیں اور شہری شہزادوں کو ہاتھ دکھاتے چلے جاتے ہیں۔ یہ ایلفی کا استعمال بہت کرتے ہیں۔ بکری کو بکرا بنا دیتے ہیں، سینگ کسی کے کسی کو ایلفی کی مدد سے سجا کر ایسے ویسے بکرے کو ہیرو بنا ڈالتے ہیں۔ وہی میک اپ والی بات۔ ویسے خوفناک تڑپا دینے والی بات یہی ہے کہ بہت سے گھروں میں یہ بات، بحث چل رہی ہے کہ اس بار قربانی کریں یا بجلی کا بل ادا کریں؟ حکومت وقت نے پٹرول کی قیمت میں چار روپے لیٹر کمی کرکے ہم پر احسان عظیم تو کر دیا ہے۔ دیکھیں اب ایسی مزید کوئی فراخدلی ہوتی ہے یا نہیں؟
جب سے احمد عدنان طارق کو U.B.L ادبی انعام پانچ لاکھ روپے ملا ہے۔ لوگ پریشان ہیں۔ رات تین بجے جب اک جھٹکے سے میری آنکھ یہ سوچتے ہوئے کھل گئی کہ یہ U.B.L والوں کو یہ احمد عدنان طارق ہی نظر آیا تھا۔ پانچ لاکھ والا ایوارڈ دینے کے لئے پھر میں نے شرمندگی سے ”گرم دل“ کے ساتھ غور کیا کہ تم نے کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے جو تم بھی ”حسن“ کی آگ میں جل رہے ہو۔ احمد عدنان اور نذیر انبالوی بچوں کے ادب سے وابستہ یہ نام ہیں جنہوں نے بہت لکھا بہت زیادہ لکھا اور خوب لکھا۔ نذیر انبالوی نے پچھلے چالیس سال میں یہ سب لکھا۔ اور احمد عدنان طارق نے بارہ سالوں میں۔ یہ دونوں جن لگتے ہیں۔ اتنا لکھتے ہیں۔ معیاری لکھتے ہیں اور تھکتے نہیں اور تحریریں بھی ایسی کہ بچے پڑھتے ہیں تھکتے نہیں۔
ہمارے بچپن اور لڑکپن میں سات آٹھ بچوں کے شاعر ہوا کرتے تھے۔ فیصل آباد سے سرور بجنوری بہت اچھے بچوں کے شاعر نہ تو ان کی نظمیں نصاب کی کسی کتاب میں چھپیں نہ ان پر کسی نے کوئی تحریر لکھی۔ یہ ہمارے اندر کا خوف ہے جو ہمیں بڑے کو بڑا کہنے سے روکتا ہے۔ حالانکہ کسی بڑے کو بڑا لکھنے سے ہم چھوٹے نہیں ہو جاتے۔ یہ میرا خیال ہے۔ باقی ہر انسان کی اپنی مرضی ہے اپنی سوچ ہے۔ پھر خالد بزمی بہت بڑے بچوں کے شاعر، رفیق احمد خان بہت بڑے بچوں کے شاعر، مت پوچھیں رفیق احمد خان کی شاعری کا کیا معیار و مرتبہ تھا۔ ملتان سے مدرس تھے۔ خادم کیتھلی ان کی شاعری بھی کمال فن تھا۔ گوجرانوالہ کے راز کاشمیری، اقبال نواز اور ریاض قادری گوجرانوالہ کے ہی محمد احمد شاد بھی بہت اچھے شاعر تھے، بچوں کے ادب سے جبکہ نثر نگاروں میں کراچی کے بہت بدنام، معراج معراج کے نام سے ایک صاحب نے بہت لکھا۔ مسعود احد برکاتی، پروفیسر ظریف وغیرہ وغیرہ۔
آج کل بحث چل رہی ہے بڑا کون…… اس بحث کا اختتام کرنا ہے تو سید بدر سعید اور اظہر عباس صاحب کی تجویز پر غور کر لیا جائے…… کہ امجد جاوید اور ندیم اختر کی مشاورت سے ایک اجلاس بلایا جائے۔ سب لکھاری شریک ہوں گفتگو ہو اور مشترکہ مطالبہ کیا جائے کہ اکادمی ادبیات بچوں کے ادب کے حوالے سے طبع زاد، ترجمہ، شاعری، اداریہ نویسی، افسانہ اور ناول کے سلسلہ میں کم از کم بیس لکھاریوں کو اردو میں بیس بیس دوسری زبانوں میں لکھنے والوں کو ہر سال یونائیٹڈ بینک ایوارڈ کی طرح انعامات و اسناد سے نوازے جیسا کہ 11جون سے 13جون 2024ء کو انہی پرانے ادبی ایوارڈز کے سلسلہ میں اسلام آباد میں تقریبات ہو رہی ہیں جہاں محترمہ نجیبہ عارف صدر نشین اکادمی ادبیات کی خاص کاوشوں سے کئی سال سے رکے ہوئے ایوارڈز دیئے جا رہے ہیں۔ امید ہے محترمہ نجیبہ عارف بچوں کے ادب کے حوالے سے بھی کوئی ٹھوس قدم اٹھائیں گی کہ بچوں کے لکھاری اک نسل کی تربیت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی ہم پر فرض ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.