فیک نیوز اور حکومتی قوانین

51

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک چھوٹی سی فیک نیوز پورے ملک میں ہلچل مچا سکتی ہے۔ جس کا مشاہدہ ہم گزشتہ کچھ عرصے میں کر چکے ہیں کہ جعلی ناموں، وی پی این اور بیرون ملک سے آپریٹ ہونے والے اکاؤنٹس سے افواج پاکستان و قومی سالمیت کے اداروں کے خلاف مذموم مہم چلائی گئی، جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں، فیک ٹرینڈز بنائے جاتے رہے۔ حد تو یہ ہے کہ سینئر افسران و محترم شخصیات کے نام سے فیک اکاؤنٹس بنا کر زہریلا پروپیگنڈا کیا گیا۔ اس جرم پر اب تک کئی منظم گروہ پکڑے جا چکے ہیں لیکن یہ مذموم سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ سوشل میڈیا خاص طور پر ٹویٹر اور یوٹیوب پر سنگین الزامات اور من گھڑت تجزیوں کی بھرمار ہے۔ اس کے برعکس بین الاقوامی میڈیا کے پروگرام آن ائیر ہونے سے قبل تصدیق کی جاتی ہے کہ یہ پروگرام ملک کی سلامتی کے خلاف تو نہیں، مذہبی و مسلکی منافرت پر مبنی تو نہیں، کسی کمیونٹی کی دل آزاری کا باعث تو نہیں۔ بعض اوقات ریٹنگ بڑھانے کے چکروں اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے۔ جبکہ ملک میں گزشتہ دنوں سے پنجاب حکومت کی جانب سے ہتک عزت بل 2024ء موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ صحافی برادری کا احتجاج بھی جاری ہے اور اپوزیشن کی جانب سے بھی تنقید برائے تنقید شروع ہے۔ تاہم منظور کردہ نئے بل کا اطلاق یوٹیوب سمیت ٹک ٹاک، ایکس، فیس بک، انسٹا گرام اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس کے ذریعے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں پر بھی ہو گا۔ جبکہ بل کے تحت پھیلائی جانے والی جھوٹی اور غیر حقیقی خبروں پر ہتک عزت کا کیس ہو سکے گا۔ کسی شخص کی ذاتی زندگی اور عوامی مقام کو نقصان پہنچانے کیلئے پھیلائی جانے والی خبروں پر قانون کے تحت کارروائی ہو گی۔ اس بل کے تحت پنجاب میں ٹریبونل کا قیام کیا جائے گا۔ اگر کوئی شخص الیکٹرانک، پرنٹ یا سوشل میڈیا کے ذریعے کسی کو بدنام کرتا ہے یا الزامات لگاتا ہے تو متاثرہ شخص اپنی شکایت ٹریبونل میں کر سکے گا۔ ٹریبونل سربراہ کے اختیارات لاہور ہائیکورٹ کے جج کے برابر ہوں گے، ٹریبونل کو پنجاب ڈیفیمیشن ٹریبونل کا نام دیا جائے گا۔ ٹریبونل کے سامنے اگر ہتک عزت ثابت ہو جاتی ہے تو جس شخص نے الزامات یا توہین کی ہو گی اسے 30 لاکھ روپے اس شخص کو دینا ہوں گے جس کے خلاف اس نے الیکٹرانک یا سوشل میڈیا پر الزامات لگائے تھے۔ اس قانون کے مطابق جن آئینی دفاتر کو تحفظ حاصل ہے ان میں صدر، وزیراعظم، سپیکر، قائد حزب اختلاف، گورنر، چیف جسٹس آف پاکستان، سپریم کورٹ کے ججز، چیف جسٹس اور لاہور ہائیکورٹ کے ججز شامل ہیں۔ سینیٹ کے چیئرمین، وزیراعلیٰ، صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اور ممبران، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، چیف آف آرمی سٹاف، چیف آف نیول سٹاف اور چیف آف ایئر سٹاف بھی ان میں شامل ہوں گے جن کے خلاف کوئی بھی جھوٹی خبر یا معلومات پھیلانا سنگین جرم تصور ہو گا۔ دوسری جانب صحافتی تنظیموں کی جانب سے موقف اختیار کیا جا رہا ہے کہ یہ بل آزادی اظہار رائے کو دبانے کا حکومتی حربہ ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اس بل کا بنیادی مقصد فیک نیوز کا خاتمہ ہے۔ تنقید کرنے والوں کے مطابق پنجاب ہتک عزت بل کو جس عجلت میں پیش کیا گیا اور اس میں جو طریقہ کار طے کیا گیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کا مقصد اپنے پیشرو قانون ہتک عزت آرڈیننس کی خامیوں کو دور کرنا نہیں بلکہ اختلاف رائے کو دبانے کیلئے سخت قانون سازی فراہم کرنا تھا۔ واضح رہے کہ 2022ء میں فیک نیوز کو کنٹرول کرنے کے لیے پیکا آرڈیننس 2022 جاری کیا جا چکا ہے۔ اس آرڈیننس کے ذریعے فیک نیوز کو اب ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے اور جو بھی اس جرم کا ارتکاب کرے گا اس کو پولیس اور ایف آئی اے گرفتار کر سکے گی۔ اس جرم کی سزا تین سال سے بڑھا کر پانچ سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ کی گئی۔ جج کو پابند کیا گیا کہ وہ فیک نیوز کے قوانین کے تحت مقدمات کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر کرے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں انصاف اور احتساب کا نظام بہت کمزور ہے اور 76 سال گزر جانے کے باوجود پاکستان میں احتساب کا شفاف اور یکساں نظام تشکیل نہیں دیا جا سکا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو“۔(مفہوم)۔ جعلی خبر تشہیر اور خاص مقاصد کے تحت شائع اور نشر کی جاتی ہے۔ جان بوجھ کر ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ عوام گمراہ ہو اور خاص مقاصد پورے ہوں۔ وطن عزیز میں اس وقت سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم مثلاً فیس بک، واٹس ایپ، انسٹا گرام، ٹوئٹر اور یو ٹیوب زیر استعمال ہیں، جہاں کوئی بھی اظہار خیال کر سکتا ہے۔ اسی آزادی نے ان کو جعلی خبروں کی فیکٹری بنا دیا ہے۔ عالمی طور پر فیک نیوز سے نمٹنے کے متعلق نئے نئے قوانین بن رہے ہیں لیکن اس کی موثر روک تھام نہیں ہو پا رہی۔ پاکستان جیسے کم ترقی یافتہ ممالک میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی شرح بہت زیادہ ہے۔ فیک نیوز بنا کر پھیلانے کا معاملہ بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ فیک نیوز کا معاملہ نیا نہیں ہے اور نہ ہی فیک نیوز صرف پاکستان میں گردش کرتی ہیں۔ یہ عالمی معاملہ ہے اور اس میں سوشل میڈیا کے فروغ کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور ہمارے لوگ بغیر تصدیق کیے، غلط خبر کو آگے شیئر کر دیتے ہیں جس سے اس کے پھیلاؤ کا تناسب بڑھتے بڑھتے سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ سوشل میڈیا قوانین کے حوالے سے چین، روس، ترکی، ایران، سعودی عرب سمیت بہت سے ممالک میں سخت قوانین نافذ ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے قانون کے مطابق ایسی اشاعت جو ریاستی مفادات، سلامتی، خودمختاری، امن عامہ، خوشگوار تعلقات کو نقصان پہنچا سکتی ہو، نفرت کے جذبات کو ہوا دے، کسی بھی ریاستی اتھارٹی یا ادارے پر عوام کے اعتماد کو کم کرے ایسی اشاعت کرنے والے کو تین لاکھ درہم سے ایک کروڑ درہم تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ مذکورہ Defamation bill پر کسی بھی قسم کی تنقید سے بچنے کیلئے یہ ہونا چاہئے کہ ایک طرف اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مشترکہ کمیٹی بنا کر آئین سازی کے ذریعے فیک نیوز کنٹرول قانون تیار کیا جائے تو دوسری طرف صحافی برادری اور یوٹیوب چینلز، فیس بک، سوشل میڈیا پر کام کرنے والوں اس سلسلے میں مشاورت کا آغاز کر کے متفقہ قانون کی تشکیل و نفاذ کی جانب پیشرفت کرنی چاہئے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو بٹھا کر اس معاملے میں اتفاق رائے سے فیصلے کرنے چاہئیں۔

تبصرے بند ہیں.