کون بنے گا طلعت حسین؟

25

میں نے اپنے ایک انتہائی عزت دار فنکار طلعت حسین کے انتقال پر لکھے جانے والے اپنے گزشتہ کالم کے اختتام میں اپنی ایک اور انتہائی عزت دار اور گریس فل فنکارہ عظمی گیلانی کا زکر کیا تھا، وہ اب مستقل طور پر آسٹریلیا شفٹ ہو چکی ہیں، میں جب بھی آسٹریلیا جاتا ہوں ان سے لازمی ملتا ہوں۔ اللہ نے انہیں صحت کے حوالے سے ایک بڑی آزمائش سے نجات دی، وہ اب سڈنی میں بہت آسودہ زندگی بسر کر رہی ہیں مگر ان سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے ان کے جذبوں باتوں اور آنسوؤں سے احساس ہوتا ہے وہ پاکستان کو بہت مس کرتی ہیں، میں اکثر ان سے پوچھتا ھوں ”آپ کا پاکستان واپس جانے کو جی نہیں چاہتا؟“، وہ فرماتی ہیں ایک تو کینسر کی آزمائش کے دوران میرے بچوں نے میری جو خدمت کی اب انہیں چھوڑ کے جانے کو جی نہیں چاہتا، دوسرے میں اس وجہ سے بھی نہیں جاتی میرا اب وہاں کون ھے؟ کس کو پتہ عظمی گیلانی کون ہے؟” میں انہیں بتاتا ہوں “پاکستان میں آپ لاکھوں لوگوں کو ابھی تک یاد ہیں، وہ آپ سے محبت ہی نہیں عقیدت بھی رکھتے ہیں” میں نے انہیں بتایا پچھلے دنوں میں نے آپ کے ساتھ اپنی ایک تصویر اپنی فیس بک وال پر شئیر کی مجھے فورا اپنے ہیرو بھائی احسن خان کا فون آگیا وہ مجھ سے پوچھنے لگے “عظمی گیلانی صاحبہ پاکستان آئی ہوئی ہیں؟ میں نے ان کی قدم بوسی کرنی ہے” میں نے انہیں بتایا یہ تصویر آسٹریلیا کی ہے، وہ بولے “میری بڑی خواہش ہے وہ کبھی پاکستان آئیں اور مجھے ان کی خدمت کا موقع ملے” احسن خان ہمارا ایک بہت ہی باادب ہیرو ہے، اپنے سینئرز کی جتنی قدر و عزت وہ کرتا ہے یہ توفیق ہمارے بہت کم فنکاروں کو ہوتی ہے، ابھی پچھلے دنوں ہندوستان سے اداکارہ ممتاز بیگم پاکستان آئی ہوئی تھیں، احسن خان نے ان کی اتنی خدمت کی وہ کہنے لگیں ”میرا واپس جانے کو جی ہی نہیں چاہ رہا“، پچھلے دنوں میرے ایک اور ہیرو بھائی منیب بٹ کراچی سے لاہور تشریف لائے، میرے گھر پر میری فیملی سے باتیں کرتے ہوئے وہ بھی عظمی گیلانی صاحبہ کے بارے میں بہت خوبصورت جذبات کا اظہار کر رہے تھے، گزشتہ روز طلعت حسین کی وفات پر میرا کالم پڑھنے کے بعد عظمی گیلانی صاحبہ کا مجھے میرے واٹس ایپ پر ایک طویل وائس میسج موصول ہوا، وہ بہت رنجیدہ تھیں، وہ ریڈیو پاکستان کو یاد کر رہی تھیں، اس ادارے کے لئے ان کی بہت خدمات ہیں، ریڈیو کے لئے انہوں نے کئی مارننگ شو کئی مذہبی پروگرام کئی انٹرویوز اور ڈرامے کئے، سامعین کے خطوں کے جواب بھی وہ دیتی تھیں، وہ کہتی تھیں ”ریڈیو میرا میکہ اور پی ٹی وی میرا سسرال ہے“، اب ان کا میکہ اور سسرال دونوں زوال پذیر ہیں، میں نے اپنے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا “ہمارے سیاسی حکمرانوں کو تیزی سے زوال پذیر ہوتے ہوئے ایک ادارے کے ناز نخرے وغیرہ اٹھانے سے تھوڑی فرصت اگر مل جائے اپنے آرٹ اور کلچر کو بچانے کا بھی وہ کچھ سوچیں، کوئی ایسا ادارہ یا اکیڈمی ہی بنا دیں جو کم از کم ان رائیٹرز سے ہماری جان چھڑوا دے جو ڈراموں میں اپنے اپنے گھروں کی کہانیاں لکھ کے سوسائٹی کو مسلسل ایک ایسے بگاڑ کی طرف لے جا رہے ہیں جس سے واپسی شاید مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گی، مستنصر حسین تارڑ، انور مقصود، عطاالحق قاسمی، اصغر ندیم سید، یونس جاوید، منور سعید، خالد عباس ڈار، عرفان کھوسٹ، بشری انصاری، سہیل احمد، اورنگ زیب لغاری، فردوس جمال، غزالہ کیفی جیسی بڑی شخصیات سے استفادہ کیا جائے، یوسف صلاح الدین اور کامران لاشاری سے بھی راہنمائی لی جائے، نئے فنکاروں کو ان بڑے لوگوں کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ وہ اپنے کام اور کردار کو بہتر بنا سکیں، ہمارے اکثر فنکاروں کی پہلی و آخری ترجیح اب صرف سستی شہرت اور پیسہ بنانا ہے، طلعت حسین، قوی خان، عظمی گیلانی، روحی بانو، ثمینہ احمد، شکیل، جمیل فخری، فردوس جمال، اورنگ زیب لغاری، عرفان کھوسٹ، سہیل احمد، بشری انصاری، غزالہ کیفی جیسے بے شمار