ریاست ماں ہوتی ہے

139

 

 

کیا اس دیس میں حضرت انسان کی جان کی قیمت فرات کنارے مرتے کسی بھوکے پیاسے کتے سے بھی کم ہے؟ اور المیہ تو یہ ہے کہ جیب میں قیمت لیے در در بھٹکتے لوگوں کے لیے بھی جان بچانے کے اسباب موجود نہیں ہیں۔ پھر ہم نجانے کیسے یہ کہہ لیتے ہیں کہ اس ملک نے ہمیں کیا نہیں دیا؟ ہم نے دہائیوں سے اسے اپنا لہو دیا، اپنی جوانیاں دیں، اور تو اور اپنی جانیں تک دے چھوڑیں۔۔۔ اور ہمیں جواب میں ملا کیا؟ بھوک؟ افلاس؟ بے روزگاری؟ دہشت گردی؟ اگلے روز ایک شخص نے ایک جملہ کہا کہ اس کی کیا زندگی ہے جس کی ماں نہ ہو اور میں نے بیٹھے بیٹھے سوچا کہ میری ماں تو ہے لیکن نہیں ہے، ہاں میاں لوگ کہتے ہیں نا کہ ریاست ماں ہوتی ہے۔ تو ماں کے سامنے اس کی اولاد ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ رہی ہے اور ماں جانے کس مستی میں مگن ہے۔ خیر اس دل داغ داغ پر زخم تو ہزاروں ہیں، مگر اس سمے جس امر نے مجھے تکلیف میں مبتلا کر رکھا ہے کہ 2023-24 کے لیے اربابِ اختیار نے وفاق میں 24 بلین کی رقم صحت کے لیے مختص کی، پنجاب میں 473.620 بلین، سندھ میں 214.547 بلین، بلوچستان میں 65 بلین اور خیبر پختونخوا میں 232.80 بلین کا بجٹ ہونے کے باوجود 235.8 ملین کی آبادی کے ملک میں گنتی کی چند ایک سائکلوٹرون مشینیں ہیں، ریاست کے بچے جیسے اپنی جیب خرچ بچا کھچا کر ایک لمبی قطار بنائے ماں کے سامنے دامن پھیلائے کھڑے ہوں اور ماں کے پاس ان کو دینے کو فقط دلاسے اور تسلیاں ہوں۔ فی الوقت صرف انمول میں سکین کے لیے ستر اسی کی قطار لگی ہے اور مہینے سے پہلے کی تاریخ ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ آپ جیب میں پیسے ہونے کے باوجود اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی زندگی کو قطرہ قطرہ پگھلتے دیکھتے رہیں گے اور آپ بے بس ہوں گے۔ صحت کا محکمہ چلو سرکار کا تو بھلا ہی دیں کہ ہمیں علم ہے کہ ریاست کے پاس اس سے زیادہ اہم کام ہیں، آخر ہر سال ایک ملی نغمہ جاری کرنا کوئی آسان بات تھوڑی ہے۔ نجی اداروں نے بھی ایسی اندھیر نگری مچا رکھی ہے کہ الامان و الحفیظ۔