عظیم فنکار کسی ڈرامے میں وہ کردار ادا کرنے کا تصور تک نہیں کرتے تھے جس سے معاشرے میں اخلاقی بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا تھا، یا وہ کردار ان کے شایان شان نہیں ہوتا تھا، اب ہمارے اکثر فنکاروں کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے بس پیسہ اور سستی شہرت ملنی چاہئیے، کردار اور کام کیسا بھی ہو اْنہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ایک اور بات میں نے نوٹ کی ایک زمانے میں ہمارے فنکاروں میں بڑی عاجزی ہوتی تھی، آج کسی فنکار کو کسی فلم یا ڈرامے میں چھوٹا موٹا رول مل جائے اور اتفاق سے وہ فلم یا ڈرامہ تھوڑا ہٹ ہو جائے وہ فنکار فوراً خود کو دلیپ کمار سمجھنے لگتا ہے، میں ان متکبر فنکاروں کو یہ بتانے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں دلیپ کمار جب شوکت خانم ہسپتال کی ایک تقریب میں شرکت کے لئے پاکستان آئے مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا تھا وہ اتنی محبت سے ملے میں حیران رہ گیا یہ کتنا بڑا انسان ہے ایک ایسے نوجوان کو اتنی عزت و عاجزی سے مل رہا ہے جس کی کوئی شناخت ہی نہیں ہے، طلعت حسین بھی اپنے کام کے دلیپ کمار ہی تھے، عمومی طور پر ہم یہ بات محاورتا کہتے ہیں فلاں شخصیت یا فلاں فنکار صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے، طلعت حسین شاید صدیوں بعد بھی پیدا نہیں ہوں گے، وہ بس ایک ہی تھے جو چلے گئے، ہمارے نئے فنکار اگر چاہیں ان کے فن اور کردار سے اپنے لئے ایسی راہنمائی و تربیت کا اہتمام کر سکتے ہیں جو ہمیشہ ان کے لئے عزت کا باعث بنے گی، میری ان کے ساتھ صرف ایک ملاقات تھی، ہم نے اپنے ادارے ہم سخن ساتھی کے زیراہتمام ڈرامہ سریل ہوائیں کے فنکاروں کو کراچی سے لاہور بلوا کے خصوصی ایوارڈز دئیے تھے، اس تقریب کے لئے اصغر ندیم سید اور اْن کی بیگم ہوائیں کی رائیٹر فرزانہ ندیم سید نے ہماری بہت مدد کی تھی، یہ تقریب پی سی ھوٹل لاہور میں منعقد ہوئی، کراچی سے غزالہ کیفی، محمود اختر، قاضی واجد، فضیلہ قاضی، قیصر خان اور طلعت حسین بھی آئے، ان سب کے قیام کا بندوبست ہم نے پی سی ہوٹل لاہور میں ہی کیا تھا، طلعت حسین صاحب نے فرمایا وہ پی سی ھوٹل کے بجائے لاہور میں اپنے ایک عزیز کے گھر قیام کریں گے، مجھے ان کی عظمت کا یہ واقعہ آج بھی یاد ہے تقریب کے اگلے روز وہ جب کراچی جانے کے لئے لاہور ائر پورٹ پر آئے میں نے ایک لفافہ ان کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ان سے کہا ”آپ چونکہ پی سی ھوٹل میں نہیں ٹھہرے یہ کچھ رقم ہے آپ اسے قبول فرما لیں“، اْنہوں نے بڑی محبت سے میرے گال تھپتھپائے اور بولے ”آپ نے تو اپنی طرف سے بندوبست کر دیا تھا، میں نے اپنی مرضی سے اگر قیام نہیں کیا تو اس رقم پر میرا کوئی حق نہیں بنتا“، کیسے شاندار لوگ تھے جو رخصت ہوتے جا رہے ہیں، اس کے بعد میں اس خدشے کا شکار ہوں مستقبل میں کہیں ہمارے پاس ہر شعبے کا صرف کچرا یا کوڑا ہی تو نہیں رہ جائے گا کہ شاندار روایات والے رکھ رکھاؤ والے محبت مروت والے لوگ تو بڑی تیزی سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں،کل ایک صاحب مجھے بتا رہے تھے انہوں نے اپنے جاننے والے ایک مشہور ڈرامہ آرٹسٹ سے گزارش کی وہ ان کی بیٹی کی شادی میں شرکت کرے، ڈرامہ آرٹسٹ کہنے لگے ”ہم تو آج کل شادیوں میں شرکت کے پیسے لیتے ہیں، میرا اتنا ریٹ ہے، آپ چونکہ دوست ہیں آپ کو کچھ رعایت کر دوں گا“، بھانڈ طوائفیں اور کھسرے وغیرہ تو چلیں شادیوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے پیسے لیتے ہیں، کچھ ڈرامہ و فلم آرٹسٹوں یا ماڈلوں نے اپنے تعلق کاروں کی شادیوں میں پانچ دس منٹ کی شرکت کے ریٹ اللہ جانے کیوں مقرر کر دئیے؟ جہاں صرف پیسہ انسان کی ترجیح ہو وہاں شہرت تو مل جاتی ہے ساتھ وہ عزت نہیں ملتی جو طلعت حسین جیسے آرٹسٹوں کو صرف ان کی زندگی میں نہیں مرنے کے بعد بھی ملی رہتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.