لاہور کے دل جوہر ٹاؤن میں واقع پاکستان کے مہنگے ترین ہسپتالوں میں سے ایک کے عملے کا رویہ گر دیکھو تو دل خون کے آنسو رونے پہ آ جاتا ہے، گویا آپ اپنی خون پسینے کی کمائی وہاں جا کے جھونک دیں کہ آپ کے عزیز مریض کو کم از کم معیاری ماحول اور بہترین سہولیات میسر ہوں، لیکن آپ چیخ چیخ پاگل ہو جائیں اور نرسنگ سٹاف کے کان پر جوں تک نہ رینگے تو آپ بس کفِ افسوس ہی مل سکتے ہیں۔ ہر صبح بلا ناغہ آپ کو لاکھ دو کا بل پکڑا دیا جائے مگر آپ کے بارہا بلانے پر بھی آئی سی یو کی شفٹ انچارج اپنے کمرے سے باہر آنا گوارا نہ کرے اور پھر جب آپ اپنی شکایت لے کر مینجمنٹ کا در کھٹکھٹائیں تو آپ سے کہا جائے کہ ہمارا تو بھائی بزنس ہے، اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے پیسے کا درست استعمال نہیں ہو رہا تو باہر مزید دکانیں کیا کم ہیں؟ کہیں اور لے جائیں۔ میں نے بہت پہلے ایک جملہ لکھا تھا کہ جیسے کسی سرکاری ہسپتال کی بوسیدہ عمارت میں غریب کا بیمار نحیف لڑکا ایڑھیاں رگڑ رگڑ کے دم توڑتا ہے بالکل اسی طرح میں نے ”احساس“ کو مرتے دیکھا ہے۔ لیکن مجھے شاید اس جملے سے سرکاری ہٹا کر نجی لکھنا چاہیے تھا اور بوسیدہ کی جگہ سٹیٹ آف دی آرٹ عمارت میں امیر کے بچے کی حالتِ زار لکھنا چاہیے تھا۔ آپ کسی شام گرم بھاپ اڑاتا چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑے اپنے چہرے کے سامنے اخبار پھیلائیں اور آپ کی نظر کسی ایسی سرخی پہ پڑے ”دودھ پیتے بچے کا گلا دبا کر ماں آشنا کے ساتھ فرار“ تو آپ سوچتے ہوں گے کہ ایسی آوارہ بد چلن مائیں کہاں پائی جاتی ہیں؟ آئیں دیکھیں اپنے ارد گرد، آپ کی میری، سب کی سانجھی ماں کا عالم بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اپریل 2010 میں ہم نے اٹھارویں ترمیم نام کا ایک لُچ تلا جس کے تحت ہم نے صحت کا شعبہ اٹھا کر صوبوں کی جھولی میں ڈال دیا، لیکن اس شعبے کے فنڈز ہم نے وفاق کی مٹھی میں جکڑے رہنے دیئے، ریاست نے برستی بوندوں کی طرح صحت کے لیے پیسہ دیا جسے افسران بالا نے اپنی بدعنوانی کے جہنم میں جھونک دیا، اب بھلا بوندوں سے جہنم کبھی بجھ پائی ہے؟

آئیے آپ کے سامنے کچھ دلخراش حقائق رکھتے ہیں پھر فیصلہ آپ خود کر لیجیے گا۔ دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان ہر شخص پہ کم و بیش 38 ڈالر صحت کے لیے لگاتا ہے۔ جبکہ انڈیا 57 ڈالر فلپائن 165 ڈالر اور گھانا 85 ڈالر لگاتا ہے۔ ہر سال کم و بیش 32879 افراد طب کی ڈگری حاصل کرتے ہیں جس کا 40 فیصد ملک سے باہر سیٹل ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کل ملا کر 1276 ہسپتال، 5558 بنیادی صحت مراکز، 5802 ڈسپنسریاں 780 زچہ و بچہ صحت سنٹر اور 416 ٹی بی سنٹر تھے، اور اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق شرح اموات 186 رہی۔ شاید آپ کی میری ماں کے آشناؤں کے نزدیک بنیادی صحت فراہم کرنا اہم ہی نہیں، کیوں کہ وہ آشنا تو کسی مشکل کی صورت میں اپنے پرائیویٹ جہاز میں بیٹھ کر مغرب کی بہترین سہولیات سے فیض یاب ہو سکتے ہیں۔ شاید جارج آرول نے اپنی کتاب ”اینیمل فارم“ میں درست لکھا تھا کہ تمام جانور برابر ہوتے ہیں مگر کچھ جانور زیادہ برابر ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ اور میں اس سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں؟ اول تو ہم اپنی ہی ماں کی تجوری پہ ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیں اور اتنی ٹکا کر بدعنوانی کریں کہ مشکل پڑنے پر جہاز پکڑیں اور کسی ایسے ملک جا اتریں جہاں زیادہ برابر جانور جاتے ہیں۔ یا پھر ہم اپنے ہونٹ سی لیں اور بے بسی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گریں اور اپنی ماں کی بدچلنی کو بس خاموشی سے دیکھے جائیں۔ لیکن دکھ تو یہ ہے کہ

ہونٹ سی کر بھی کہاں بات بنی ہے محسن

خامشی کے سبھی تیور ہیں صداؤں والے

شاید کسی روز ہماری کوئی صدا ہماری ماں کی آ نکھیں کھول دے، شاید ہماری ماں کو ہم پر ترس آ جائے، شاید ہماری ماں ہماری نازک گردن میں اپنے خونخوار ناخن دھنسانے سے باز آ جائے۔

تبصرے بند ہیں.